تلخ یادیں

سیدہ کنول زہرا زیدی  پير 25 مارچ 2013

زندگی میں بہت سے ایسے حالات و واقعات پیش آتے ہیں جن کو تما م عمر فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ جیسا کہ آپ سب کو پتہ ہے طویل عر صے بعد میرے وطن میںجمہوریت کا ایک دور بخیروخوبی اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے مگرافسوس کے ساتھ کہتی چلوں جب جب ایک ماں ، بہن، بیوی اور لمحہ بہ لمحہ یتیم بچے اپنے پیاروں کو یاد کرینگے تو یقینا اس نام نہاد جمہوریت پر چار حرف بھیجیں گے اس بدامنی، بد عنوانی ، قتل و غارتگری ، مہنگائی سے بھرپور دور نے جہاں جہاں اپنی تلخ یادیں رقم کیں ہیں وہاں سابق وفاقی حکومت کے ایک وزیر کے کردار کو بھی عروج بخشا ہے لہذا ان موصوف کو فرامو ش کرنا بھی ممکن نہیں ۔

وزیر صاحب نے اپنی حکمت کے مطابق جو جو حکمت عملیاں پیش کیں وہ تمام کی تمام وطن عزیز کی تاریخ میں اُن حروف سے لکھی جائیں گی جن کو اہل دانش’سنہرا‘ نہیں کہہ سکتے ۔ سابق وفاقی وزیر 5 سال تک سیل فونز اور موٹرسائیکلز کو ہی دہشت گرد گردانتے رہے اوراپنی دانست کے مطابق نادار و نایاب فیصلے صادر کرتے رہے۔ ناچیز خدا کا خاص شکر کرتی ہے کہ وزیر صاحب ڈاکٹر نہیں ہیں ورنہ اس ملک کے آدھے سے زیادہ عوام اندھے اور لنگڑے ہوتے کیونکہ اگر کوئی مریض آنکھ یا ٹانگ کی تکلیف میں مبتلا آتا تو یقیناً وزیر صاحب اپنے فہم کے مطابق اُسے پُھوڑنے یا کاٹنے کا مشورہ دیتے۔ راقم الحروف نے کچھ غلط تو نہیں کہاکیونکہ گزشتہ 5 سالوں میں ہم نے یہ ہی دیکھا کہ جناب وجہ َ تنازعہ سے نابلد رہے جب کہ وجہِ تنازعہ پر سخت نالاں …

اُنھوں نے دہشتگردی کی روک تھام میں کوئی خاص پیش رفت تو نہیں کی ہاں البتہ جن کے ذریعے دہشتگردی رونما ہوئی اُس پر وہ سخت برہم نظر آئے۔ اسی لیے پاکستان کے عوام نے اُن کے ڈھیروں ’پیار کے نام‘ رکھے، کسی نے ’سردار پابندی ‘ کیا تو کسی نے’بابا پیشگوئی‘ کسی نے کھل جا سِم سِم بند ہوجا سِم سِم کا روح رواں گردانا، تو کسی نے Magician Communication Signals یہ ہی نہیں ان 5 سالوں میں نوجوانوں کے درمیان تو وزیر صاحب کا بہت ’طوطی بولا‘ منچلوں نے اُنھیں Disconnected people کا خطاب دیا ۔

ایک واقعہ آپ کے ساتھ شیئر کرتی چلوں ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے ناچیز اپنے حلقہ احباب میں موجود تھی جہاں موجودہ سیاسی صورتحال پر گفتگو چل رہی تھی کہ اچانک میری ایک دوست نے ہم سب سے سوال کیا کہ اس بدامنی، بد عنوانی ، قتل و غارتگری ، مہنگائی سے بھرپوردور کی تلخ یادوں کے ساتھ وہ کون موصوف ہیںجن کو ہم کبھی فراموش نہیں کریں گے یقین کیجیے ابھی اُس کا جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ سب نے یک زبان ہو کے کہا وہی وزیر صاحب ۔۔۔۔، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان 5 سالوں میں موصوف مشہور زمانہ رہے اُنھیں اس دوران اتنی شہریت ملی جتنی ’بگ باس‘ کے حصہ میں بھی نہیں آئی گو کہ ’بگ باس‘ کے لیے ایس ایم ایس سروس خاصی متحرک رہتی ہے مگر وزیر صاحب کے کیا کہنے۔۔۔۔

اُنھوں نے ایسے ایسے کام سر انجام دیے کہ کیا کال ؟ کیا ایس ایم ایس ؟ جادو کی چھڑی گھما کے جب دل چاہا ’سگنلز آف ‘ کیے اور نوجوانوں کو خاموش پیغام دیا ’ بیٹا اب جو کرنا ہے کرلو!‘

بہرحال کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ۔ مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مستقل نے بھی ’یوم نجات‘ منایا ۔ مثل مشہور ہے ہر سیاہ رات کے بعد روشن سویرا ہوتا ہے تو جناب ہم نے اس کو عملی طور پر بھی دیکھا ۔؎

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ ِآخر ِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

کہتی چلوں جاتے جاتے موصوف مراعات خصوصی کا چھکا ضرور مار گئے مگر اتنا کارگر ثابت نہیں ہوا البتہ جناب ہمت نہیں ہارے اور اب صدر کے مشیر بننے کے خواہاں ہیں۔اﷲ کرے زور ستم اور زیادہ ! مزید واضح کرتی چلوں ، جناب میں ایک بہترین رپورٹر کی خصوصیات موجود ہیںجس کی تصدیق گزشتہ 5 سال میں لمحہ بہ لمحہ نظر آئی ہے جناب نے ہر دہشتگردی کے رونما ہونے سے پہلے رپورٹ دینے کا کام بخوبی سر انجام دیا ہے جب کہ حالات کی سنگینی سے نمٹنا…؟ شاید اُن کا کام نہیں تھا کیونکہ ایک رپورٹر کا کام تو Reproting کرنا ہوتا ہے ، مگر وزیر صاحب تو… خیر چھوڑیںآپ سب جانتے ہیں۔

آخر میں گزارش ہے کہ عنقریب انتخابات ہونے والے ہیں ۔ خدارا ماضی کے تمام ادوار کو ذہن میں رکھتے ہوئے ِ امیدواروں کے انتخاب کا عمل کیجیے گا ورنہ پھر صرف وزیر صاحب ، وزیر صاحب ہی کیجیے گا ، شکوہ نہیں۔۔۔۔۔!ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں ۔

ابھی بھی وقت کچھ ہے بچا ۔ لیجیے اس ملک کو اپنی عافیت میں لے لیجیے ورنہ کہنے والے نے کچھ غلط تو نہیں کہا ’پاکستان کا اللہ حافظ…!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔