مٹی کے سوداگر

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 3 فروری 2018

عظیم البرٹ ہبرڈ کی اس عاقلانہ نصیحت کو درج کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا، اگر عام انسان اس نصیحت پر عمل کرے تو اس کی زندگی ہمیشہ خوشحالی میں بسر ہوسکتی ہے ۔ ’’ جب آ پ گھر سے نکلیں تو سر اونچا کرکے اور سینہ تان کرچلیں احباب سے مسکرا کر ملیں اور بڑے تپاک سے مصافحہ کریں اس بات سے خوفزدہ نہ ہوں کہ لوگوں نے آپ کو غلط سمجھا ہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمنوں کا خیال ذہن میں نہ لائیں۔

پہلے ذہن میں منزل کا تعین کرلیں پھر ادھر ادھر دیکھے بغیر اس طرف گامزن ہوجائیں ۔ اچھے اچھے کام کرنے کے متعلق سوچیں پھر آپ دیکھیں گے کہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ لاشعوری طور پر وہ کام کرنے کے مواقعے مہیا ہوتے رہیں گے ۔ جس قسم کا نیک اور صالح انسان آپ بننا چاہتے ہیں اس کی تصویرذہن میں لائیں اور اس تصویر پر ہر روز غور کرنے سے آپ کی شخصیت اس قسم کی ہوتی چلی جائے گی۔

خیالات بڑی عظیم طاقت ہیں ۔ ایک صحیح ذہنی نظریے پر عمل پیرا رہیں ایسا نظریہ جو جرأت ، اعتماد اور خوش خصالی پر مبنی ہو۔ صحیح سوچ ایک تخلیق سے کم نہیں ۔ پر خلوص خواہش سے آپ سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں ۔ دل سے نکلی ہوئی دعا اثر ضرور دکھاتی ہے جو کچھ ہمارے دل میں ہو ہم اس قسم کے بن جاتے ہیں سر اونچا کرکے چلیں ۔ ہم مجازی دیوتا ہیں۔‘‘

دنیا بھرکے تمام کامیاب اور خوشحال لوگوں نے اس نصیحت پر عمل پیرا ہوکر کامیابیاں اور خوشحالی حاصل کی ہیں اورکر رہے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں کہ جس پر چل کر آپ کامیاب اور خوشحال انسان بن سکتے ہیں ۔ اس راستے کے علاوہ باقی راستوں پر چلنے والے دوسروں کو کامیاب اور خوشحال ہوتا دیکھ کر زندگی بھر کڑھتے رہتے ہیں آپ کوکامیاب اور خوشحال صرف آپ ہی بنا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں کوئی دوسرا آپ کی مدد کر ہی نہیں سکتا ہے۔

یاد رکھیں سب سے بڑا انتقام خودکو عظیم کامیابی سے دو چارکرنا ہوتا ہے اور سب سے بڑی بے وقوفی خودکو ناکامی سے دوچارکرنا ہوتی ہے اور بے وقوفوں کی دنیا میں کمی نہیں ہے اور ہم نے تو خود کو سالہا سال سے بے وقوفوں کی فہرست میں نمبر ون پر برقرار رکھا ہوا ہے۔

اصل میں ہمیں کامیابی ، ترقی اورخوشحالی سے چڑ ہے انھیں دیکھ کر ہماری آنکھوں میں خون اتر آتا ہے اور ہم خود کو قابو میں نہیں رکھ پاتے ہیں۔ ہمیں بدحالی ، برباد ی میں ہی چین ملتا ہے، سکون ملتا ہے اگر یہ سچ نہ ہوتا توکیا ہم اس طرح سے جی رہے ہوتے اس طرح مارے مارے پھررہے ہوتے اس طرح سے ذلیل و رسوا ہو رہے ہوتے اس طرح ہر تھوڑے دنوں بعد کسی نہ کسی زینب کا ماتم کررہے ہوتے۔

ملک کے وسائل جس کے اصل مالک ہم خود ہیں کوئی اور اس طرح ان سے لطف اندوز ہورہے ہوتے۔ ہمارے حقوق کو ہمارے بجائے کیا کوئی اور اسے اس طرح انجوائے کررہے ہوتے۔ اب آپ ہی بتائیں کیا یہ سب جھوٹ ہے کیا یہ سب ہمارے سامنے نہیں ہورہاہے ۔ کیا اس سب کے ذمے دار ہم خو د نہیں ہیں، ایک شخص مشہور فرانسیسی فلسفی بلیز پاسکل سے ملا اور اس سے کہنے لگا ’’اگر میرے پاس آپ جیسی ذہانت ہوتی تو میں ایک بہتر انسان ہوتا ‘‘ پاسکل نے اس کے جواب میں کہا ’’ تم بہتر انسان بنو میری جیسی ذہانت پالوگے ۔

’’کیلگری ٹاور 19008 میٹر اونچا ہے اس کا کل وزن 10884 ٹن ہے جس میں سے6349 ٹن یعنی (تقریبا60فیصد) زمین کے نیچے ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عظیم ترین عمارتوں کی بنیادیں مضبوط ترین ہوتی ہے جس طرح کوئی عظیم عمارت مضبوط بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ اسی طرح کامیابی خوشحالی، ترقی بھی مضبوط بنیاد پراستوار ہوتی ہیں اورکامیابی، خوشحالی ، ترقی کی اصل بنیاد رحجان ہے۔

ہم محض بازو اور ٹانگیں،آنکھیں اور کان ، دل اور دماغ نہیں ہوتے ہیں بلکہ ایک مکمل انسان ہوتے ہیں اور پورا انسان کام پر جاتا ہے اور پورا انسان گھر واپس آتا ہے کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بعض افراد، ادارے اور ملک دوسروں سے زیادہ کامیاب کیوں ہوتے ہیں ؟

یہ کوئی رازکی بات نہیں ہے وہ اس لیے کامیاب ہیں کیونکہ وہ زیادہ موثر انداز میں سوچتے ہیں اورعمل کرتے ہیں دنیا بھر کی بڑی بڑی کارپوریشنوں کے ایگزیکٹیو سے سوال پوچھا گیا ’’اگر آپ کے پاس جادوکی چھڑی ہوتی اور اس سے آپ کسی ایک چیز کو تبدیل کرسکتے جو آپ کو بازار میں نمایاں برتری دلوادیتی ،پیداوار میں اضافہ کرواتی اور منافعوں کو بڑھا دیتی تووہ چیز کون سی ہوتی ؟

ان سب کا جواب ایک جیسا تھا انھوں نے کہا کہ وہ اپنے لوگوں کے رحجانات بدلتے ۔ بہتر رحجانات والے لوگ بہتر رزلٹ دیتے ہیں اس سے اندازہ ہوا کہ افرادی وسائل کاروبار کاسب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ لوگ سرمائے اور آلات پیداوار سے زیادہ قدروقیمت رکھتے ہیں، اس لیے آپ خود اپنا سب سے زیادہ اثاثہ بھی ہوسکتے ہیں اور اپنے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ بھی ہوسکتے ہیں۔

یاد رکھیں انسان کو اپنے اندر وہ ہی کچھ ملتا ہے جو وہ ڈھونڈتے ہیں سونا یا مٹی ۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کس طرف توجہ دیتے ہیں سونا ڈھونڈنے کی طرف یا مٹی کی طرف ۔ روبرٹ فلٹن نے بھاپ سے چلنے والی کشتی ایجاد کی تھی اس نے اپنی نئی ایجاد کا مظاہر ہ دریائے ہڈسن میں کیا تماشائیوں میں بعض قنوطیت پسند اور تشکیب پسند لوگ بھی تھے انھوں نے کہا کشتی نہیں چلے گی۔ تاہم جب کشتی دریامیں تیرنے لگی تو انھوں نے شور مچادیا کہ یہ چل تو گئی ہے لیکن رک نہیں سکے گی۔

اصل میں ہماری اکثریت قنوطیت اور تشکیب پسندوں میں تبدیل ہوکے رہ گئی ہے نہ خود کچھ کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو کچھ کرنے دینا پسند کرتے ہیں۔ اصل میں وہ سب کے سب مٹی کے سوداگر ہوگئے ہیں روز اپنے اندر سے ٹنوں مٹی کھود کھود کر باہر نکالتے ہیں اور رات کو جی بھر کرسوتے ہیں اور دن رات کامیاب، خوشحال لوگوں کو برابھلا کہتے رہتے ہیں یہ ہمار اقومی مشغلہ بن کے رہ گیا ہے اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ہم تبدیل ہونا کفرکے زمرے میں لاتے ہیں اس لیے ہمیں جتنا چاہو سمجھا لو ہم تبدیل ہونے والے نہیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔