نگراں حکومت سے تعاون ناگزیر

 منگل 26 مارچ 2013
یہ ایک خوش گوار دن تھا کہ دہشت گردی سے نڈھال وطن عزیز میں نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے حلف لیا کہ ’’میں پاکستان کا حقیقی وفا دار رہوں گا۔ فوٹو: ایکسپریس

یہ ایک خوش گوار دن تھا کہ دہشت گردی سے نڈھال وطن عزیز میں نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے حلف لیا کہ ’’میں پاکستان کا حقیقی وفا دار رہوں گا۔ فوٹو: ایکسپریس

جسٹس (ر) میرہزار خان کھوسو نے نگراں وزیراعظم کا حلف اٹھالیا ہے۔ حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں منعقد ہوئی۔ صدر آصف علی زرداری نے ان سے حلف لیا۔یوں میرہزار خان کھوسو ملک کے نہ صرف چھٹے نگراں وزیراعظم بن گئے بلکہ جمہوری تسلسل کی ایک علامت کے طور پر بھی ابھرے ہیں جن کی بطور نگراں وزیر اعظم نامزدگی پاکستان میں جمہوری قوتوں کی فتح سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔

سیاسی حلقوں اور بعض آئینی و سیاسی مدبرین نے نگراں وزیراعظم کی تقرری میں غیر ضروری تاخیر کو سیاسی بلوغت کے فقدان اور جمہوری پارٹیز میں داخلی حکمت عملی اور قوت فیصلہ کی کمی قرار دیا ،مزید برآں ایک دوسرے پر اعتبار و اعتماد کے خلاکی شکایت بھی سنی گئی تاہم اس حقیقت کو سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ جمہوری حکومت کا اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنا ایک تاریخی پیش رفت ہے جس پر پوری قوم ناز کرسکتی ہے۔

حلف برداری کی تقریب میں سابق وزیراعظم راجا پرویزاشرف، سید یوسف رضاگیلانی، چیئرمین سینیٹ سید نیر حسین بخاری، ڈاکٹرفہمیدہ مرزا، نگراں وزرائے اعلیٰ، صدر آزادکشمیر سردار یعقوب خان، چیئرمین نیب فصیح بخاری، سابق وفاقی وزرا و ارکان اسمبلی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں، پاک فضائیہ کے سربراہ اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی لیکن جن سیاسی جماعتوں کے قائدین نے شرکت سے بوجوہ گریز کیا اسے مسئلہ نہیں بنانا چاہیے کیونکہ جمہوریت کا حسن اختلافات کی نیرنگیوں سے نکھرتا اور سنورتاہے، جمہوریت پر بھی ’’چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد‘‘والی مثال صادق آتی ہے۔

اختلافات سے سیاسی جماعتوں میں فکری تناظر اور قومی امور یا جماعتی تنظیم کے حوالے سے کافی نشیب وفراز آتے ہیں اس لیے ان کے رہنمائوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے جماعتی موقف کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاسی اور جمہوری عمل کے مین اسٹریم میں رہتے ہوئے ملک و قوم کی تعمیر کرتے رہیں۔ تاہم مسلم لیگ (ن) ، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ فنکشنل کی طرف سے اگر کسی نے شرکت نہیں کی توپیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کی منطق پر یقین رکھنا چاہیے کہ ان سب سیاسی قوتوں میں قدر مشترک جمہوریت کی بقا کی لگن ہے۔

یہ ایک خوش گوار دن تھا کہ دہشت گردی سے نڈھال وطن عزیز میں نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے حلف لیا کہ ’’میں پاکستان کا حقیقی وفا دار رہوں گا، اپنے فرائض ایمانداری اور پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق اٹھائوں گا، میں اپنے ذاتی مفاد کو سرکاری امور یا اپنے سرکاری فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دوںگا، تمام حالات میں قانون کے مطابق کسی خوف، لالچ یا بدنیتی کے بغیر تمام لوگوں سے مساوی سلوک کروں گا۔ ان لفظوں میں پاکستان عالمی برادری میں سرخرو جمہوری ملک کے طور پر سامنے آیا ہے ۔

صدر زرداری کی حکومت نے بلاشبہ بہت سارے معاملات میں عوام کو وہ ریلیف نہیں دیا جس کے وہ منتظر تھے تاہم ان کا یہ کریڈٹ کوئی ان سے نہیں چھین سکتا کہ جمہوری حکومت نے اپنی آئینی میعاد پوری کی اور اسی جمہوری تسلسل کے باعث آج ملک نئے انتخابات کے لیے پر تول رہا ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ نگراں وزرائے اعظم میں میر ہزار خان کھوسہ پہلے وزیر اعظم ہیں جن کو 60روز میں انتخابات کراکراقتدار منتخب نمایندوں کے حوالے کرنے کا آئینی ٹاسک دیا گیا ہے ۔ پہلے 5 نگراں وزرائے اعظم کو 90 روز میں انتخابات کرانے کا موقع دیا گیا جب کہ میر ہزار خان کھوسہ کی مدت آئینی طور پر پارلیمنٹ کی مدت پوری ہونے کے باعث صرف 60روز کے لیے ہوگی ، اس عرصے میں بھی نگراں وزیراعظم پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث ایک ہفتہ کم ہوگیا ہے۔

میرہزار خان کھوسو کو 11 مئی کو انتخابات مکمل ہونے کے بعد اسمبلیوں کے حلف اور قائد ایوان کے انتخاب کے بعد اقتدار سے الگ ہونا ہوگا۔ان کی تقرری سے مفروضہ لمبی مدت کے ٹیکنوکریٹک نگراںسیٹ اپ کی افواہوںنے بھی دم توڑدیا جو اچھا شگون ہے اور اس سے جمہوریت کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔دوسری جانب سیاسی جماعتوں میں انتخابی موسم بہار کی کیفیت کا سماں ہے۔منشوروں کی گھن گھرج ہے، کاغذات نامزدگی بھرے جارہے ہیں،الیکشن کمیشن متحرک ہے، قانون و آئینی نکات پر مختلف سیاسی جماعتوں میں عدالتی جنگ جاری ہے۔

ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں کے خلاف پٹیشن دائر کی ہے، دیگر جماعتوں نے دہری شہریت اور مختلف امور اور مسائل کے حوالہ سے عدلیہ سے رجوع کیا ہے جب کہ ایک آزاد عدلیہ جمہوریت اور قومی سلامتی کے محاذ پر قومی امنگوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ادھر ملک کی دو بڑی جماعتوںپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے اہم اور جمود شکن رہنما کی صورت میں سیاسی افق پر جلوہ گر ہیں۔ وہ 7 وعدوں کے ساتھ سیاست کی شکل اور ملک کی تقدیر بدلنے کی بات کرتے ہیں۔عمران خان نے مرکزی پارلیمانی پارٹی کا اہم اجلاس طلب کر لیا ۔مسلم لیگ (ن) نے مانسہرہ میں ایک بڑے جلسے سے انتخابی مہم شروع کی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے مانسہرہ کو شمالی علاقہ جات اور موٹروے سے ملانے کے لیے سڑکوں کا جال بچھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے پہلے ایٹمی دھماکا کیا، اب اقتدار میں آ کر معاشی دھماکا کریں گے، عوام وزیر اعظم کو نہیں قائد اعظم کو ووٹ دیں،پیپلز پارٹی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر اپنے انتخابی مہم کا پر جوش آغاز کرنے والی ہے۔ بلوچ قوم پرست لیڈر براہمداغ بگٹی نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل جلاوطنی ختم کرکے ایک بار پھر پاکستان آئے ہیں۔ان کی آمد بہر حال بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کی سمت ایک اہم پیش قدمی ہے۔

اسی طرح آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ جنرل(ر) پرویز مشرف کی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپسی بھی سیاسی ہلچل میں اضافہ کا باعث بنی ہے ، وہ پر تپش انتخابی زمین پر قدم رکھ چکے ہیں ۔اس سے روادارا نہ ملکی سیاسی کلچر کو فروغ ملتے دنیا بھی دیکھ رہی ہے۔پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمدخان نے گزشتہ روز یہ فکر انگیز بات کہی کہ ریاست کو بچانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ نے تلخ فیصلے کیے اوراقدامات اٹھائے، وسائل کی غلط تقسیم سے ناانصافی کی بنیاد پڑی اورطاقتورلوگوں نے قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹا، انھوں نے کہاکہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے لیکن ریاست کو بچانا اورعوام کو فوری انصاف کی فراہمی ہمارا ایجنڈا ضروری ہے۔

یہ حقیقت پسندانہ بیان ہے۔اسی طرح جے یو آئی، ایم کیو ایم ،پاکستان مسلم لیگ ق ،جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان،سنی تحریک، جمعیت اہلحدیث اور دیگر سیاسی جماعتوں کا انتخابی میدان میں اترنا ملک کے جمہوری مستقبل کے لیے ایک صحت مندعلامت ہے ۔ ان تمام حقائق سے ہٹ کر عوامی ریلیف کے حوالے سے سیکریٹری پانی وبجلی سکندررائے نے خوشخبری دی ہے کہ 10اپریل تک بجلی کی پیداوار میں 4 سے 5 ہزار میگاواٹ تک اضافہ ہو جائے گا۔ تھرمل پاورپلانٹس کو یومیہ 25ہزار میٹرک ٹن تیل فراہم کرنے کے لیے انتظامات کر لیے گئے ہیں۔ عوام کے لیے بجلی کی قیمت نہیں بڑھائیں گے،خود حکومت کو مہنگی ہی کیوں نہ خریدنی پڑے۔ اسی ضمن میں عوام نئی نگراں حکومت سے مزید ثمرات کے متمنی ہوں گے۔امید ہے کہ قوم کو سیاسی جماعتوں کے تعاون سے  جمہوری سفر کی منزل مل ہی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔