جمہوریت عدلیہ اور پولیس

عثمان دموہی  اتوار 28 جنوری 2018
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

قوموں کی زندگی میں جمہوری اقدار اور عدلیہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی دونوں عناصر قوموں کو عروج پر لے جاتے ہیں اور ان کے ناپید ہونے یا مصلحت کا شکار ہونے سے کسی بھی ملک میں کچھ بھی ہوسکتا ہے جیسے کہ پارلیمنٹ پر حملہ ہوسکتا ہے ،اسے توڑا پھوڑا جاسکتا ہے۔

سرکاری ٹی وی کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاسکتی ہے ۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مہینوں دھرنا دیا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس روکے جاسکتے ہیں۔ دارالخلافہ کو لاک ڈاؤن کیا جاسکتا ہے۔ تمام حکومتی کام کاج کو ٹھپ کیا جاسکتا ہے۔کرپشن کا بازار گرم ہوسکتا ہے شہروں میں ہنگامے، فساد اور قتل و غارت گری فروغ پاسکتے ہیں۔ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوسکتی ہے انھیں اغوا اور قتل کیا جاسکتا ہے۔ معصوم انسانوں کا ماورائے عدالت قتل کیا جاسکتا ہے۔

یعنی کمزور جمہوریت اور مصلحت آمیز انصاف کسی معاشرے کو تباہ کرسکتے ہیں اور انھی عناصر کے حقیقت پسندانہ استعمال سے معاشرے کوگل گلزار بنایا جاسکتا ہے۔ مجرموں کو انصاف کے ساتھ سزائیں دلانا عدالتوں کا کام ہے اور ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنا انتظامیہ کا کام ہے مگر پولیس کوکنٹرول کرنا اب انتظامیہ کے بس سے باہر نظر آرہا ہے جب کہ جرائم کی بیخ کنی میں پولیس کے کردارکی اہمیت کوکسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں پولیس کے نظام کو درستگی کی ضرورت ہے وہاں عدالتی نظام میں بھی درستگی کی کافی گنجائش موجود ہے۔

کئی جج صاحبان سے فرائض میں غفلت برتنے پر ان کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں جوابدہی کے لیے طلبی اور بازپرس کا ہونا ہمارے معاشرے کا المیہ نہیں تو کیا ہے پھر عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار اور ان کے نمٹانے میں سست روی کی روش نے سائلوں کو انصاف سے ہی بدظن کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو موجودہ حالات و واقعات سے متاثر ہوکر ہی کہنا پڑا کہ دوسروں کو درست کرنے کے بجائے اپنے ادارے کو درست کیا جائے۔ عدالتوں کے پاس اس وقت آٹھ لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ ادارے اپنا کام دیکھیں وہ انتظامیہ کے کاموں میں دلچسپی نہ لیں۔ اس لیے کہ جس کا جوکام ہے وہ کرے ورنہ ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت سے ملک میں ایک نیا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ عمران خان نواز شریف کے کیس میں ضرور عدلیہ کے کردار کی تعریف کرتے ہیں مگر جہانگیر ترین کے لیے فیصلے کو ناانصافی سے تعبیرکرتے ہیں اس طرح وہ بھی فیصلوں سے مطمئن نظر نہیں آتے۔

یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں برطانیہ پر جرمنی کے تابڑتوڑ ہوائی حملوں کی وجہ سے عوام سخت ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھے اور لگتا تھا کہ ہٹلر فرانس کی طرح برطانیہ پر بھی قابض ہوجائے گا، ایسی گمبھیر صورتحال میں چرچل جو ان دنوں برطانیہ کے وزیر اعظم تھے نے اپنے ایک مشیر سے دریافت کیا تھا کہ کیا ان کے ملک میں عدلیہ اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کر رہی ہے۔

مشیر نے عدالتوں کے کردار کی تعریف کی تو چرچل نے برجستہ کہا کہ جب ہماری عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے کر رہی ہیں تو پھر ہمیں کوئی ڈر نہیں ہونا چاہیے اور ہم بلاشبہ یہ جنگ جیت کر رہیں گے اور پھر ویسا ہی ہوا تھا کاش کہ ہمارے ملک میں بھی کردار مثالی رہا ہوتا۔ آمروں کو خوش آمدید نہ کہا جاتا۔ کاش کہ اب مستقبل ماضی سے مختلف رہے تو ہماری جمہوریت امریکا اور بھارت کی طرح دنیا کے لیے مثال بن سکتی ہے۔

انصاف میں تاخیر کو انصاف سے انکارکے مترادف قرار دیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں برسوں مقدمات چلتے ہیں انصاف چاہنے والا تھک جاتا ہے اور بعض دفعہ تنگ آکر اپنے حق سے دستبردار تک ہوجاتا ہے کاش کہ نظام میں بہتری کی کوئی سبیل نکل آئے۔ فی الحال چیف جسٹس صاحب کا معاشرے کے بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنے کا عزم قابل تحسین ہے۔ پانی کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں انھوں نے اہل کراچی کی سہولت کے لیے جو اقدامات کیے ہیں ، ان سے امید ہو چلی ہے کہ اب فراہمی ونکاسی آب کے مسائل حل ہوکر رہیں گے۔

انھوں نے اس ضمن میں میئر کراچی وسیم اختر اور سابق میئر مصطفی کمال کو طلب کرکے اس مسئلے کے حل کے لیے تجاویز طلب کرلی ہیں۔ چونکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ حکومت سندھ کی ماتحتی میں کام کر رہا ہے چنانچہ اس ادارے کی ناقص کارکردگی کی ذمے دار سراسر حکومت سندھ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اب اسے پھر کے ایم سی کے سپرد کردینا چاہیے اس سے میئر کراچی کا اختیارات میں کمی کا شکوہ بھی ختم ہوجائے گا مگر پھر ان کی کارکردگی کا امتحان شروع ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ایک ریٹائرڈ جج امیر مسلم ہانی کو واٹرکمیشن کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔ انھوں نے واٹر بورڈ کے واٹر فلٹر پلانٹس کا دورہ کیا ہے جہاں پانی کی ناقص صفائی کے ثبوت ملے ہیں۔ شہریوں کے پینے کے پانی کا پندرہ دن میں ایک بار فلٹر ہونا اور صرف پچاس فیصد پانی کا صاف ہونا انتہائی تشویشناک بات ہے۔ نقلی دودھ کے سلسلے میں بھی انھوں نے احکامات جاری کیے ہیں۔

بھینسوں کو زیادہ دودھ دینے کے لیے لگائے جانے والے ٹیکوں کی بندش کا بھی حکم دیا ہے، اگر ان احکامات پر عملدرآمد ہوجائے تو بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے بھی مختلف مہلک بیماریوں سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔ شہر میں چوریوں ڈکیتیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کا تو ذکر ہی کیا اب تو چینی ڈاکو بھی ہمارے ہاں آن پہنچے ہیں جب کہ پہلے ہی چوروں ڈاکوؤں کی کیا کمی تھی۔ اس وقت شہر کا سب سے سنگین مسئلہ یہ ہے کہ کئی نوجوان دہشت گردوں کے ہاتھوں نہیں ہماری پولیس کی گولیوں سے قتل کیے جاچکے ہیں۔

انتظار، نقیب اور مقصود کا خون انصاف کی دہائیاں دے رہا ہے۔ اس سلسلے میں بھی پولیس کی جانب سے خاموشی طاری ہے، انتظار اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا، اب اس کے ماں باپ کی دنیا ہی اجڑ چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس قتل کا نوٹس لیا ہے اور انھوں نے انتظار کے والد کو قتل کی مکمل انکوائری کرانے اور انصاف دلانے کا یقین دلایا ہے مگر پولیس کی جانب سے تو درست ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی ہے۔ ابھی انتظار کے قتل کا خون خشک بھی نہیں ہو پایا تھا کہ فاٹا کے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو پولیس نے ہلاک کردیا۔ اس جعلی مقابلے کی ٹیم کے سربراہ کراچی کے جانے پہچانے ایس ایس پی راؤ انوار تھے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے راؤ انوار کو اپنی صفائی پیش کرنے کا حق دیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ راؤ انوار پر پہلے ہی کئی نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیے جانے کے الزامات ہیں ادھر ایک اور شہری مقصود کو بھی پولیس نے ایک مقابلے میں ہلاک کردیا ہے۔ پولیس نے اسے ڈاکو قرار دیا ہے جب کہ مقصود کے لواحقین کی جانب سے اسے پولیس کا سفید جھوٹ قرار دیا گیا ہے۔ ان تینوں قتال نے کراچی کے شہریوں کو سراسیمگی کی حالت میں مبتلا کردیا ہے۔

کراچی کے شہریوں کو کچھ ہی عرصہ قبل سکون کا سانس لینے کا موقع میسر آیا تھا۔ وہ گزشتہ تیس سالوں تک مسلسل دہشت گردی کے عفریت میں جکڑے رہے ہیں۔ بوری میں بند لاشیں ملنا اور سڑکوں پر کھلے عام قتل و غارت گری کے واقعات اس وقت روز کے معمول تھے۔

اگر پاک فوج نے حالات نہ سدھارے ہوتے تو اب بھی وہی حالات برقرار رہتے شہریوں کے مطابق حالات کو تبدیل کرنے میں مصطفیٰ کمال کے نعرۂ وطن پرستی کے مثبت اثرات کو بھی کسی طرح فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ گمبھیر شہری مسائل اور پولیس کے بگڑے نظام کو سدھارنا حکومت سندھ کی ذمے داری ہے اگر حکومت نے شہریوں کو ان مسائل سے نہ نکالا تو پھر پیپلز پارٹی کے لیے کراچی سے اس کے دعوے کے مطابق تمام سیٹوں کا کیا، چار پانچ سیٹوں کا جیتنا بھی محال ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔