پردیسی پاکستانی

عبدالقادر حسن  جمعرات 1 فروری 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

دنیا بھر میں مسلمان جہاں جہاں بھی مقیم ہیں خصوصاً پاکستانی مسلمان وہ آج کے بے رحم سامراج کے نشانے پرہیں، پاکستان کے اندر یا باہر کا اب کوئی فرق نہیں رہا، پاکستان میں بھی وہ خطے جہاں آباد مسلمانوں پر سامراج کو شبہ ہے ہمارے ہاتھوں ہلاک ہو رہے ہیں، شہید اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ شر پسند ہیں اور کوئی شرپسند شہادت کے رتبے پر فائز نہیں ہو سکتا لیکن آج میں ان مسلمانوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو پردیس میں مقیم ہیں اور صرف روٹی اور روزگار کے سلسلے میں وطن چھوڑ کر گئے اور ایسے گئے کہ وطن ہی چھوڑ گئے۔ ان میں سے بہت تو مسلمان ملکوں میں ہیں لیکن ایک بڑی تعداد یورپ اور امریکا میں ہے۔

گزشتہ دنوں امریکا میں بر سر روزگار پاکستانیوں کا حال سننے کو ملا اور معلوم ہوا کہ امریکا کی موجودہ حکومت نے خاص طور پر اپنے عوام کو یقین دلایا ہے کہ ہر مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی تمہارا دشمن اور تمہاری سلامتی کے درپے ہے۔ امریکی کسی اور چیز کی پرواہ کرتے ہوں یا نہیں لیکن وہ اپنی سلامتی کے بارے میں بہت ڈرپوک واقع ہوئے ہیں اور کسی بھی ذریعے سے اس سلسلے میں ملنے والی معلومات پر آناً فاناً یقین کر لیتے ہیں ۔

باہر کی دنیا میں مسلمانوں کو پہلے بھی کچھ زیادہ پسند نہیں کیا جاتا لیکن 9/11 کے واقعہ کو اٹھارہ سال گزر جانے کے باوجود صورتحال جوں کی توں ہے اور کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ وہ ڈرامہ اصل میں تھا کیا اور اس کی حقیقت کیا تھی جو بات اس حادثہ کے بعد امریکیوںکے ذہن میں بٹھا دی گئی کہ اس روئے زمین کے تمام مسلمان تمہاری جان کے دشمن ہیں ۔ اس سلسلے میں کوئی امریکی کسی دلیل کو نہیں سنتا اور کسی بحث میںنہیں پڑتا وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ کوئی اگر ہے تو مسلمان اس کی جان کا دشمن ہے اور دشمن کے ساتھ طاقتور اور طاقت کے زعم میں اندھے امریکی جو سلوک کرنا چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں اور کرتے آرہے ہیں ۔

ہمارے ہاں یہ اطلاعات پہنچتی ہیں کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آرہی ہے لیکن امریکا میں جو مسلمان آباد ہیں ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ان کے لیے امریکا وہی ہے جو 9/11 کے بعد سامنے آیا چاہے اس کا حکمران کوئی بھی ہو۔ عراق کی جنگ کو ہم نے امریکا کے لیے دوسرا ویت نام سمجھ لیا تھا لیکن ویت نام کی جنگ میں مذہبی عقیدہ شامل نہیں تھا اور یہ جنگ سیاسی مفاد میں تھی لیکن مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مذہبی جذبات بھی شامل ہیں اور مسلمانوں کی وہ تاریخ بھی جس میں عیسائیوںاور مسلمانوںکے درمیان صلیبی جنگیں برپا ہوئیں۔

اس لیے اس بات سے دل کو تسلی نہیں دینی چاہیے کہ ہمارے ارد گرد جنگ میں امریکا اپنے شہریوں کی ہلاکتوں سے پریشان ہو جائے گا، یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ امریکا پر جو طبقہ آج حکمران ہے اس نے ووٹ ہی مسلمان مخالفت پر حاصل کیا تھا اور یہی جذبات مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اصل سبب ہیں ورنہ جو مسلمان امریکا میں موجود ہیں وہ وہاں کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

میں نے ایک پاکستانی سے پوچھا کہ کیا وہاں اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو اس نے کہا کہ بالکل میں جو کام کر رہا ہوں اس کی امریکیوں کو ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب تک محفوظ ہوں لیکن دل کے اندر ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ اس ملک میں میرا قیام وہ امریکیوں کے لیے خواہ کتنا ہی مفید کیوں نہ ہو اب بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

امریکی ابھی تک پرل ہاربر پر جاپانی حملے کو نہیں بھولے انھوں نے امریکا میں موجود لاکھوں بے گناہ جاپانیوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا تھا ان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہ تھا ان کا صرف قصور اتنا ہی تھا کہ جاپانی النسل تھے اور جاپانی امریکا پر حملہ آور ہو گئے تھے اس لیے امریکا نے جاپانی نسل کو معاف بھی نہیں کیا۔ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کو بھی یہی خطرہ ہے کہ اگر خدانخواستہ ایک اور9/11 ہوگیا تو پھر ان کو معاف کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جس کی وجہ سے پہلے افغانستان پھر عراق اور اب براہ راست پاکستان کو دھمکایا جا رہا ہے۔

ان حالات میں اور اس پریشان کن پس منظر میں پاکستانیوں کے دلوں میں خوف بھر چکا ہے اور وہ نہایت مہلک اندیشوں والی زندگی گزار رہے ہیں گو کہ وہ اپنے آپ کو امریکی شہری ہونے کی وجہ سے اپنے حقوق پر بڑا ناز کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ایسی ویسی بات ہو گئی تو امریکا آناً فاناً ان کے یہ حقوق سلب کر لے گا یہ حقوق وغیرہ سب دل کو بہلانے والی باتیں ہیں ۔

ایک امریکی پاکستانی نے جس کو وہاں کی شہریت بھی حاصل ہے مجھ سے پوچھا کیا پاکستان کے حالات ایسے ہوں گے کہ ہم واپس لوٹ کر باعزت زندگی بسر کر سکیں۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا، اس کا جواب ایک بار ایک پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی زبان سے سنا تھا، انھوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب میں کہا تھا کہ میں پاکستان کو ایسا بنا دوں گا کہ آپ لوگوں کو ملک سے باہر آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ باہر والے پاکستان میں نوکریاں تلاش کریں گے لیکن حالات کی گردش میں یہ سب باتیں محض خواہش بن گئیں ۔ باہر سے تو کوئی کیا آئے گا اور یہاں نوکری تلاش کرے گا ہم تو پہلے سے ہی موجود پاکستانیوں کے درپے ہیں وہ ملک سے بھاگ بھاگ کر سمندروں میں غرق ہو رہے ہیں باہر موجود پاکستانیوں کو ہم کہاں پناہ دیں گے۔

ہماری حالت تو ایسی ہے کہ کوئی پاکستانی اپنے سرمائے اور اپنی ہمت کے ساتھ اپنے وطن میں جگہ بنانا چاہے تو ہم اسے اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ جہاں سے آیا تھا وہیں بھاگ جاتا ہے اور اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ میں اس وقت اپنے پاکستانیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے وہ بھائی جو اپنی ہنر مندی اور صلاحیتوں سے باہر کی دنیا میں ایک مقام رکھتے ہیں وہ بھی پریشان کن حالات سے دوچار ہیں اور ہم سے پوچھتے ہیں کہ وہ اگر لوٹ آئیں تو ہم ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے ۔معلوم نہیں کس سے کیا کہا جائے کہ وہ ان پاکستانیوں کے مستقبل کی بھی فکر کرے جو ملک سے باہر ہیں اور اب تک جیسے تیسے دامے درمے ملک کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ یہ پردیسی پاکستانی بھی اپنے اصل وطن لوٹنے کی پریشانی میں مبتلا ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔