اب ایک ہنستا کھیلتا بزرگ حکمران

عبدالقادر حسن  منگل 26 مارچ 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

قوم ایک دوسرے کو مبارک دے رہی ہے کہ ان کا نیا وزیر اعظم اپنی اس ضعیف العمری کے باوجود وزارت عظمیٰ کی بے انت خوشی کو صحیح و سلامت با ہوش و حواس برداشت کر گیا ہے ورنہ فوری طور پر اخبار والوں نے تو شور مچا دیا تھا کہ کھوسو صاحب کی خوشی اس قدر تند و تیز تھی کہ ہنس ہنس کر ان کے جبڑے یعنی منہ درد دینے لگا اور وہ اس خوشی میں دوستوں کی لائی ہوئی مبارک باد کی مٹھائیاں اتنی کھا گئے کہ اب وہ وزارت عظمیٰ کی خوشی سے تو بچ گئے لیکن شوگر سے شاید ہی بچ سکیں۔ میر ہزار خان کھوسو کی عمر عزیز 85 برس سے کچھ اوپر بتائی گئی ہے۔

لیکن اس بے پایاں اور بے محابا خوشی کے موقعے پر انھوں نے جس جسمانی پھرتی اور توانائی کا مظاہرہ کیا ہے وہ کسی ضعیف العمر بزرگ کا ہر گز نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ ایک ادھیڑ عمر نوجوان کا سا ہے اس کے بعد گارڈ آف آنر کی تقریب میں انھیں توازن کے ساتھ بغیر سہارے چلتا دیکھا تو اندازہ ہوا کہ ان کے گِٹے گوڈے سلامت ہیں اور ان میں ماشاء اللہ اتنی توانائی باقی ہے کہ ایسی سرکاری تقریبات سر انجام دے سکیں۔ جناب وزیر اعظم کی اس توانائی اور چاق و چوبندی پر قوم کو مبارک ہو اگر ان کا جسم اور اندرونی نظام بشمول دل و دماغ اس خوشی کو برداشت کر گیا تو وہ اپنے اقتدار کو سنبھال لیں گے۔ یہ امر ہم سب رعایا کے لیے قابل اطمینان ہے کہ ہمارا حکمران 85 برس کی عمر میں بھی درست حالت میں ہے اور چل پھر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ایسے ہی چلتا پھرتا رکھے اور وہ قوم کی خدمت کرتے رہیں۔

جناب وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کو جب میں نے وزارت عظمیٰ کی خوشی ملنے پر بے چین اور بے قرار ہوتے دیکھا تو میرے پرانے ذہن میں ایک بات تازہ ہوئی جب یہ فرمایا گیا تھا کہ ہمارا حکمران تو کُند چُھری کے نیچے آ جاتا ہے اور پھر اس کُند چھری سے ذبح ہوتا رہتا ہے کیونکہ اس پر جن انسانوں کی ذمے داری ہوتی ہے وہ کم از کم ان کی جان و مال کا محافظ ہوتا ہے یعنی انھیں بھوک بیماری اور کسی دوسری جسمانی اذیت سے تنہا دوچار نہیں ہونے دیتا اور ان کے پاس جو مال ہے اس کی حفاظت کرتا ہے بلکہ ایسے حالات پیدا کرتا ہے جن میں وہ خوش رہیں اور ان کا ایمان سلامت رہے۔

کسی اسلامی فلاحی ریاست میں انسانوں کو محض جانور سمجھ کر جان و مال کی طرف سے مطمئن نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی روحانی مسرت بھی ایسی ریاست کے لیے اتنی ہی اہم ہوتی ہے جتنی اس کی جسمانی راحت۔ حضورؐ کا یہ مشہور فرمان ہے کہ افلاس انسان کو کفر کے قریب کر دیتا ہے اور یہ فرمان کسی اسلامی ریاست کی بنیاد ہے کہ شہری اتنے خوشحال ضرور ہوں گے کہ ان کا ایمان سلامت رہے، حالات کی تلخی اس کے ایمان پر اثر انداز نہ ہو۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایمان کی حرارت کسی صحت مند اور خوش و خرم جسم میں زندہ رہتی ہے، وہ لوگ بہت ہی خوش و خرم تھے جنہوں نے ایک دنیا فتح کر لی تھی اور جن کی ایمانی توانائی کے سامنے دنیا کی طاقت بے بس تھی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جب یہ طاقت کمزور پڑ گئی تو یہ قوم محکوم بن گئی۔

آج ہم پاکستانی ایک محکوم قوم ہیں جس پر ایک غیر قوم امریکا اور اس کے حواری حکمران ہیں۔ ہماری زندگی ایک افسانہ بن گئی ہے، تاریخ کی ایک داستان جو ہمیں رلاتی اور دوسروں کو ہنساتی ہے۔ ہم اپنی فتوحات اور عالمی و سائنسی کارناموں کا ذکر کرتے ہیں اور اپنی عظمت رفتہ پر آنسو بہاتے ہیں جب کہ دوسرے جو کل تک خیر چھوڑیے ان باتوں کو فی الحال اپنی اس عارضی زندگی کی ایک خوشی کا ذکر کرتے ہیں جو ہمیں ایک نئے حکمران کی صورت میں ملی ہے، اپنے آنے والے دو چار دن کسی اچھی امید پر بسر کر لیتے ہیں۔ ہم زندہ ہیں تو انھیں امیدوں پر ورنہ ہم تو اس قدر کمزور ہو گئے ہیں کہ اپنے کسی چور اچکے اور ڈکیت سے بدلہ بھی نہیں لے  سکتے، باز پرس تک نہیں کر سکتے۔

گزشتہ حکومت نے جو اب تک جاری ہی سمجھیں ہمارے جسموں کا رس بھی نچوڑ لیا اور ہمیں ادھ موا کر دیا لیکن ان کی دیدہ دلیری نہیں اپنی کمزوری ملاحظہ کریں کہ وہ اب ایک بار پھر ہم سے ووٹ مانگنے کے لیے میدان میں دندناتے پھر رہے ہیں اور حیرت کیجیے کہ ایک ایسا حکمران بھی واپس آ گیا ہے جو قومی مجرم ہے لیکن اسے یقین ہے کہ کوئی اس کو چھو بھی نہیں سکتا ہم جس حالت میں ہیں کیا بعید کہ وہ کل پھر سے ہمارا حکمران نہ بن جائے، آخر وہ کیوں آیا ہے کیا کچھ سامان بھول گیا تھا جسے لینے آ گیا ہے۔ اس سے پہلے ایک مداری بڑے جلوے دکھا گیا لیکن وہ محدود ذہن کا تھا اور اسے معلوم نہ تھا کہ یہاں پہلے سے اس سے کہیں بڑے مداری موجود ہیں جو ڈگڈگی بجائے بغیر بھی تماشہ دکھا سکتے ہیں۔

اب وہ پھر الیکشن میں ہیں اور عنقریب تماشہ لگنے والا ہے۔ ہم وہ بدنصیب قوم ہیں کہ جس کے پاس اچھے حکمرانوں کی مثالیں موجود ہیں اور ان مثالوں پر عمل کرنے سے کوئی روکتا نہیں بلکہ اگر ایسا کریں تو عوام خود ہر رکاوٹ دور کر دیں ایسا آج کی دنیا میں بھی ہو رہا ہے اور ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے بس بات صرف اتنی ہے کہ آپ ان عوام تک رسائی حاصل کر لیں جن کے نام پر آپ اقتدار کی زحمت اٹھاتے ہیں۔ بات وہی پرانی برحق ہے کہ جس نے خدمت کی وہ مخدوم بن گیا اور جس نے لوٹا وہ مردود بن گیا۔ خدا کے لیے ووٹ سوچ سمجھ کر دیں اور ہر ووٹر جانتا ہے کہ کون اس کے ووٹ کا حقدار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔