’’خواب خرگوش‘‘ پر تبصرہ

شکیل فاروقی  پير 29 جنوری 2018

خرگوش لکھنوی کا تازہ ترین تاریخی ناول ’’خواب خرگوش‘‘ میرے سامنے تبصرہ کے لیے رکھا ہوا ہے۔ ناول کافی ضخیم و لحیم شحیم ہے۔ مضبوط جلد بندی ہے۔ چنانچہ ناول کو ہنگامی حالات میں بطور خود حفاظتی اسلحہ کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نزدیکی دشمن کی کھوپڑی پر اس کی صرف ایک جلد مار دی جائے تو وہ ہوش و حواس سے بے گانہ ہوسکتا ہے۔

اگر گھر میں مہمانوں کی آمد پر کرسیاں کم پڑ جائیں تو اس کی دونوں جلدیں تلے اوپر رکھ کر نشست کا کام بخوبی لیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ادب ہی ہمارا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔ جن پیالیوں کی طشتریاں ٹوٹ چکی ہوں، ناول کی ایک جلد سے طشتری کا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔ جن خواتین کا ہاتھ شیلف کے اوپری حصے تک نہ جاتا ہو، وہ ناول پر کھڑی ہوکر اپنا کام بخوبی انجام دے سکتی ہیں۔

جاسوسی، رومانی، نفسیاتی اور ادبی ناولوں کے بجائے مجھے اسلامی تاریخی ناولوں سے زیادہ شغف ہے۔ اس لیے کہ یہ نہ صرف خون میں حرارت، بلکہ جوش ایمانی اور ہیجان پیدا کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ایمان کو تازہ کرنے کے لیے ایسے روح افروز (روح افزا نہیں) ناولوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ خرگوش لکھنوی ایک زمانے میں خوش نویس ہوا کرتے تھے، لہٰذا ناول کو کمپوز کرانے کے بجائے انھوں نے اس کی کتابت خود کی ہے۔ ہر لفظ روشن، شفاف اور آنکھوں کے راستے دل میں اترتا معلوم ہوتا ہے۔ دوسرے پبلشروں کو چاہیے کہ خرگوش لکھنوی کی خدمات حاصل کریں اور کمپوزنگ کے چکر میں نہ پڑیں۔

خرگوش لکھنوی اس سے پہلے متعدد ایمان افروز ناول لکھ چکے ہیں اور قارئین سے داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں، مثلاً آخری سپاہی، اونٹ اور کھجور، یک چشم وزیر، کٹھور حسینہ، نیک دل شہزادہ، چورن انار دانہ، حبیب حییٰ حییٰ۔

خون میں حرارت پیدا کرنے کے لیے میں نے کئی بار اس ناول کا مطالعہ کیا ہے، بلکہ جب بھی خون میں سفیدی یا ٹھنڈک پیدا ہونے لگتی ہے، میں جنگ و جدل سے بھرپور ناول کا مطالعہ شروع کر دیتا ہوں۔ اتنی حرارت پیدا ہوجاتی ہے کہ پھر لحاف اوڑھنے کی حاجت نہیں رہتی۔ اس میں تاریخ، سازشیں، اونٹ اور رومان وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ ہر باب میں کشتوں کے پشتے لگے ہیں اور آخری ابواب میں عبرت کا سامان بھی موجود ہے، یعنی کفار کو شکست ہوجاتی ہے اور مسلمان فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں (کہاں؟ یہ معلوم نہیں)۔ حق و باطل کی معرکہ آرائی سے لبریز یہ ناول پڑھیے اور عاقبت درست کیجیے۔ وما توفیقی الا بلا۔

ناول کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک مسلمان ریاست میں ایک بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا۔ نہایت منصف، عادل اور رحمدل۔ صوم و صلوٰۃ کا پابند، ذکر الٰہی میں مشغول۔ بادشاہ کچھ نہیں کرتا۔ اس کے پاس کرنے کو کچھ موجود ہی نہیں تھا (ویسے بھی وہ بادشاہ ہوتا تھا، اس لیے کام کاج اس کے خادمین کرتے تھے) اس لیے وہ شطرنج کھیل کر دل بہلایا کرتا تھا۔ ریاست میں امن و امان کا بول بالا تھا۔ لوگ سر عام سونا اچھالتے جاتے تھے اور ڈاکو بھائی جان نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔ (یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ لوگ سونا کیوں اچھالتے تھے؟ لٹیرے اس طرف آنکھ اٹھا کر کیوں نہیں دیکھتے تھے؟ کیا سونا اتنا ڈی ویلیو ہوگیا تھا؟

اگر آج کل کوئی ایسی حرکت کرے تو لٹیرے اس کی مشکیں کسیں اور گھر میں جو کچھ رکھا ہے اس پر ہاتھ صاف کر دیں)۔ بے انصافی و بے اطمینانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس لیے بادشاہ کے محل پر جو گھنٹہ لگا تھا وہ زنگ آلود ہوچکا تھا، کوئی فریادی اسے بجانے ہی نہیں آتا تھا۔ (دراصل گھنٹے کی رسی میں دیمک لگ چکی تھی، اس لیے پبلک اسے چھوتے ہوئے ڈرتی تھی)۔

بادشاہ کی ایک ملکہ تھی، جوان اور خوبرو دکھائی دیتی تھی (اس لیے کہ اعلی پائے کا میک اپ کا سامان استعمال کرتی تھی جو اس کے لیے خاص دساور سے آتا تھا) اس کے پاس بھی کرنے کو کچھ نہیں تھا، اس لیے کنیزوں اور سہیلیوں کے ساتھ سارا دن کیرم، ڈرافٹ اور لوڈو کھیلا کرتی تھی۔ انتظامی امور میں طاق تھی اور آٹے، دال، چاول اور گڑ کا سارا حساب رکھا کرتی تھی (چنانچہ داروغۂ مطبخ اس سے گھبراتا تھا اور اسے ڈنڈی مارنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی) خزانے کی چابیاں اس کی کمر سے لٹکتی رہتی تھیں۔ (عالی جاہ کو جب بھی کوئی ضرورت پڑتی تھی تو وہ اس کی کمر پر ہاتھ ڈال دیا کرتے تھے)۔

ملکہ کی ایک صاحبزادی بھی تھی۔ اپنی اماں سے زیادہ حسین۔ لہٰذا آس پڑوس کی ریاستوں کے شہزادے (بغیر فوٹو دیکھے) اس پر مر مٹے تھے۔ ہر کوئی اسے اپنانا چاہتا تھا۔ شہزادی کو کچھ آتا جاتا نہیں تھا، مگر اس کے باوجود اس کی مارکیٹ ویلیو تھی۔ یک چشم وزیر اس پر مر مٹا تھا۔ چنانچہ وہ ملکہ پر ڈورے ڈالتا پھرتا تھا، تاکہ بادشاہ کا پتا صاف کرکے خود بادشاہ بن جائے اور شہزادی سے شادی رچا لے۔

اپنے بادشاہ کا چراغ گل کرنے کے لیے اس نے طویل منصوبہ بندی کی ہوئی تھی اور مغرب کی طرف کی ایک کافر ریاست کے بادشاہ سے اس کی سازشیں جاری تھیں۔ وہ چاہتا تھا کہ کافر بادشاہ اس کی ریاست پر حملہ کردے۔ اسے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ (اس لیے کہ اس نے ریاست کے سپہ سالار اعظم (کمانڈر انچیف) کو اپنے ساتھ ملا رکھا تھا اور یہ لالچ دے رکھا تھا کہ جوں ہی وہ اقتدار میں آئے گا، اسے وزیراعظم بنا دے گا۔

وزیر دفاع ڈبل گیم کھیل رہا تھا۔ وہ بادشاہ کے ساتھ مل گیا تھا اور اسے وزیر کی حرکتوں کی مکمل رپورٹ دے رہا تھا۔ طے یہ ہوا کہ بارشوں میں پڑوسی کافر ریاست کا بادشاہ مسلمان ریاست پر حملہ کر دے۔ اسے مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور محل کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جائیں گے۔ پڑوسی کافر حکمراں جو رنگیلا اور عیاش بھی تھا۔ ہر وقت لونڈیوں کے چکر میں رہتا تھا (اس کا فلمی اداکار رنگیلے سے کوئی تعلق نہیں تھا) مسلمان ریاست پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور منہ کی کھاتا ہے۔ بارش میں اس کے گھوڑے سیدھے کھڑے نہیں ہو پاتے اور گر گر پڑتے ہیں۔

مسلمان انھیں تلواروں کی نوک پر رکھ لیتے ہیں، جو ان کی تلواروں سے قتل نہیں ہوتے وہ انھیں چوڑی تلواروں سے پیٹ ڈالتے ہیں۔ معرکہ حق و باطل میں فتح مسلمانوں کی ہوتی ہے۔ کافر بادشاہ دم دبا کر بھاگ لیتا ہے۔ سازش کا پردہ اٹھ جاتا ہے کہ یہ سب یک چشم وزیر کے کہنے پر ہوا تھا، لہٰذا اس کی کھال کھنچوا کر اس میں بھوسا بھر دیا جاتا اور عجائب گھر کی زینت بنادیا جاتا ہے۔ عالی جاہ اپنی بیٹی کی شادی کمانڈر انچیف سے کر دیتے اور اسے وزیراعظم بنا دیتے ہیں۔

حق کا بول بالا اور باطل کا منہ کالا۔ خرگوش لکھنوی کو یاد رکھیے اور پچاس فی صد کمیشن پر ان کے ناول مارکیٹ سے خریدیے۔ ثواب دارین حاصل کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔