خدا ایسے محافظوں سے محفوظ رکھے

زاہدہ حنا  منگل 26 مارچ 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی اس کم نصیب نسل سے میرا تعلق ہے جس کی زندگی آمروں کے دورِ اقتدار میں گزر گئی۔ جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس وقت ایک ایسی فضا بنائی جاچکی تھی جو سیاست، جمہوریت اور سیاست دانوں کے خلاف تھی۔ جنرل ایوب کے مارشل لاء کو اس زمانے میں شایع ہونے والے معدودے چند اخباروں نے ملک کے لیے ’’امرت دھارا‘‘ بناکر پیش کیا۔ اقتدار پر ناجائز قبضے کو جنرل موصوف کا ایک شاندار کارنامہ قرار دیا گیا۔

وہ اخبارات اور صحافی جنہوں نے یہ سب کچھ ماننے سے انکار کیا انھیں درس عبرت بنادیا گیا۔ وہ سیاست دان اور نوجوان طلبہ جنہوں نے اس مارشل لاء کی مخالفت کی، وہ ’غدار‘ اور ’کمیونسٹ‘ قرار پائے۔ باچا خان، جی ایم سید، غوث بخش بزنجو اور متعدد دوسرے اہم رہنما جیلوں میں زندگی بسر کرتے رہے۔ حسن ناصر اور دوسرے نوجوانوں کی ہڈیاں توڑی جاتی رہیں۔ ہمارے کتنے ہی جوہر قابل گم نام قبروں مین دفن ہوئے۔ محترمہ فاطمہ جناح کو جس شرم ناک دھاندلی سے ہرایا گیا اور پھر ’فتح‘ کا الم ناک سرنامہ۔

یہ وہ آمریت تھی جس نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو یکسر بد دل کر دیا اور ان کے دلوں میں علیحدگی کے بیچ بودیے۔ جنرل ایوب کی رخصت اور جنرل یحییٰ خان کی آمد کے ساتھ ہی ہم نے مشرقی پاکستان میں خون کا دریا بہتے اور دو قومی نظریے کو اس میں غرق ہوتے دیکھا۔ وہ سیاستدان جو بھٹو صاحب کی موجودگی میں اپنا قد کاٹھ نہیں نکال سکتے تھے، انھوں نے نظام مصطفیٰ کا دل فریب نعرہ لگا کر عوام کو بے وقوف بنانا چاہا لیکن اصل ہاتھ خود ان کے ساتھ ہوا جب جنرل ضیاء الحق انھیں اسلامی انقلاب کا ہرا بھرا خواب دکھاتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوئے اور اس وقت تک قابض رہے جب تک موت ان پر اور ان کے ساتھیوں پر زمین اور آسمان کے بیچ نازل نہیں ہوئی۔

جنرل ضیاء نے اسلام کے نام پر مملکت کی بنیادوں میں انتہا پسندی، فرقہ واریت اور لسانی تفرقے کی وہ بارود بچھائی جس نے ہمارے ملک کو تہس نہس کردیا ۔ ان کی رخصت کے دہائیوں بعد بھی یہ رجحانات دن دونی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں۔جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 میں جس طرح ایک منتخب حکومت پر شب خون مارا، اس کی مثال ملنی مشکل ہے اور پھر وہ دبدبے اور طنطنے سے ملک کو برباد کرتے رہے، اسے ہم سب نے دیکھا او ریہ بھی دیکھا کہ ان کی مخالفت کرنے والوں پر کیا گزری۔ ایک طویل سیاسی جدوجہد اور فقید المثال وکلاء تحریک کے بعد ہی ان سے نجات حاصل کی جاسکی۔ لیکن ہم نے انھیں قصرِ صدر سے گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت ہوتے دیکھا اور اپنے نصیبوں پر آنسو بہائے۔

اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والے تمام ا فراد اس سے پہلے اعزاز کے ساتھ قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیے گئے، حد تو یہ ہے کہ پاکستان توڑنے والے کی میت بھی تمام عزت و احترام کے ساتھ قبر میں اتاری گئی اور اب ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کس طمطراق سے پاکستان کی سرزمین پر اترے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے اعمال کی سزا پورا ملک بھگت رہا ہے۔ ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کرنے والوں سے زیادہ ان کی حفاظت پر مامور لوگوں کی نفری تھی۔ وہ ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے تو گاڑیوں کی قطاریں تھیں جو بلٹ پروف اور بم پروف تھیں۔

ان میں وہ جیمرز لگے ہوئے تھے جو ناکارہ نہ تھے جیسا کہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوا تھا۔ کمانڈوز کے حصار میں تیزی سے گزرتا ہوا ان کا قافلہ دیکھ کر بے نظیر بھٹو کا وہ جلوس نگاہوں میں گھوم گیا جس کی ’’سیکیورٹی‘‘ کا یہ عالم تھا کہ جلوس میں شامل سیکڑوں جیالوں کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ پنڈی کا وہ لیاقت باغ جہاں بے نظیر بھٹو کی حفاظت کا وہ بے نظیر اہتمام کیا گیا تھا کہ وہاں سے وہ بچ کر نہ نکل سکیں۔ اس سانحے کے بارے میں جنرل مشرف نے نہایت رعونت سے کہا تھا کہ میں نے انھیں آنے سے منع کیا تھا، اول تو وہ آئیں کیوں اور آئی تھیں تو سن روف سے سر کیوں باہر نکالا تھا۔ ان کا قتل ان کی اپنی ذمے داری ہے۔

اسے دیدہ دلیری نہیں تو کیا کہا جائے کہ ملک کو انتہا پسندی کے جہنم میں دھکیلنے والے سابق فوجی آمر فاتحانہ انداز میں کراچی ایئرپورٹ پر اترے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ پاکستان بچانے آئے ہیں۔ اس ایئرپورٹ پر قدم رکھتے ہوئے انھیں 12 مئی کا وہ سیاہ دن تو بھلا کیوں یاد آیا ہوگا جب ان کے اشارے پر محترم چیف جسٹس جناب افتخار احمد چوہدری اسی کراچی ایئرپورٹ سے باہر نہ آسکے تھے اور گھنٹوں محصور رہنے کے بعد واپس چلے گئے اور شہر خون میں نہلا دیا گیا تھا۔ انھیں تو شاید کچھ بھی یاد نہ ہو لیکن ہمیں یاد ہے سب ذرا ذرا۔ ہمیں شہید اکبر بگٹی، بے نظیر بھٹو اور ہزاروں بلوچ نوجوانوں کا خونِ ناحق یاد ہے۔

لال مسجد کا سانحہ اور امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کی عالمی جنگ کو پاکستان کی سرحدوں میں کھینچ لانے کا جرم ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ ہم یہ کیسے فراموش کردیں کہ پاکستان آج جن تباہیوں سے دو چار ہے وہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا آوازہ بلند کرنے والے کمانڈو کی ہوسِ اقتدار کا نتیجہ ہے۔ آج وہ صاحب جو پاکستان بچانے کا نعرہ لگارہے ہیں ان کے حامیوں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ جب امریکی وزیر دفاع کے ایک فون پر انھوں نے امریکا کی افغان جنگ میں امریکی اتحادی ہونے کا اقرار کیا تھا تو اس وقت وہ پاکستان بچا رہے تھے یا اسے پتھر کے دور میں دھکیل رہے تھے؟

ان کی آمد کے مناظر دیکھتے ہوئے کیا کیا نہیں یاد آیا۔ ان پر اس ملک میں ایک نہیں کئی مقدمات قائم ہیں، وہ پیشگی ضمانت کروا کے آئے ہیں۔  مجھے وہ دن یاد آیا جب میاں نواز شریف اپنی جلا وطنی ختم کرکے اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تھے اور انھیں دھکے دیکر ایئرپورٹ کی عمارت سے نکال دیا گیا تھا اور اس طیارے میں بٹھا دیا گیا تھا جسے ایک برادر ملک کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ لے کر آئے تھے اور انھیں بہ یک بینی و دو گوش واپس لے گئے تھے۔

یہ دن ریٹائرڈ جرنیل کو بھی یاد تھا تب ہی انھوں نے کراچی ایئرپورٹ پر یہ کہا کہ ان کے خیال میں انھیں میاں نواز شریف کی طرح واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ نوابزادہ اکبر بگٹی کا خونِ ناحق انھیں کس طور تنگ کرتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتاہے کہ اپنے دس منٹ کے خطاب میں انھوں نے بار باریہ کہا کہ میرے استقبال کے لیے بلوچستان سے بھی لوگ آئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ بلوچ ان سے ناراض نہیں۔

ان کے سابق قانونی مشیر اور ان کی پارٹی کے موجودہ نائب صدر احمد رضا خان قصوری نے ان کی آمد سے پہلے کہا تھا کہ کراچی میں جب وہ ایئرپورٹ پر اتریں گے تو ان کا استقبال اس بات کا اشارہ ہوگاکہ ان کی مقبولیت کی سطح کیا ہے۔ اس بارے میں اپنی کوئی رائے دینے کے بجائے ’نیویارک ٹائمز‘ کا تبصرہ اہم ہے کہ کراچی ایئرپورٹ پر ان کے حامیوں کی ایک مختصر تعداد موجود تھی۔ بعض دوسرے لوگوں نے وہاں موجود لوگوں کو ایک ہزار سے دو ہزار کی تعداد کا تعین کیا ہے۔ بی بی سی کی اوریا گوین جو دبئی سے ان کے ساتھ تھی اس کا کہناہے کہ ان کی فلائٹ ایک مختصر انتخابی مہم میں بدل گئی تھی اور خود جنرل (ر) پرویز مشرف نے اس موقعے کو برات سے تشبیہ دی۔

’الجزیرہ‘ نے حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ہیڈ کوارٹر سے خبر دی ہے کہ تنظیم نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشرف سے ان کے دورِ حکومت میں حقوق انسانی کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی کے بارے میں جواب طلب کرے۔ اس ادارے کے پاکستانی ڈائریکٹر علی دایان  حسن کا کہناہے کہ ریٹائرڈ جنرل کے خلاف دستاویزی شہادتوں کی روشنی میں مقدمہ چلنا چاہیے تاکہ آیندہ ملک میں فوج کی طرف سے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ ختم ہو۔ یہ مشرف کا ہی زمانہ تھا جب ہزاروں سیاسی مخالفین کو دہشت گردی کے الزام میں اٹھایا گیا، ان پر بدترین تشدد ہوا، پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں ملیں اور سیکڑوں کا کچھ پتہ نہ چل سکا اور اس نسخے کو تیربہ ہدف سمجھ کر آج بھی استعمال کیا جارہا ہے اور اس کا سب سے بڑا نشانہ بلوچ نوجوان ہیں۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کا یہ خیال کہ پاکستان میں لاکھوں کا مجمع ان کا استقبال کرے گا، کراچی ایئرپورٹ پر دم توڑ گیا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ابھی بھی وہ اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں بہت سی خوش فہمیوں میں گرفتار ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایک بدلے ہوئے پاکستان میں انھیں عوام، آزاد عدلیہ اور میڈیا کے کڑے احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔اپنی آمد کے موقعے پر انھوں نے اپنے اس حلف کا بھی ذکر کیا جو انھوں نے فوج میں شامل ہوتے ہوئے اٹھایا تھا جس میں ملک کی حفاظت کی بات تھی۔ کاش انھوں نے اپنا یہ عہد اس وقت بھی یاد رکھا ہوتا جب وہ 12 اکتوبر 1999 کو آئین کو پامال کررہے تھے۔

جو آئین کی حفاظت نہیں کرتا وہ غداری کا ارتکاب کرتا ہے۔ ایسا فرد ملک کا محافظ کس طرح ہوسکتا ہے؟ خدا ایسے محافظوں سے پاکستان کو محفوظ رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔