گیٹ کیپر

جاوید چوہدری  پير 25 مارچ 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ہماری زندگی کے کچھ مناظر ہمارے ذہن کی دیواروں سے چپک کر رہ جاتے ہیں اور ہم آنے والی زندگی کو ان مناظر کی نظروں سے دیکھتے ہیں‘ یہ منظر محض منظر نہیں ہوتے ‘ یہ ہماری زندگی کی آنکھیں ہوتے ہیں‘ یہ ہماری بینائی ہوتے ہیں‘ میں نے ایک ایسا ہی منظر 1993ء میں دیکھا‘ یہ 26 مئی 1993ء کا گرم دن تھا‘ میربلخ شیر مزاری نگراں وزیراعظم تھے‘ مزاری صاحب پرانے سیاستدان اور ملک کے نامور جاگیر دار تھے‘ یہ 18 اپریل 1993ء کو اس وقت نگراں وزیراعظم بنائے گئے جب صدر غلام اسحاق خان نے اٹھاون ٹو بی کے تحت میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی‘ صدر غلام اسحاق خان نے میربلخ شیر مزاری کو نگراں وزیراعظم بنایا اور انھیں ملک میں آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کرانے کی ذمے داری سونپ دی‘ مزاری صاحب بزرگ انسان تھے‘ انھیں ایڈمنسٹریشن کا تجربہ بھی نہیں تھا چنانچہ ان کا دور سیاسی حماقتوں کا عظیم عہد تھا‘ ان حماقتوں میں ایک حماقت روزانہ صحافیوں کو وزیراعظم ہاؤس بلانا اور ان سے یہ پوچھنا ’’ سپریم کورٹ کہیں میاں نواز شریف کو بحال تو نہیں کر دے گی؟‘‘ اور اس کے جواب میں صحافیوں کی باتوں کو سنجیدگی سے سننا بھی شامل تھا۔

میربلخ شیر مزاری ہر وقت سپریم کورٹ سے خائف رہتے تھے‘ میاں نواز شریف نے اپنی حکومت کی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر رکھی تھی‘نسیم حسن شاہ اس وقت چیف جسٹس تھے اور بلخ شیر مزاری کا خیال تھا سپریم کورٹ میاں نواز شریف کو بحال کر دے گی اور یوں ان کی نگراں حکومت کی نگرانی ختم ہو جائے گی‘ مزاری صاحب اکثر اپنے ملاقاتیوں سے بھی ’’درخواست‘‘ کر جاتے تھے‘ آپ چیف جسٹس سے پوچھیں یہ کیا کرنا چاہتے ہیں‘ اس زمانے میں کوئی بھی شخص خود کو چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کا عزیز‘ رشتے دار یا دوست ڈکلیئر کر کے وزیراعظم کا قرب حاصل کر سکتا تھا‘ یہ معاملہ ابھی چل رہا تھا کہ 26 مئی 1993ء کا دن آگیا‘ میر بلخ شیر مزاری میریٹ ہوٹل میں ایک تقریب کی صدارت کر رہے تھے‘ تقریب میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا موجود تھا‘ سفارت کار بھی شامل تھے‘ یہ تقریب ابھی چل رہی تھی کہ سپریم کورٹ نے اچانک میاں نواز شریف کی حکومت بحال کر دی‘ یہ خبر ہال تک پہنچنے سے قبل وزیراعظم کی سیکیورٹی اور پروٹوکول تک پہنچ گئی چنانچہ وزیراعظم کے اسٹاف نے انھیں وہیں میریٹ ہوٹل میں اسٹیج پر چھوڑا اور وزیراعظم کی اسٹاف کار لے کر پنجاب ہاؤس کی طرف روانہ ہو گیا۔

میں نے اپنی آنکھوں سے وزیراعظم کے اے ڈی سی کو وزیراعظم کے پیچھے سے سرکتے‘ سیکیورٹی کے عملے کو ایک ایک‘ دو ‘ دو کر کے ہال سے نکلتے‘ گاڑیاں اسٹارٹ ہوتے‘ وزیراعظم کی اسٹاف کار سے جھنڈے اترتے‘ سائرن بجتے اور وزیراعظم کے کارواں کو وزیراعظم کے بغیر میریٹ ہوٹل سے نکلتے دیکھا اور یوں چند منٹ میں وزیراعظم نہ صرف سابق ہو گیا بلکہ اس کے پاس گھر جانے کے لیے گاڑی بھی نہیں بچی تھی‘ منتظمین نے تقریب کے خاتمے کا اعلان کیا‘ بلخ شیر مزاری اسٹیج سے اترے اور لفٹ لے کر ذاتی گھر کی طرف روانہ ہو گئے‘ یہ وہی شخص تھا جس کے استقبال کے لیے ایک گھنٹہ قبل درجنوں لوگ میریٹ ہوٹل کے دروازے پر کھڑے تھے‘ جس کی آمد سے قبل پورے ہال کی تلاشی لی گئی تھی‘ پھول تک چیک کیے گئے تھے اور جو ہال میں داخل ہوا تو تمام شرکاء نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا مگر ایک گھنٹے بعد وہی شخص لفٹ لے کر گھر واپس جا رہا تھا اور اس کے ذاتی منشی کے علاوہ اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔

میری زندگی کا دوسرا منظر مہتاب عباسی سے متعلق ہے‘ میں اس واقعے کا عینی شاہد نہیں ہوں‘ یہ مجھے پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے سنایا‘ میاں نواز شریف کی دوسری حکومت میں مہتاب عباسی صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے‘ مہتاب عباسی حقیقتاً ملک کے چند شاندار‘ سلجھے اور نفیس سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں‘ یہ بارہ اکتوبر کو گلگت کے دورے پر تھے‘ یہ گلگت ائیر پورٹ پر اترے تو گلگت کے کمشنر اور آئی جی نے ان کا استقبال کیا‘ وزیراعلیٰ کو ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا‘ یہ لوکل انتظامیہ اور مقامی سیاستدانوں کے ساتھ میٹنگز کر رہے تھے‘ سہ پہر کے وقت فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا‘ حکومت کی تبدیلی کی خبر جب گلگت پہنچی تو جس آئی جی اور کمشنر نے صبح وزیراعلیٰ کا استقبال کیا تھا‘ اسی نے مہتاب عباسی کو گرفتار کر لیا اور انھیں اسی ریسٹ ہاؤس میں ہاؤس اریسٹ کر دیا گیا‘ مہتاب عباسی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے گلگت گئے تھے لیکن دو دن بعد یہ قیدی کی حیثیت سے پشاور لائے گئے اور اس کے بعد ان کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی‘ یہ دونوں واقعات اقتدار کی بے ثباتی اور بے وفائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں‘ یہ ثابت کرتے ہیں ہم کمزور لوگ ہیں کرسی کو دائمی سمجھ کر اپنی زندگی کی تمام نفرتوں‘ منافقتوں‘ غرور اور انا کا سارا بوجھ اقتدار کے پایوں پر ڈال دیتے ہیں اور پھر ایک دن یہ اقتدار ہوا کے جھونکے کے ساتھ رخصت ہو جاتا ہے اور ہم بوکھلائے ہوئے اونٹ کی طرح صحرا کی ریت کو حیرت سے دیکھتے رہتے ہیں۔

میں نے کل راجہ پرویز اشرف کے ساتھ بھی یہی ہوتے دیکھا‘ 24 مارچ کو الیکشن کمیشن نے میر ہزارخان کھوسو کو نگراں وزیراعظم بنا دیا‘ الیکشن کمیشن کا اعلان سامنے آتے ہی وزیراعظم ہاؤس اور اس کا تمام عملہ راجہ صاحب کے لیے اجنبی ہو گیا‘ وزیراعظم کی شاہی سواری‘ پروٹوکول کا عملہ‘ سیکیورٹی‘ اے ڈی سی‘ پرنسپل سیکریٹری اور ملٹری سیکریٹری بلوچستان ہاؤس کی طرف روانہ ہو گئے‘ اسلام آباد کا آئی جی بھی میر ہزار خان کھوسو کو سلام کرنے کے لیے بلوچستان ہاؤس پہنچ گیا اور صرف اس ایک اعلان سے بلوچستان ہاؤس کا وہ عام سا کمرہ وزیراعظم ہاؤس بن گیا جس میں کل تک میر ہزار کھوسو کو ملازمین پانی تک نہیں دیتے تھے‘ یہ دس دس گھنٹیاں بجاتے تھے تو ملازم پہنچتا تھا اور کھوسو صاحب کو ملازم کو بات سمجھانے میں دس دس منٹ لگ جاتے تھے اور وہ اسٹاف‘ وہ گاڑی‘ وہ سائرن‘ وہ سیکیورٹی اور وہ پروٹوکول جو کل تک راجہ پرویز اشرف کے لائف اسٹائل کا حصہ بن چکا تھا اور جو وزیراعظم کے اشارہ ابرو پر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہو جاتا تھا وہ اندھیرے میں سائے کی طرح ان کا ساتھ چھوڑ گیا۔

راجہ پرویز اشرف اقتدار کی گلیوں کے مسافر بن کر رخصت ہو گئے‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے راجہ صاحب 22 جون 2012ء کو جب وزیراعظم بنے تھے تو گوجرخان کے ہزاروں لوگ انھیں وزیراعظم ہاؤس چھوڑنے گئے تھے‘ وزیراعظم ہاؤس کے دروازے کھول دیے گئے تھے‘ راجہ صاحب نے بالکونی میں کھڑے ہو کر ہجوم کو اپنی جھلک دکھائی تھی اور لوگوں نے دیوانہ وار نعرے مارے تھے لیکن کل رخصتی کے وقت انھیں لینے کے لیے کوئی شخص وزیراعظم ہاؤس کے سامنے موجود نہیں تھا اور یہ اس انجام کو پہنچنے والے پہلے شخص نہیں ہیں‘ آپ محمد خان جونیجو سے لے کر میاں نواز شریف اور میر ظفر اللہ جمالی سے لے کر شوکت عزیز‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف تک کسی سابق وزیراعظم کی رخصتی کا دن نکال کر دیکھ لیجیے‘ یہ آپ کو اقتدار سے اس طرح جاتا ہوا دکھائی دے گا جس طرح طاعون کے مریض اسپتال سے رخصت ہوتے ہیں‘ پاکستان کے عام شہری آج تک یہ نہیں سمجھ سکے وہ حکمران جو ایک دن پہلے تک ملک کی آن‘ بان اور شان ہوتے ہیں وہ جب اقتدار سے فارغ ہوتے ہیں تو قوم انھیں اگلے ہی لمحے بھول کیوں جاتی ہے‘ عام لوگ سوچتے ہیں کیا پوری دنیا میں ایسا ہوتا ہے‘ ہمیں جواب ملتا ہے ہرگز ہرگز نہیں‘ دنیا میں ہیوگوشاویز جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔

فوج نے شاویز کو 11 اپریل 2002ء کواقتدار سے فارغ کر دیا‘ یہ صدارتی محل سے نکلا تو لاکھوں لوگ اس کے استقبال کے لیے محل سے باہر کھڑے تھے‘ ان لوگوں نے شاویز کو کندھے پر اٹھایا اور صرف 47 گھنٹے میں اسے دوبارہ بحال کرا دیا‘ دنیا میں طیب اردگان‘ عبداللہ گل اور مہاتیر محمد جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں‘ یہ جب بھی اپنی آئینی مدت پوری کرتے تھے (اور ہیں) لوگ ان کے پاؤں زمین پر نہیں آنے دیتے‘ یہ انھیں اپنی ہتھیلیوں پر اٹھا کر دوبارہ اقتدار کی مسند پر بٹھا دیتے ہیں‘ دنیا میں ایسے حکمران بھی تو موجود ہیں‘ اگر یہ حکمران ہیں تو پھر ہمارے راجہ صاحب‘ ہمارے گیلانی صاحب‘ ہمارے شوکت عزیز صاحب اور ہمارے میاں صاحب کیا ہیں‘ عوام ہمارے حکمرانوں کی رخصتی کے وقت ایوان اقتدار کے باہر کھڑے کیوں نہیں ہوتے‘ اقتدار انھیں‘ میر بلخ شیر مزاری کو اور دو ماہ بعد میر ہزار کھوسو کو تقریبات میں اکیلا چھوڑ کر کیوں چلا جاتا ہے‘ شاید یہ لوگ حکمران ہیں اور دنیا میں حکمرانوں کو صرف حکومت ملتی ہے عزت نہیں‘ عزت کے حق دار لیڈر ہوتے ہیں اور ان میں کوئی ایک بھی لیڈر نہیں‘ یہ صرف اقتدار کے گیٹ کیپر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔