ایک عہد ساز دور

اسد اللہ غالب  منگل 26 مارچ 2013
ghalib1947@gmail.com

[email protected]

پہلے تو آپ کو میرے کالم کے عنوان پر اعتراض ہو گا، لفظوں کی تکرار ،لیکن میں اپنی کوتاہی تسلیم کرتا ہوں کہ جو کچھ کہنا چاہتا ہوں ، اس کے بغیر کہہ نہیں سکتا۔مگر یہ جو ایک عہد تما م ہوا،یہ نئے جہانوں کی بنیا دتھا۔  پاکستان بننے کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک جمہوری منتخب حکومت نے اپنی ٹرم مکمل کی مگر پھر بھی میرے دل میں ایک چبھن یہ ہے کہ ابھی تک پاکستان کو کوئی وزیراعظم اپنی آئینی ٹرم مکمل نہیں کر سکا۔

جنرل مشرف نے بھی دعویٰ کیا کہ ان کے زیر سایہ پارلیمنٹ نے پہلی دفعہ ٹرم مکمل کی لیکن اس ٹرم میں تین وزیر اعظم آئے، اس دور میں کسی وزیر اعظم کو بدلنے کی کیا ضرورت آن پڑی تھی ، ان میں سے کوئی بھی تو محمد خان جونیجو کی طرح اپنی ہٹ پر چلنے والا نہیں تھا۔ میر ظفرا للہ جمالی سے زیادہ شریف النفس وزیر اعظم کہاں سے ملے گا، چلیے وہ گوارا نہیں تھے تو چوہدری شجاعت ہی کو باقی عرصہ پورا کرنے دیتے، شوکت عزیز تو سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں تھے اور مالیات کے ماہر ہونے کے سبب انھوں نے کوئی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہائیں۔

موجودہ جمہوری دور میں یوسف رضا گیلانی پوری پارلیمنٹ کے اتفاق رائے سے وزیر اعظم چنے گئے۔ لیکن عدلیہ نے ان کو باہر نکال پھینکا۔ راجہ پرویز اشرف کے سرپر پہلے لمحے سے تلوار لٹکی رہی۔ ابھی گئے کہ گئے والی کیفیت تھی اور اگر صدر زرداری نے پانچ سال نکال لیے یا نکال لیں گے تو اس حالت میں کہ ہر آن ان کے جانے کی پیشین گوئیاں کی جاتی رہیں۔مگر وہ سخت جان نکلے ۔ عدلیہ بھی ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کر سکی اور میڈیا اور سول سوسائٹی مل کر بھی ان کا بال بیکا نہ کر سکے۔اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ صدر صاحب خوش قسمت ہوں گے۔

مگر اس سے بھی زیادہ اہم فیکٹر یہ ہے کہ صدر صاحب نے بہت زیادہ لچک کا مظاہرہ بھی کیا اور وہ ایک بلا کے فائٹر بھی ثابت ہوئے، انھوں نے سرنڈر کرنے سے انکار کیا ،ان کا کہنا تھا کہ انھیں ایوان صدر سے کسی ایمبولینس میں نکالاجا سکتا ہے۔ایک خوبی جس کا ان کے دوست دشمن سبھی کھلا اعتراف کرتے ہیں وہ ہے مفاہمت کا جذبہ۔اس کے لیے بلا کا حوصلہ چاہیے۔ مفاہمت نہ تو طاقت کے بل پر ہو سکتی ہے ، نہ کمزور پوزیشن کے ساتھ، یہ تو سیاست کی معراج ہے جس پر زرداری صاحب فائز تھے۔جس ایوان میں ان کی سادہ اکثریت بھی نہ تھی، اس میں انھوں نے پانچ سال تک اپنی پارٹی کی حکومت قائم رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔

اے این پی، جے یو آئی(ف)، ایم کیو ایم سے اشتراک کیے رکھااور جب یوں لگا کہ کشتی ڈول رہی ہے تو انھوں نے مسلم لیگ ق سے سمجھوتہ کر لیا۔حالانکہ وہ اسے قاتل لیگ کہہ چکے تھے مگر دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت تھے۔ اور یوں پانچ برس مکمل ہو گئے۔جب ضرورت تھی تو ن لیگ کو بھی ساتھ ملایااور ن لیگ نے وفاق میں ساتھ چھوڑ دیا تو صدر زرداری نے پنجاب میں جب تک ہو سکا ، ن لیگ کا ساتھ نبھایا۔ویسے لوگوں کا تاثر ہے کہ ن لیگ نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔اور سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا۔

بہر حال جس کا جو کردار ہے ، اسے سراہا جانا چاہیے۔اور یہ کردار ہر کسی کو اس وقت ضرور نظر آیا جب آئینی ترامیم کا مسئلہ تھا، یا جب این ایف سی ایوراڈ کو طے کرنے کا مرحلہ آیا تو پارلیمنٹ کے ایک ایک رکن نے جمہوریت اور آئین کی بالادستی اور عمل داری کے لیے کھل کر اور قابل ستائش کردار ادا کیا۔ آئین کی ہر ترمیم ،ایوان کے مکمل اتفاق رائے سے منظور کی گئی، ایبٹ آباد سانحہ اور سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی جارحیت کی مذمت میں پارلیمنٹ نے مکمل اتفاق رائے سے قراردادیں منظور کیں۔ چھوٹی موٹی موٹی باتوں پر اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے، تاہم بعض معاملات پر بحران بھی کھڑے ہوئے جن میں میمو گیٹ سر فہرست ہے ، اس دوران صدر زرداری اس قدر دبائو کا شکا ر رہے یا انھوں نے مصلحت اس میں سمجھی کہ علاج کے لیے چند روز دوبئی کے اسپتال میں جا داخل ہوئے۔

پانچ برسوں میں بڑے مسائل میں دہشت گردی کی جنگ اور لوڈ شیڈنگ ،زیادہ سنگین تھے۔ دہشت گردی کی جنگ پر تو حکومت نے قوم کو ساتھ ملا کر فیصلے کیے ، خاص طور پر سوات اور مالاکنڈ میں آپریشن کی کامیابی قومی پشت پناہی کی مرہون منت تھی، امریکی دبائو کا مقابلہ بھی قومی اتفاق رائے سے کیا گیا، اس میں قابل ذکر یہ ہے کہ نیٹو سپلائی کو ایک مخصوص عرصے کے لیے بند رکھا گیا۔ ڈرون حملوں کے خلاف بھی اندرون ملک اور بیرون ملک ایک فضا بنائی گئی۔لوڈ شیڈنگ اور توانائی کے بحران کا کوئی حل تو تلاش نہ کیا جاسکا مگر اس کا اپوزیشن نے کوئی خاص فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی نہیں کی ، اس لیے کہ ان مسائل پر قابو پانا کسی کے بس میں بھی نہیں تھا، اب اگلا الیکشن سر پر ہے تو ن لیگ اور تحریک انصاف جو دو بڑی اپوزیشن پارٹیاں ہیں ، ان مسائل کا کوئی جلد حل پیش نہیں کر سکیں۔

کسی کے پاس بھی الہ دین کا چراغ نہیں کہ جس کے رگڑنے سے جن حاضر ہو جائے اور ہر مسئلہ چشم زدن میں حل کر دے۔ لوگوں کو بھی احساس ہے کہ قومی تاریخ میں بیشتر عرصے تک ملک پر مارشل لا مسلط رہا یا پس پردہ رہ کر جمہوری حکومتوں کو بے دست و پا رکھا گیا۔ساٹھ برس کے سنگین مسائل کو پانچ سال میں حل کرنا ممکن ہی نہیں۔مگر یہ ضرور ہے کہ ان کے حل کے لیے ایک بنیاد رکھ دی گئی ہے، اسی لیے ن لیگ کا کہنا ہے کہ وہ دو سال کے اندر لوڈ شیڈنگ پر قابو پا لے گی، حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے جن منصوبوں کو شروع کر رکھا ہے ، ان کے نتائج دو برسوں میں ظاہرہوں گے اور اگلی حکومت کو ان کا فائدہو گا۔پچھلے پانچ برسوں میں اداروں کے ٹکرائو کی کیفیت بھی دیکھنے میں آئی ۔

عدلیہ نے فعالیت کا مظاہرہ کیا، ظاہر ہے ایسا صرف جمہوری دور میں ہی ہو سکتا تھا ۔جمہوریت میں ریاستی اداروں کی خود مختاری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ پہلی بار ادارے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہے تھے، اس لیے لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی کہ کہیں یہ آپس میں نہ ٹکرا جائیں۔ایک موقعے پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو کہنا پڑا کہ ریاست کے اندر ریاست برداشت نہیں کی جائے گی، جس پر فوج نے پریس ریلیز جاری کی کہ یہ بیان واپس لیا جائے ورنہ نتائج خطر ناک ہو سکتے ہیں۔ اچھا ہوا کہ اس بیان بازی پر احسن طریقے سے قابو پا لیا گیا۔

پچھلے پانچ برسوں میں جمہوریت کی کامیابی کے لیے فوج کے کردار کی ستائش بھی کی جانی چاہیے، جنرل کیانی نے کمان سنبھالنے کے فوری بعد قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سیاست اور حکومت میں دخیل نہیں ہوں گے، انھوں نے یہ وعدہ ہر صورت میں نبھایا ، جب کہ ان کو انگیخت کرنے والے کم نہیں تھے اور سازگار حالات بھی پیدا ہوتے رہے مگر آفرین ہے فوجی قیادت کی اس نے آئین کا حترام ملحوظ رکھا، ایک مداخلت ہر ایک کو نظر آئی جو چیف جسٹس کی بحالی کے لیے کی گئی مگراس پرکسی نے اعتراض نہیں کیا ، الٹا اس کو بنظر تحسین دیکھا گیا۔ دعا دیجیے ہر ایک کو جس نے بھی جمہوری عمل کی پیش رفت میںمعاونت کی۔آج اگر قوم جمہوریت کی پیش رفت پر نازاں ہے تو اس کا کریڈیٹ ہر کسی کو لینے کا حق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔