کابل میں خود کش حملہ

ایڈیٹوریل  پير 29 جنوری 2018
افغانستان کے ایک بڑے حصے پر اب بھی جنگجوؤں کا قبضہ ہے۔فوٹو: فائل

افغانستان کے ایک بڑے حصے پر اب بھی جنگجوؤں کا قبضہ ہے۔فوٹو: فائل

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ریڈ زون میں غیرملکی سفارتخانوں کے قریب ایمبولینس کے ذریعے ہونے والے خود کش دھماکے میں 100افراد جاں بحق اور 160سے زائد زخمی ہوگئے۔ افغان حکام نے دھماکے کا الزام طالبان کے حقانی نیٹ ورک پر عائد کیا۔

پاکستان نے کابل میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے پر شدید مذمت اور قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔ ادھر صوبہ قندھار میں ہونے والے ایک اور خود کش حملے میں دو شہری مارے گئے‘ افغان حکام نے تین پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔ طالبان نے اس خود کش حملے کی ذمے داری قبول کر لی۔

افغانستان میں ہونے والا خود کش حملہ افسوسناک ہے‘ حملہ آوروں نے اپنے مقصد کے لیے غیرملکی سفارتخانے جیسے حساس علاقے کا انتخاب کیا‘ بارودی مواد سے بھری ایمبولینس پہلی چیک پوائنٹ پر دھوکے سے نکل گئی مگر دوسری چیک پوائنٹ پر شناخت ہونے کے بعد خود کش بمبار نے اسے دھماکے سے اڑا دیا‘ اگر خود کش بمبار یہ ایمبولینس سفارتخانوں کے قریب لے جانے میں کامیاب ہو جاتا تو بڑے پیمانے پر نقصان ہونے کا خدشہ تھا۔

افغان حکام کی جانب سے اس دھماکے کا الزام حقانی نیٹ ورک پر عائد کرنا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے کھیل کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان ایک طویل عرصے سے دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نشانہ بن رہے جس میں اب تک سیکیورٹی اہلکاروں سمیت ہزاروں شہری زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

پاکستان نے اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے مضبوط ٹھکانوں اور اڈوں کے خلاف کارروائی کر کے ان کا خاتمہ کر دیا، اب جو بھی دہشت گردوں کی باقیات موجود ہیں وہ بے شناخت اور بے چہرہ ہیں‘ جہاں کہیں بھی ان کے بارے میں معلومات ملتیں سیکیورٹی اہلکار ان کے خلاف بھرپور کارروائی کرتے ہیں مگر جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو وہاں تمام تر کارروائیوں کے باوجود دہشت گرد ختم نہیں ہوئے ان کے طاقتور گروہ اور ٹھکانے اب بھی موجود ہیں۔

افغانستان کے ایک بڑے حصے پر اب بھی جنگجوؤں کا قبضہ ہے ‘ امریکا اور اس کی اتحادی افواج تمام تر وسائل اور ٹیکنالوجی کے باوجود جنگجوؤں سے یہ علاقے واگزار نہیں کرا سکیں، امریکا اور افغان فورسز کابل سمیت ایک مخصوص علاقے تک محدود ہیں۔ اس صورتحال کے پس منظر میں یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ امریکی اور افغان حکومت دہشت گردوں پر قابو پانے میں قطعی ناکام ہو چکیں اور دہشت گرد پوری منصوبہ بندی اور تیاری کے ساتھ امریکی اور افغان فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

افغانستان کے صوبہ ہلمند کے ضلع ناد علی میں بھی چیک پوائنٹ پر خود کش کار بم حملے میں چھ سیکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے۔ افغانستان میں جنگجوؤں کے حملے معمول بن چکے جنھیں روکنے میں اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے امریکی اور افغان حکومت پاکستان پر الزامات لگانا لگانا شروع کر دیتی ہیں۔

پاکستان نے متعدد بار افغان حکومت کو جنگجوؤں کے خلاف مشترکہ کارروائی کی پیشکش کی مگر اس نے مثبت ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور الزامات کے مذموم کھیل کو ترجیح دی۔ جس کا نقصان آج اسے اٹھانا پڑ رہا ہے اگر وہ پاکستان کی پیشکش قبول کر لے اور دونوں ممالک مشترکہ طور پر دہشت گردوں کے خلاف حکمت عملی طے کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ کچھ عرصے میں دہشت گردوں کے مضبوط ٹھکانے ختم کر دیے جائیں۔

افغان حکومت کے منفی رویے کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے اپنے علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے سرحد پر باڑ لگانے کا عمل شروع کر دیا۔ وفاقی وزیر دفاع خرم دستگیر خان کا کہنا ہے کہ ہم افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ 2600کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگائیں گے اس وقت تقریباً 250کلومیٹر کے علاقے پر باڑ لگائی جا چکی ہے‘ باڑ لگانے کا کام تین سے چار سال میں مکمل ہونے کا امکان ہے، انھوں نے کہا کہ امریکی حکام افغانستان میں اپنی سولہ سالہ ناکامی کا الزام بھی پاکستان پر عائد کر دیتے ہیں جب کہ امریکی ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے اور ہزاروں فوجی ہلاک و زخمی کرانے کے بعد بھی صورتحال پر قابو نہ پا سکے اور اس وقت بھی افغانستان کے تقریباً 45فیصد علاقے پر حکومت کا کنٹرول نہیں‘ انھوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک افغانستان میں صورتحال خراب رہے گی اس وقت تک پاکستان میں بھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔

پاکستان اور افغانستان کو دہشت گردی کے گرداب میں پھنسا ہوا رکھنا امریکی منصوبہ سازوں کی ایک سازش معلوم ہوتی ہے‘ افغان حکومت کو امریکی ایجنڈے پر چلنے کے بجائے اپنے علاقائی مفادات کو عزیز رکھتے ہوئے پاکستان پر الزامات عائد کرنے کے بجائے اس کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانا چاہیے ورنہ مستقبل میں بھی وہاں امن قائم نہیں ہو گا اور جنگجوؤں کے خود کش حملے اسی طرح جاری و ساری رہیں گے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔