آسام تا کشمیر؛ آزادی کی تحریکیں

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 2 فروری 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ٹھیک ایک ہفتہ قبل بھارت نے ’’یومِ جمہوریہ‘‘ منایا۔ وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد، میں بھی بھارتی ہائی کمیشن کے اندر ایک جشن کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں ہمارے ایک معروف گلوکار نے شبینہ محفل کو خوب رنگ لگایا۔ روپیہ تو ہر شخص کی بنیادی ضرورت ہے مگرموصوف نے یہ نہ سوچا کہ وہ جس ملک کے یومِ جمہوریہ کے جشن میں اپنی آواز کا جادو جگا رہے ہیں، اُس ملک کی فوجیں مقبوضہ کشمیر میں بیگناہوں کے خون کی ندیاں بہا رہی ہیں۔

وہاں کوئی گھر ایسا نہیں بچا جہاں سے شہدا کے جنازے نہیں اُٹھے۔اُن کشمیری خواتین کو شمار کرنا ممکن نہیں رہا جن کی عزتیں اور عفتیں بھارتی عناصر کے ہاتھوں پامال کی جا چکی ہیں۔ اُن کشمیری نوجوانوں کی تعداد بھی لاتعداد ہے جو انڈین فورسز کی پیلٹ بندوقوں سے یا تو کامل طور پر نابینا ہو چکے ہیں یا جن کی آنکھوںکا نصف نُور چھینا جا چکا ہے۔پھر یہ لوگ بھارتی ’’یومِ جمہوریہ‘‘ پر جشن منائیں تو کیونکر؟ ۔

بھارتی ’’یومِ جمہوریہ‘‘ کی حالیہ تقریبات کا کشمیریوں ہی نے بائیکاٹ نہیں کیا، بلکہ بھارت کے شمال مشرق میں بسنے والی نصف درجن سے زائد ریاستوں نے بھی مقاطع کرتے ہُوئے اسے ’’یومِ سیاہ ‘‘ کے طور پر یاد کیا ہے۔ ان ریاستوں نے بھارت کے خلاف سخت ردِ عمل کا بھی اظہار کیا ہے۔ مثال کے طور پر آسام، منی پوراور ناگا لینڈ میں علیحدگی پسندوں اور باغیوں نے بھارتی افواج کے قافلوں پر حملے کرکے کئی فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے ۔

آسام ریاست میں بھارتی افواج کے ’’آسام رائفلز‘‘ کے فوجیوں پر تازہ حملہ نے بھارتی فوج کی اعلیٰ قیادت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔مزید قتل و غارتگری سے بچنے کے لیے 26 جنوری 2018ء کو بھارتی سیکیورٹی فورسز کو انڈیا، میانمار سرحد بھی بند کر نا پڑ گئی۔ ساتھ ہی منی پور، آسام اور ناگا لینڈبھر میں انڈین فوج نے گھر گھر تلاشی کا آغاز کر دیا۔ آسام میں بروئے کار دونوں اہم اور بڑی علیحدگی پسند تنظیموں ’’این ایس سی این‘‘ (کے) اور ’’الفا‘‘ (آئی)کے لیڈروں نے تازہ حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔

آسام پولیس کے سربراہ مکیش ساہے نے بھی اپنے ایک بیان میں آسام رائفلز پر خونی حملے کی تصدیق کر دی ہے۔واضح رہے کہ آسام اور ناگا لینڈ میں جاری علیحدگی پسند تنظیموں’’نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ، کھپلانگ‘‘ اور ’’یونائٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام، انڈی پینڈنٹ‘‘ گزشتہ کئی برسوں سے بھارتی افواج پر حملے کررہی ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے آئے روز بھارتی افواج اور علیحدگی پسندوں کے درمیان خونی مسلح تصادم ہوتے رہتے ہیں۔ 26جنوری کو ہونے والے تازہ حملے کی وجہ سے آسام ریاست میں منعقدہ سالانہ میلے ’’ؒلیک آف نو ریٹرن‘‘ میں شرک ہونے والے بھی راستے ہی سے اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔

بھارت کے اِس 69ویں یومِ جمہوریہ کے موقع پر بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کی پانچ بڑی علیحدگی پسند تحریکوں کے سربراہوں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ کسی بھی شکل میں بھارتی یومِ جمہوریہ نہیں منائیں گے اور نہ ہی یومِ جمہوریہ کے حوالے سے منعقدہ کسی سرکاری تقریب میں حصہ لیں گے کیونکہ اُن کا بھارت سے بنیادی طور پر کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ بھارت کو اپنا وطن تسلیم کرتے ہیں۔

دستخطوں کے ساتھ بھارتی یومِ جمہوریہ کا بائیکاٹ کرنے والی پانچ علیحدگی پسند اور باغی تنظیموں کے نام کچھ یوں ہیں:ایچ این ایل سی، کے سی پی، کے وائی کے ایل، این ایل ایف ٹی اور پی ڈی سی کے۔ ان علیحدگی پسند تنظیموں کی اپیل پرمنی پور، ناگا لینڈ اور آسام میں26جنوری کو بھارت کے خلاف مکمل شٹر ڈاؤن رہا۔صبح پانچ بجے سے لے کر شام چھ بجے تک، تیرہ گھنٹے مسلسل زندگی کا پہیہ منجمد رہا۔ کسی قسم کا کوئی کاروبار نہ کیا جا سکا۔

اس بائیکاٹ نے ایک بار پھر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے حواس پر گہرا دباؤ ڈالا ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے، سیاسی ، فوجی اور انتظامی مشینری پچھلی کئی دہائیوں سے بھارتی علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کی ہر ممکنہ کوشش کررہے ہیں لیکن ایسی کوئی بھی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہی۔ اب تو برطانیہ میں بھی بھارت مخالف ہوا چل پڑی ہے۔

برطانیہ میں معروف سیاستدان اور برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے کشمیری نژاد رکن لارڈ نذیر احمد نے بھی بھارت کے تازہ یومِ جمہوریہ پر یوں اعلان کیا :’’ برطانیہ میں کشمیر کے ساتھ ساتھ فری ناگالینڈ، فری آسام اور فری خالصتان کی بھی مہم چلائی جائے گی ۔ ‘‘

لارڈ نذیر احمد پہلے بھی برطانیہ میں رہتے ہُوئے آزادیِ کشمیر کے لیے نمایاں خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔ بھارت اُن سے شدید ناراضی کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ گذشتہ دنوں اُن کے گھر میں چوری بھی ہُوئی ۔ شک ہے کہ بھارت نے یہ واردات کروائی ہے تاکہ لارڈ نذیر احمد کو آزادیِ کشمیر کے لیے جاری کوششوں سے باز رکھا جائے۔اُن کی تگ وتاز مگر مسلسل جاری ہیں۔

اِس بار بھی بھارتی’’یومِ جمہوریہ‘‘ کے موقع پر لارڈ نذیر احمد نے لندن میں برطانوی ہائی کمیشن کے سامنے آزادیِ کشمیر کے حق میں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف ایک زبردست ریلی نکالی۔ انھوں نے اپنے خطاب میں نریندر مودی کی مقتدر پارٹی اور ’’شدت پسند ہندوتوا‘‘ کی بھی خاصے سخت الفاظ میں مذمت کی۔ ریلی میں لارڈ قربان حسین بھی شامل تھے۔ انھوں نے بھی کشمیریوںکی جدوجہدِ آزادی کی حمائت میں طویل خطاب کرتے ہُوئے اس امر پر زور دیا کہ ’’ اقوامِ متحدہ کو مداخلت کرتے ہُوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی روکنی چاہیے۔‘‘

برطانیہ میں ’’خالصتان کونسل‘‘ کے صدر امریک سنگھ سہوتہ بھی سیکڑوں سکھوں کے ساتھ ،خالصتانی پرچموں کے سائے تلے، اِس ریلی میں موجود تھے۔ اُن کی تقریرکے دوران مسلسل ’’خالصتان زندہ باد‘‘ کے نعرے گونجتے رہے۔ یہ نعرے چونکہ بھارتی ہائی کمیشن کے عین سامنے لگائے جارہے تھے، اس لیے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ پر کیا گزرتی ہوگی۔ امریک سنگھ سہوتہ نے مشرقی پنجاب میں بھارتی مظالم کی مذمت بھی کی اور یہ عہد بھی کیا کہ خالصتان بھی بنائیں گے اور گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوجوں نے جو خونی حملہ کیا تھا، اُس  کا بدلہ لینا بھی ابھی باقی ہے۔

ایک ہفتہ پہلے لندن میں بروئے کار بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے نکالی جانے والی اِس عظیم الشان ریلی میں جہاں کشمیری اور سکھ جوش و خروش کے ساتھ شامل تھے، وہیں آسام، ناگالینڈ،منی پور، تری پورہ، میزو رام کی علیحدگی پسند قیادت بھی شریک ہو کر بھارت سے آزادی کے نعرے لگا رہی تھی۔ بھارتی ریاستوں کے علیحدگی پسند یہ قائدین برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان قائدین میں سے ایک کا نام ڈاکٹر مُکل ہزاریکا ہے۔ وہ آسام ریاست کو ہر صورت بھارت سے آزاد کرانے کی جدو جہد کررہے ہیں ۔

برطانیہ میں بیٹھ کر آسام کے اُن مسلّح کارکنوں کی نمایندگی کررہے ہیں جو آسام میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آزادی کا جھنڈا اُٹھائے ہُوئے ہیں۔ ڈاکٹر مُکل ہزاریکا نے بھی اس ریلی سے مخاطب ہوتے ہُوئے آسام ، ناگا لینڈ، منی پور ایسی بھارتی ریاستی میں بھارتی افواج اور سیکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کی کئی داستانیں سنائیں۔

ایک ہفتہ قبل لندن میں بھارتی ’’یومِ جمہوریہ‘‘ کے خلاف نکالی جانے والی اس ریلی(جس میں کشمیر، خالصتان، ناگا لینڈ، منی پور، آسام وغیرہ کو آزاد کرانے کے نعرے بازگشت پیدا کرتے رہے)میں پہلی بار دو انوکھے اور حیرت خیز مناظر ظہور میں آئے ہیں: ایک تو یہ کہ اُس روز لندن میں ٹیکسیوں، بسوںاور دیگر عوامی ٹرانسپورٹ پر چسپاں ’’فری کشمیر، فری خالصتان، فری آسام، فری ناگالینڈ، فری منی پور‘‘ کے اشتہار گردش کرتے رہے۔ دوسرا یہ کہ بھارتی حکومت نے پہلی بار لندن میں بھارتی حکومت اور بھارتی افواج کے خلاف نعرہ زَن کشمیریوں، سکھوں ، آسامیوں وغیرہ کو کاؤنٹر کرنے کے لیے بھارتی حکومت کی سرپرستی میں اُن ہندو جتھوں کو سامنے لایا گیا جو بھارت کے حق میں اور کشمیریوں و سکھوں کے خلاف سخت زبان استعمال کررہے تھے۔ پھر وہی ہُوا جو ایسے مواقع پر بالعموم ہُوا کرتا ہے۔ بھارت مخالف کشمیریوں اور سکھوں کا ،بھارت کے حق میں نعرے لگانے والوں کے ساتھ تصادم ہو گیا۔ ایک دوسرے کے گریبان چاک کر دیے گئے۔ دشنام کا آزادانہ استعمال ہُوا۔اور اس سے پہلے کہ یہ تصادم خونی شکل اختیار کر جاتا، لندنی انتظامیہ نے اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کو بلوا لیا۔ اور یوں وقتی طور پر معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ سکھوں اور کشمیریوں نے مگر بھارتی حکومت اور برطانیہ میں بھارتی ہائی کمیشن کے اس اقدام کی نہائت سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 5فروری2018ء کو’’ یومِ یکجہتی کشمیر‘‘ کے موقع پر لندن میں کیا منظر بن سکتا ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔