سویرے جو نہ کل آنکھ میری کھلی!!

شیریں حیدر  اتوار 28 جنوری 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

صحیح پڑھا آپ نے… سویرے جو نہ کل آنکھ میری کھلی، جانتی ہوں کہ مشہور فقرہ وہی ہے جو آپ جانتے ہیں، ’ سویرے جو کل آنکھ میری کھلی!‘ مگر ہم سب کی زندگیوں میں وہ ایک سویر بھی آنی ہے جس دن ہماری آنکھ اس طر ح نہیں کھلے گی جس طرح ہر روز کھلتی ہے- میںنے ایک ایسی ہی سویر کو تصور کیا-

اس صبح جب بیٹا حسب معمول تیار ہو کر نیچے آیا تو اس کا ناشتہ تیار نہ تھا، مجبورا اس نے خود ہی اپنے ناشتے کا اہتمام کرنا شرو ع کردیا کہ ماں آج شاید کوئی زیادہ ہی سہانے خواب دیکھ رہی ہے جو اٹھ کر نہیں آئی- باپ بیٹے نے اکٹھے ناشتہ کیا، حیرت کا اظہار بھی کیا کہ نہ روشنی ہونے سے جاگی ہے نہ شور سے ڈسٹرب ہو کر اٹھی ہے، بیٹا گھر سے رخصت ہونے کے لیے حسب معمول مجھے ’ اللہ حافظ‘ کہنے کے لیے آیا تو اسے کچھ عجیب سا احساس ہوا، وہ چیخا، باپ کو بلایا اور دونوں کو تشویش ہوئی، مجھے جھنجوڑا، ہلایا جلایا، منہ پر ہولے ہولے چپتیں بھی لگائیں ، زندگی میں ایسا کبھی نہ ہوا تھا اب بھی میں جاگی ہوتی تو دیکھتی کہ کون مائی کا لال… اپنی سوچوں کو لگام دی، اب مجھے اس طرح نہیں سوچنا چاہیے-

’’ اماں آپ مجھے یوں چھوڑ کر نہیں جا سکتیں!! ‘‘ بیٹا مجھے جھنجوڑتے ہوئے رو رو کر کہہ رہا تھا- لگتا ہے کہ اس نے حال ہی میں کوئی شاہ رخ خان کی فلم دیکھی ہے جس کی نقالی کرنے کی کوشش کر رہا تھا، حالانکہ اسے ابھی اس کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ ابھی اس کو دیکھنے والا کوئی تماشائی نہ تھا-

صاحب جوحسب عادت اور حسب معمول ہر روزکی طرح سویرے اٹھ کر غسل فرما کر، تیل کنگھی کر کے، کلف شدہ جوڑا پہن کر اور پرفیوم کی آدھی بوتل انڈیل کر… اپنا ناشتہ پیٹ بھر کر تناول کر چکے تھے، انھیں اب احساس ہوا کہ انھیں ناشتے کے لیے مجھے جگا کر تو دیکھنا چاہیے تھا تاکہ علم ہوتا کہ مجھے اب کبھی نہیں جاگنا تھا تو کم از کم وہ ناشتہ نہ کرتے اور ان کے چہرے پر بھرے ہوئے پیٹ کی طمانیت کا احساس تو نہ سجا ہوتا – اب کسی کو بتائیں گے کیسے کہ انھیں اندازہ ہی نہ ہوا تھا کہ ان کی تین دہائیوں کی رفیقہ آج پہلی بار ان سے پہلے جاگی تھی نہ اس نے ناشتہ بنایا تھا اور انھوں نے پیٹ بھر کر اس کے بغیر ہی ناشتہ کر لیا تھا-

’’ ابا اطلاع کریں سب کو؟ ‘‘ بیٹے نے سوال کیا-

’’ میرا خیال ہے کہ ایسا ہی کرنا چاہیے… پہلے کسی کو بلاتے ہیں کہ تھوڑا گھر کا سامان وغیرہ سمیٹ لے، اس سے پہلے کہ گھر میں رش ہوجائے، سو چیزیں کھلی پڑی ہیں، ادھر ادھر نہ ہو جائیں – دونوں نے اپنی اپنی قیمتی اور اہم چیزوں کو سمیٹا، اے ٹی ایم سے جا کر بیٹا دونوں کے کارڈوں کو استعمال کر کے کافی رقم نکلوا کر لے آیا تھا- سامان سمٹ گیا تو لاہور والی بیٹی کو کال کر کے کہا گیا کہ وہ چند دن کے لیے اسلام آباد آ جائے… اس کے بیٹے سے دل بہت اداس ہو رہا تھا اور آخر میں اسے کہا گیا کہ اس کی اماں اسے بہت مس کر رہی ہیں-

’’ ابا ، اماںسے بات کروائیں ، میں ان سے پوچھوں کہ اسلام آباد کا موسم کیسا ہے، کس طرح کے کپڑے لے کر آؤں چھوٹو کے؟ ‘‘

’’ وہ اماں … وہ سو رہی ہیں !! ‘‘ بیٹے نے فورا بہانہ گھڑا-

’’ کیوں اماں کی ٹین ایج والی بے فکری کی نیندیں شروع ہو گئی ہیں کیا؟ ‘‘ اس نے مذاق سے کہا-

’’ آپ اماں کے بارے میں یوں تو بات نہ کریں !!‘‘ بیٹے نے اداس ہو کر کہا-

’’ اچھا بتاؤ کوئی پارٹی شارٹی تونہیں… تمہاری سسرال تو نہیں جانا، کسی کی شادی؟ ‘‘ اس نے سوال کیا، ’’ جب بھی آؤ تو ایسا کوئی نہ کوئی موقع نکل آتا ہے اور پھر میرے پاس موقع کے حساب سے کپڑے نہیں ہوتے!!‘‘

’’ نہیں آپا… ایسے کپڑے لے کر آئیں جنھیں پہنیں تو لوگ سمجھیں کہ آپ حالت غم میں ہیں !! ‘‘ بیٹے نے کہہ کر فون بند کر دیا اور بیٹی اس کے اس فضول مذاق پر دیر تک بڑبڑاتی رہی- داماد کو علیحدہ سے فون کر کے بتا دیا گیا تھا کہ اصل صورت حال کیا ہے، اس لیے وہ اپنے دفتر سے اسی حساب سے چھٹی لے کر آئے-

روتے پیٹتے دس دن گزر گئے تھے اور بیٹی داماد کو واپس بھی جانا تھا، اس سے درخواست کی گئی کہ وہ دو تین دن رک کر میرے سامان کی چھانٹی کر جائیں تا کہ اسے دیکھ دیکھ کر گھر میں رہنے والوں کو دکھ نہ ہو-

’’ اماں یہ تولیہ لے لو، دو کاٹ کر پوچے بنا لو!!‘‘ بڑے بھائی جان نے یہ تولیہ دس سال پہلے میری سالگرہ پر مجھے تحفہ دیا تھا،ا سے استعمال کم کیا تھا میں نے اور سنبھال کر زیادہ رکھا تھا-

’’ رہنے دو بیٹا، میں استعمال کر لوں گا!!‘‘ دبی سی آواز آئی-

’’ آپ گلابی تولیہ استعمال کریں گے اور وہ بھی جس پر لکھا ہوا ہے، ’ ’ Wolrd’s Best Sister ‘‘

’’ آپ کے پاؤں کا سائز کیا ہے اماں ؟ اچھا ٹھیک ہے آپ بوری لائیں اور یہ سارے جوتے اٹھا کر گھر لے جائیں ، جس کو پورے ہوں اسے دے دیں !!‘‘ بیٹی کے حکم پر میرے دنیا بھر سے اکٹھے کیے گئے ان جوتوں کی ساری لاٹ ایک ہی بوری میں بند ہو کر لنڈا بن گئی-

’’ ان کے کپڑے آپ لوگ خود پہن لینا بیٹا، آپ دونوں بہنیں اور بہو رانی، انھیں تو بہت مہنگے کپڑے پہننے کی عادت تھی ، میں نے عمر بھر میں جو بھی کمایا ہے انھوںنے پہن کر ہی اڑایا ہے! ‘‘ ایک اور درخواست جو مسترد ہو گئی-

’’ انھیں پہننے کے لیے تو ہمیں اماں جتنا موٹا ہونا پڑے گا اور اس میں بہت محنت لگے گی، انھیں اپنے سائز کے مطابق فٹ کروانے کے لیے درزی کو جو پیسے دینا ہیں اس سے بہتر ہے کہ ہم نئے کپڑے سلوا لیں !! ‘‘ ہینگروں پر ٹنگے ہوئے نفیس اور قیمتی ملبوسات تھوڑی دیر میں ملازموں کی ملکیت بن گئے ، جن کی ماؤں ، بہنوں کو یا خود ان کو وہ استعمال کرنا تھے-

’’ میک اپ کی الماری کھلی… ’’ توبہ!! اماں کی عمر دیکھو اور میک اپ کے سامان سے بھری الماری دیکھو، پرفیوم رکھ لیے گئے، میک اپ کی چیزوں کے برانڈ پڑھ کر اسی حساب سے انھیں آپس میں تقسیم کیا گیا اور زیادہ تر میک اپ کوڑے دان کی نذر کردیا گیا کہ ملازموں کو اس کے استعمال کا کیا علم- وہ سب چیزیں جو میں نے کتنی مشکل سے رقمیں بچا بچا کر خریدی تھیں، سب اس وقت بے وقعت ہو چکی تھیں- اس سے کہیں بہتر تھا کہ میں اپنے ہاتھوں سے کسی کو دے دیتی- زیورات جو بھی تھے، ظاہر ہے کہ ان کی کوئی وقعت تھی، مالیت تھی اور ان کی کوئی معیاد نہیں ہوتی سو وہ سب ابا نے محفوظ کر لیے کہ وہ خود ان کو اپنی مرضی سے تقسیم کریں گے- بیٹیوں اور بہوؤں نے عجیب نظروں سے ابا کو دیکھا، شاید ابا کی نیت پر شک تھا، کچھ بھی سوچنے میں حق بجانب تھیں-

اب باری تھی میرے درازوں کی، انھیں کھولتی جاتی تھیں اور ہنستی جاتی تھیں، توبہ اماں کی کلیکشن دیکھو… ہمارے برتھ سرٹیفکیٹ، اسکول کی رجسٹریشن کی کاپی- کس نے ہماری پیدائش پر کیا دیا تھا، آپا آپ کی پیدائش پر چاچا جی نے دس روپے دیے تھے!!‘‘… ’’تو تیس برس پہلے دس روپے کافی ہوتے تھے!!‘‘… ’’ پھر بھی دس روپے!! ‘‘ہنسی ابلی، ’’ہماری اسکول کی رپورٹیں، بھائی دیکھو تم چھٹی کلاس میں اسلامیات میں فیل ہوئے تھے، کیسے مسلمان ہو تم ؟ ‘‘اس پر ہنسی کا ایک اور فوارہ ابلا- ’’ حساب کی ڈائریاں دیکھو اماں کی!! گوشت آٹھ روپے کا آدھا کلو ہوتا تھا اس زمانے میں !! سو روپے کے دس کلو آم!! واہ بھئی واہ، ہم بھی اسی زمانے میں پیدا ہوتے تو اچھا تھا، جی بھر کے گوشت کھاتے اور آم چوستے!! ‘‘وہ پھر ہنسے، کمینے، جیسے اب انھیں گوشت اور آم نہیں ملتے- وہ صرف ہنس ہی نہیں رہے تھے بلکہ میری جوانی، اپنا بچپن، لڑکپن، میری مامتا، میرے خیالات اورخواب پھاڑ پھاڑ کر کوڑے دان میں ڈالتے جا رہے تھے یہاں تک کہ سارے دراز خالی ہوگئے-

اپنی اپنی تصاویر ان سب نے البموں میں سے نکال لیں، وہ انھیں اپنے پاس محفوظ کرنا ہوں گی، اپنے بچوں کو دکھانے کے لیے- وہ تصاویر جو ہم میاں بیوی کے بڑھاپے کا سہارا اور ہماری یادوں کے چور دروازے تھے- بچے پاس نہ تھے تو ان کی یادیں ہی سہی، اب وہ سب کچھ ختم ہو گیا تھا، یوں بھی کچھ عرصے سے ہم دونوں اپنے اپنے فون پر زیادہ مصروف رہنا شروع ہو گئے ہیں کہ یہ یادیں پرونے کا شغل بھی ختم ہو گیا ہے- سب کو اس کے بعد اپنے اپنے معمول میں مصروف ہو جانا ہے- سب کچھ ویسے ہی ہے، صرف ایک میں ہی اس منظر سے غائب ہوئی ہوں نا !! ہم سب اسی طرح جیتے ہیں ، جیسے ہمیں کبھی مرنا ہی نہیں اور مر جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔