ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی صدارتی سالگرہ

شکیل فاروقی  منگل 30 جنوری 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے گدی نشین ہونے کی پہلی سالگرہ مبارک ! 20 جنوری 2017 کو جب انھوں نے امریکا کے 45 ویں صدر کی حیثیت سے اپنا منصب سنبھالا تھا اس وقت بھی ان کے بارے میں دنیا بھر میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں اور ان کی تلون مزاجی کی کیفیت اور خود سری کے حوالے سے انتہائی تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

ان کی ذہنی حالت اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ وہ آرام سے نچلے ہوکر بیٹھنے والے انسان نہیں ہیں اور توازن اور سمائی ان کی گھٹی میں شامل نہیں ہے۔ ان کے بارے میں عام قیاس آرائی یہی تھی کہ وہ ایک طوفان برپا کردیں گے اور نہ خود چین سے بیٹھیں گے اور نہ دوسروں کو چین سے بیٹھے رہنے دیں گے۔

بعض لوگوں کا خیال یہ تھا کہ امریکی صدارتی منصب کی ذمے داریاں اور تقاضے ٹرمپ کو اپنی روش تبدیل کرنے پر مجبورکردیں گے اور ان کا دماغ ٹھکانے آجائے گا، مگرکسی انسان کی فطرت اور سرشت کا بدلنا اتنا آسان نہیں ہوتا ، چنانچہ وہی ہوا جو ہونا تھا ۔ اپنے عہدہ صدارت کی ایک سال کی مدت میں ٹرمپ نے اپنی ہٹ دھرمی اورکج روی کا مظاہرہ ہی کیا ہے اور لوگوں کو خصوصاً اپنے ناقدروں کو ان کی قیاس آرائیوں کے حوالے سے مایوس نہیں کیا ہے۔

اپنے عہدہ صدارت کے پہلے سال کے دوران امریکی سینیٹ اور ایوان نمایندگان کے ری پبلکن پارٹی کے اپنے ہی لوگوں کے ساتھ ان کی تلخ کلامی ہوتی رہی اورخیالات وفکر میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکی۔ دوسری جانب میڈیا کے ساتھ بھی مختلف ایشو مثلاً مسلمان تارکین وطن کے بارے میں ہرزہ سرائی کی وجہ سے ان کا اکثر اوقات ٹکراؤ ہی رہا ۔ان کے ماحولیات مخالف نظریات اور بے تکے بیانات کی وجہ سے بھی میڈیا ان سے نالاں ہی رہا اور غریب عوام کی صحت سے متعلق ’’اوباما کیئر‘‘ کی پالیسی کی مخالفت کی وجہ سے بھی میڈیا میں ان کی پوزیشن خراب ہی رہی۔

ٹیکس کٹوتی کے حوالے سے ان کی تجاویز اور اقدامات کا فائدہ صرف امیر طبقے ہی کو پہنچا جس کی وجہ سے امریکا کا غریب طبقہ ان سے ناراض اور شاکی ہی نظر آیا۔ انھوں نے سوشل سیکیورٹی، طبی نگہداشت اور طبی امداد کے لیے مختص بجٹوں میں اندھا دھند کٹوتی کرکے اس سے حاصل شدہ فنڈز دفاعی اخراجات میں جھونک دیے جس کا تخمینہ 700 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ جنونی ٹرمپ نے لمحہ بھر کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ امریکا کے غریب عوام پر اس کے کس قدر منفی و مضر اثرات مرتب ہوں گے اور انھیں صحت کے حوالے سے کتنے گمبھیر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی ٹرمپ کی سوچ اپنے پیش روؤں سے قطعی مختلف تھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اپنے افتتاحی خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’ہم اپنی صنعت کی قیمت پر بیرونی صنعت کو مستحکم کرتے رہے ہیں اور دوسرے ممالک کی افواج کی امداد پرکھربوں ڈالر خرچ کرتے رہے ہیں جب کہ امریکا کا انفرا اسٹرکچر شکست و ریخت کا شکار ہوگیا ہے۔‘‘ لیکن صدارتی منصب سنبھالنے کے صرف آٹھ ماہ کے عرصے میں افغانستان سے امریکی افواج واپس بلانے کے بارے میں ٹرمپ کی کھوپڑی گھوم گئی جو جنوبی ایشیا سے متعلق ان کی 22 اگست 2017 کی تقریر سے صاف ظاہر ہے۔

امریکی وفاقی حکومت کے 0.1 ٹریلین ڈالر کے مقروض ہونے اور 700 بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ نے ٹرمپ پر چودہ طبق روشن کردیے ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ اب سخت بوکھلاہٹ اور شدید پریشانی میں مبتلا ہے کہ انفرااسٹرکچر کی تجدید کاری کے لیے مطلوبہ وسائل کہاں سے آئیں گے ۔ معاملہ ’’سانپ کے منہ میں چھچھوندر‘‘ والا ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری کے گمبھیر مسائل اس کے علاوہ ہیں جو منہ پھاڑے کھڑے ہوئے ہیں۔ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن۔ کیفیت یہ ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں۔

امریکی رائے دہندگان اپنے کیے پر پچھتا رہے ہیں کہ انھوں نے ملٹی بلیئر شخص کو اپنا صدر منتخب کرا کے اپنے پاؤں پرکلہاڑی مار لی ہے، لیکن ’’ اب  پچھتاوت کیا ہووت ، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔‘‘ افغانستان میں امریکا کے لمبے عرصے تک قیام اور وہاں اپنے فوجی اخراجات میں بھاری اضافہ کرکے صدر ٹرمپ نے امریکی عوام کے ساتھ کیے گئے، اپنے وعدے کی سراسر خلاف ورزی کی ہے جوکہ اپنا تھوکا ہوا چاٹنے کے مترادف ہے۔

چنانچہ امریکی عوام میں ٹرمپ کے خلاف غم وغصے اور مایوسی میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ آئے دن ان کے خلاف احتجاجات اور مظاہرے ہو رہے ہیں اور خواتین میں تو ٹرمپ سے نفرت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، لیکن ٹرمپ کی ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ وہ بار بار یہی کہہ رہے ہیں ’’میں صدر ہوں۔ میں صدر ہوں۔‘‘

ٹرمپ نے اپنے الیکشن کے وقت یہ کہا تھا کہ وہ ایکسپورٹس میں اضافہ کریں گے اور متوسط طبقے کی معاشی حالت کو بہتر کریں گے، لیکن ٹرمپ کا یہ وعدہ بھی نقش برآب ہی ثابت ہو رہا ہے۔ امریکی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اقتدار ری پبلکن پارٹی کے ہاتھوں میں آتا ہے مالیاتی خسارہ بڑھ جاتا ہے اور دفاعی اخراجات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں۔ امریکا کے عام شہری کی حالت ٹرمپ کے دور حکمرانی میں بد سے بدتر ہو رہی ہے اور اس میں بہتری کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ یورپ، مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے دوروں میں ٹرمپ کی کارکردگی مایوس کن ہی رہی اور معلوم یہ ہوا کہ امیج کا مسئلہ بڑا گمبھیر ہے۔ اس حوالے سے ہمیں یہ پرانی کہاوت یاد آ رہی ہے کہ اصل اہمیت لاکھ کی نہیں بلکہ ساکھ کی ہوتی ہے۔

امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے ان کے حالیہ فیصلے کی شدید مخالفت سے بھی ٹرمپ کی ساکھ کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ اس فیصلے کی صرف عرب اور دیگر مسلم ممالک ہی نے نہیں بلکہ امریکا کے اتحادیوں نے بھی ڈٹ کر مخالفت کی ہے۔ ادھر ٹرمپ نے افریقی ممالک کے بارے میں گزشتہ دنوں جو ہرزہ سرائی کی تھی اس پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹرمپ کی کیفیت کچھ یوں معلوم ہوتی ہے:

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

گزشتہ مئی کے شروع میں ٹرمپ نے برطانوی وزیراعظم کے ساتھ اپنی مسلم مخالف پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے جو تلخ کلامی کی تھی اس سے بھی ان کی ساکھ کو کافی نقصان ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں آیندہ فروری میں ہونے والا اپنا برطانیہ کا دورہ منسوخ کرنا پڑا۔ ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے اور توقع ہے کہ اس کے اثرات 2018 کے درمیانی مدت کے نومبر میں ہونے والے انتخابات پر ضرور پڑیں گے۔ ڈیموکریٹک پارٹی پچھلے نومبر میں ریاست ورجینیا کے گورنر کے انتخاب میں پہلے ہی کامیابی حاصل کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ وہ الباما میں سینیٹ کی نشست بھی جیت چکی ہے۔

صدر ٹرمپ کو اپنے جنونی مزاج کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا جس کی وجہ سے امریکا پاکستان سمیت اپنے کئی پرانے دوست ممالک سے کٹ جائے گا ۔ مہذب دنیا میں صدر ٹرمپ کی ہذیانی فطرت اورجنونی طرز حکمرانی کو شدید ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور وہ دنیا کی نظروں میں ایک مضحکہ خیز شخصیت بن کر رہ گئے ہیں۔

ایسا شخص نہ صرف اپنے ملک کی جگ ہنسائی کا سبب ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ ہے۔ ایک ہفت روزہ جرمن جریدے کے الفاظ میں ’’ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کا صدر بننے کے لائق نہیں ہے۔‘‘ ان کے پاس نہ تو مطلوبہ صلاحیت ہے اور نہ ہی انھیں اپنے منصب کے تقاضوں کا احساس ہے۔ ان کے فیصلوں سے مطلق العنانی کی بو آتی ہے جو جمہوری کلچر کی نفی ہے۔ یہ ہے ٹرمپ کی یک سالہ کارکردگی کا خلاصہ۔

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔