توبہ کی فضیلت

 جمعـء 2 فروری 2018
توبہ کرنا واجب ہے، کیوں کہ قرآن مجید میں ہے، ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے۔
 فوٹو : فائل

توبہ کرنا واجب ہے، کیوں کہ قرآن مجید میں ہے، ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے۔ فوٹو : فائل

توبہ کے معنی گناہوں سے اطاعت کی طرف، غفلت سے حضوری کی طرف رجوع کرنے کے ہیں۔ توبہ کرنے سے اللہ تعالی بندے کے گناہ اس طرح ڈھانپ دیتا ہے کہ کسی کو علم نہیں ہونے دیتا اور آخرت میں اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کرتا ہے۔

سیدالطائفہ حضرت جنید بغدادی ؒ سے کسی نے پوچھا کہ توبہ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا : ’’گناہوں کو فراموش کردینا اور گناہ کی لذت کا احساس بھی ختم ہوجانا، گویا کہ وہ جانتا ہی نہیں کہ گناہ کیا چیز ہے۔‘‘

توبہ کرنا واجب ہے، کیوں کہ قرآن مجید میں ہے، ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے۔

تو بہ کے صحیح ہونے کی شرائط چار ہیں۔

٭ محض خدا کی رضا کے لیے توبہ کرے۔ جس میں مخلوق کا خوف شامل ہو، نہ لوگوں کی مدح کا حصول ہو۔

٭ گناہوں پر ندامت ہو۔

٭ ظاہری و باطنی گناہوں سے اجتناب کرے۔

٭ پختہ عہد اور عزم کرے کہ آئندہ کوئی گناہ نہ ہو اور ندامت کے ساتھ اللہ سے مغفرت طلب کرے۔

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’ اللہ اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا ہے رات میں، کہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن میں ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کرے، یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔‘‘ (بہ حوالہ: مظاہرِ حق)

اس سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالی منتظر ہوتے ہیں کہ بندے مجھ سے معافی مانگیں، توبہ کریں اور میں ان کی توبہ قبول کروں۔ منقول ہے کہ حضرت سفیان ثوریؒ بیمار ہوگئے، حماد بن سلمہ ؒ ان کی عیادت کو تشریف لے گئے تو حمادؒ سے سفیان ؒ نے کہا: تمہارا کیا گمان ہے کہ اللہ مجھ جیسے کو بخش دے گا ۔۔۔ ؟ تو حمادؒ نے کہا: ’’ اگر مجھے اس بات کا اختیار دیا جائے کہ تُو حساب کے لیے اپنے باپ کے پاس چلا جا، یا خدا کے پاس، تو میں اللہ کے سامنے پیش ہونے کو ترجیح دوں گا۔‘‘ مقصد یہ تھا کہ آپ اللہ سے بخشش کی امید رکھیں۔ کیوں کہ وہ ارحم الرٰحمین ہے، اس لیے توبہ کرتے وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں توبہ پر قائم رہ سکوں گا یا نہیں، تو توبہ کیسے کروں؟ بل کہ اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو پھر توبہ کریں اور یہ بھی خیال کریں کہ اگر اس توبہ کرنے کے بعد میری موت آجائے تو یہ توبہ میری آخری توبہ ثابت ہو۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا، مفہوم:  ’’ بے شک اللہ تعالی توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’ میں دن میں ستّر بار سے زیادہ اللہ تعالی سے استغفار کرتا ہوں۔‘‘ (بخاری)

اس حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کیا کرتے تھے، حالاں کہ وہ گناہوں سے منزّہ، محفوظ اور معصوم تھے۔ اگر وہ بھی کثرت سے توبہ کرتے تھے تو ہمیں بھی اللہ تعالی سے کثرت سے استغفار طلب کرنی چاہیے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا ’’روئے زمین پر عذاب الہی سے امن کی دو پناہ گاہیں تھیں، ایک اٹھ گئی ہے اور ایک باقی ہے، جو اٹھ گئی ہے وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات تھی اور جو باقی ہے وہ توبہ ہے۔‘‘

قرآن کریم میں ہے، مفہوم: ’’ اللہ تعالی اس وقت تک عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں جب تک آپؐ ان میں موجود ہوں اور ان کو عذاب میں اس وقت تک مبتلا کرنے والا نہیں جب تک وہ استغفار کرتے رہیں۔‘‘حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدر ت میں میری جان ہے، اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ تعالی تمہیں اٹھا لے اور تمہاری جگہ ایسے لوگوں کو پیدا کردے جو گناہ کریں اور اللہ سے بخشش و مغفرت چاہیں اور اللہ انہیں معاف کردے۔‘‘ (مسلم)

اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ذات بے پناہ بخشش کرنے والی ہے، اس لیے توبہ کرنے میں کوتاہی نہ کرنی چاہیے۔ خدا نہ خواستہ اس حدیث مبارکہ کا مطلب گناہ کی ترغیب دلانا نہیں کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد لوگوں کو معصیت سے ہٹا کر اللہ کی طرف لانا ہے۔ ان تمام روایات سے پتا چلتا ہے کہ انسان اگر عاجزی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے تو اللہ معاف فرما دیں گے۔

اُمّ زبیر فاروقی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔