حسیب احسن .... بے مثل انسان، بڑا کرکٹر

شکیل فاروقی  پير 25 مارچ 2013
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

لیجیے حسیب احسن بھی ملک عدم سدھار گئے۔ ان کی رحلت سے پاکستان کرکٹ کے آسمان کا ایک انتہائی رخشندہ ستارہ ٹوٹ کر غروب ہوگیا۔ خدا بخشے کہ کیا کیا خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔ وہ ایک منفرد آف اسپنر، اعلیٰ درجے کے ٹیم منیجر اور قطعی غیر جانبدار اور جراتمند سلیکٹر تھے۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک بڑے انسان تھے ،بے لوث، بے خوف اور بے لاگ۔

حسیب صاحب کی اچانک رحلت کی اندوہناک خبر سن کر قلب و ذہن کو زلزلے جیسا زبردست دھچکا لگا اور ماضی ایک فلم کی طرح آنکھوں کے آگے سے گزرنے لگا۔ میں نے انھیں سب سے پہلے دہلی میں پاکستانی ٹیم کی جانب سے کھیلتے ہوئے دیکھا۔ یہ پاکستانی ٹیم کے 1968-61 کے دورہ بھارت کا قصہ ہے، جب انھوں نے اپنی دھواں دھار باؤلنگ سے بھارتی بلے بازوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔

انھوں نے 49.25 کے اوسط سے 27 وکٹیں حاصل کیں۔ (کانپور ٹیسٹ میں 121 رنز کے عوض 5 اور مدراس ٹیسٹ میں 202 رنز کے عوض 6 وکٹیں)۔ مدراس ٹیسٹ میں انھوں نے 84 اوورز کی باؤلنگ کا ریکارڈ قائم کیا۔ بھارت کے خلاف حسیب احسن کی اس کارکردگی کا شمار ان کی بہترین سیریز میں ہوتا ہے جس میں 15 وکٹیں حاصل کرکے انھوں نے خود کو دونوں ٹیموں کا بہترین باؤلر ثابت کردیا۔

حسیب احسن نے آف اسپنر کی حیثیت سے اپنے شاندار کیریئر کا آغاز 1957-58 میں ویسٹ انڈیز کے زبردست دورے سے کیا۔ یہ پاکستانی ٹیم کا پہلا دورہ ویسٹ انڈیز تھا جس کی قیادت عظیم کرکٹر کپتان عبدالحفیظ کر رہے تھے جنھیں اگر پاکستانی کرکٹ کا معمار کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس دورے میں حسیب احسن کے علاوہ تین اور نئے کھلاڑی بھی شامل تھے، سعید احمد، اعجاز بٹ اور نسیم الغنی۔ یہ ویسٹ انڈیز کا وہی تاریخی دور تھا جس میں لٹل ماسٹر حنیف محمد نے اوپننگ بلے باز کے طور پر بارباڈوس میں 337 رنز کی یادگار اننگز 16 گھنٹے 39 منٹ پر محیط طویل دورانیے میں کھیل کر کرکٹ کی ناقابل فراموش تاریخ رقم کی تھی۔

ان دنوں ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں رائے گلکرائسٹ جیسے طوفانی اور خوفناک فاسٹ باؤلر شامل ہوا کرتے تھے جن کا بڑا ہوّا تھا۔ چنانچہ ویسٹ انڈیز کی پچی تیز باؤلروں کے لیے ہی بنائی جاتی تھیں جن پر گیند کو اسپن کرانا جادوگری سے کم نہ تھا، لیکن حسیب احسن نے ان وکٹوں پر بھی بلا کی اسپن باؤلنگ کرکے سب کو حیران و پریشان کردیا۔ تقریباً میڈیم پیسر کی رفتار سے گیند کو آف اسپن کرانا حسیب کا سب سے بڑا کمال تھا۔ ان کی گیند اس تیزی سے بریک ہوتی تھی کہ بیٹسمین اسے کھیلتے ہوئے بڑی مشکل میں پڑجاتا تھا۔

وکٹ کیپر کے لیے بھی اس گیند کو قابو کرنا انتہائی دشوار ہوتا تھا، خصوصاً اس صورت میں جب بلے باز دائیں ہاتھ سے کھیل رہا ہو۔ وجہ یہ ہے کہ جب بال آف اسٹمپ پر ٹپا کھاکر تیز رفتار سے لیگ کے باہر جاتی تو اس وقت آف اسٹمپ اور لیگ اسٹمپ کے درمیان بلے باز حائل ہوتا ہے۔ اس وقت وکٹ کیپر کا اندازہ اور اس کی پھرتی ہی کام آتی ہے کیونکہ جب بال آف اسٹمپ پر پڑ کر لیگ اسٹمپ کا رخ کرتی ہے تو اس دوران وہ وکٹ کیپر کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے، اس صورت حال میں وکٹ کیپر کی بڑی کڑی آزمائش ہوتی ہے۔ مگر ان دنوں پاکستان کو امتیاز احمد جیسے غیر معمولی طور پر چابک دست اور ماہر وکٹ کیپر کی خدمات حاصل تھیں جو حسیب کی گیند پر کڑی نظر رکھتے تھے۔

حسیب احسن اتنے زبردست آف اسپنر تھے کہ فضل محمود کو بھی ان کی اپنی سوانح حیات میں ان کا خاص طور پر تذکرہ کرنا پڑا۔ ان کے الفاظ میں ’’حسیب احسن ایک عمدہ آف اسپنر تھے جو پاکستان کی اس ٹیم میں شامل تھے جس نے 1958 میں ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ایورٹن ویکس کو بھی ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ویسٹ انڈیز کے دورے کے بعد حسیب نے انگلینڈ میں لیگ کرکٹ میں حصہ لیا۔ انھوں نے 1960-61 میں ہندوستان کا دورہ بھی کیا اور غیرمعمولی گیند بازی کا مظاہرہ کیا۔

ان کے ناقدین بھی ان کے باؤلنگ ایکشن میں کوئی نقص نہیں نکال سکے لیکن 1962 میں انگلینڈ کے دورے میں انھیں چکر (Chuckar) کہہ کر ان کی تنقیص کی گئی۔‘‘ افسوس کا مقام یہ ہے کہ نہ ہی ٹیم کے کپتان اور نہ ہی بی سی سی پی نے اس موقع پر ان کا ساتھ دیا، جس کے نتیجے میں اس مایہ ناز باؤلر کا کیریئر تباہ و برباد ہوگیا۔ حسیب احسن کے ساتھ یہ سراسر زیادتی تھی جس میں غیروں کے علاوہ اپنے بھی شامل تھے، افسوس صد افسوس کہ:

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

پاکستان کرکٹ کی تاریخ اس قسم کے بہت سے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ انجام کار حسیب احسن کو وطن واپس بھیج دیا گیا اور ان کی جگہ کپتان کے چہیتے باؤلر کو انگلینڈ کے دورے میں شامل کرلیا گیا۔ حسیب نے اس بے انصافی پر بڑا کڑوا گھونٹ پیا۔ لیکن اس نقصان کا خمیازہ پاکستان کرکٹ کو بھگتنا پڑا۔

حسیب کا کیریئر ابتدا ہی سے نہایت شاندار تھا۔ انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں کراچی پی آئی اے اور پشاور کی نمائندگی کرتے ہوئے 241 وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے 1958-59 میں قائد اعظم ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تماشائیوں کے دل جیتے لیے۔

حسیب نے نہ صرف کھلاڑی کے طور پر پاکستان کی ناقابل فراموش خدمات انجام دیں بلکہ ٹیم منیجر کی حیثیت سے بھی اپنی اہلیت و لیاقت کے بہترین جوہر دکھائے۔ عمران خان کی کپتانی میں 1987 میں پاکستان کی جس ٹیم نے انگلینڈ کا دورہ کیا تھا اس کے منیجر حسیب احسن ہی تھے، اس سیریز میں گورے امپائروں ڈیوڈ کانسٹنٹ اور کین پامر نے قابل اعتراض فیصلے کرکے پاکستانی ٹیم کے لیے مشکلات پیدا کردی تھیں۔

اس پر حسیب نے آواز بلند کرتے ہوئے انگلش بورڈ سے کہا تھا کہ دونوں متنازعہ امپائروں کو ہٹادیا جائے۔ برطانوی پریس اس کے بعد ان کے پیچھے پڑگیا، مگر انھوں نے نہایت جراتمندی کے ساتھ برٹش پریس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوئے۔ اصولوں پر سودے بازی نہ کرنا اور اپنے جائز موقف پر ڈٹے رہنے حسیب احسن کے خمیر میں شامل تھا۔

کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے معاملے میں بھی وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ پی آئی اے کی کرکٹ ٹیم کے فروغ میں بھی ان کا کردار کلیدی تھا۔ ٹیلنٹ کو تلاش کرنے اور تراشنے میں وہ غیرمعمولی دلچسپی رکھتے تھے اور فیصلہ کرنے میں ہمیشہ میرٹ کو ہی مدنظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پی آئی اے اور پاکستان کرکٹ کے میدان میں ان کا نام ہمیشہ عزت و احترام سے لیا جاتا رہے گا۔

انھوں نے نہ صرف بذات خود کسی کھلاڑی کے ساتھ زیادتی نہیں کی بلکہ زیادتی کا شکار ہونے والے کھلاڑیوں کا نہایت دلیری کے ساتھ ہمیشہ کھل کر ساتھ دیا۔ پاکستان کرکٹ کے چیف سلیکٹر کی حیثیت سے بھی انھیں ہمیشہ اچھے الفاظ میں ہی یاد رکھا جائے گا۔ ان کا انتخاب ذاتی پسند وناپسند سے قطعی بالاتر ہوتا تھا۔ وہ کسی منصب یا عہدے کے بھوکے نہیں تھے۔ عزت نفس اور انصاف پسندی کے معاملے میں انھوں نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ اپنی بات ڈنکے کی چوٹ پر کہنے والوں میں شمار ہوتے تھے۔ مبصر کی حیثیت سے بھی ان کا یہی طرہ امتیاز تھا۔

پی آئی اے اور امریکن ایکسپریس، دونوں ہی اداروں میں انھیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جس کی وجہ سے ان کی غیر معمولی انسانی ہمدری اور آڑے وقت میں دوسروں کے کام آنے کا بے لوث جذبہ تھا۔ ہم ان کی بے شمار خوبیوں کے بذات خود گواہ ہیں۔

ریڈیو پاکستان کے کھیلوں کے پروگرام میں ہم نے انھیں جب بھی بلایا وہ بلاتکلف اور بلاتامل بخوشی شریک ہوئے اور سامعین کو ہمیشہ اپنے غیر جانبدارانہ اور بے لاگ تبصروں سے محظوظ کیا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انھوں نے میرٹ سے ہٹ کر کبھی کسی کھلاڑی کی بے جا تعریف یا مخالفت کی ہو۔ وہ جب بھی تشریف لاتے ہر طرف اپنی محبت اور انکساری کی خوشبوئیں بکھیر دیتے تھے۔ یہ لافانی خوشبوئیں ہمارے قلب و ذہن میں ہمیشہ تروتازہ رہیں گی۔ وہ اس بات کے بجا طور پر مستحق ہیں کہ ان کی عظیم خدمات کے اعتراف میں انھیں قومی اعزاز سے نوازا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔