پولیس کی بھاری نفری کے باوجود 2016ء کی نسبت 2017ء میں جرائم کی شرح بڑھ گئی

صالح مغل  اتوار 4 فروری 2018
پولیس ریکارڈ کے اعداد شمار میں وہی واقعات سامنے آئے جو رپورٹ ہوئے۔ فوٹو : فائل

پولیس ریکارڈ کے اعداد شمار میں وہی واقعات سامنے آئے جو رپورٹ ہوئے۔ فوٹو : فائل

راولپنڈی: خیر و شر کی جنگ روز اول سے جاری ہے، لیکن شر کے خاتمے کی پہلی اور بھاری ذمہ داری پولیس کی ہے۔ طرفہ تماشا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پولیس نفری، تھانوں اور استعداد کار میں اضافہ کیے جانے کے باوجود جرائم کی شرح میں ہر آنے والا دن اضافے کی خبر لاتا ہے۔

آج محکمہ پولیس جدید آلات، ٹرانسپورٹ، کمیونیکشن اور اسلحہ وغیرہ سے لیس ہے، لیکن جرائم ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔ تھانوں میں نفری کے علاوہ جرائم کی بیخ کنی کے لیے انتہائی تربیت یافتہ پولیس کمانڈوز، کوئک رسپانس فورسز، ایلیٹ فورس، ڈولفن فورس، سی آئی ڈی، ایس پی یو اور سکیورٹی ڈویژن جیسے تربیت یافتہ یونٹ بھی موجود ہیں، لیکن جرائم کی شرح بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

ڈکیتی ، راہزنی اور اغواء کی وارداتیں تو معمول بنتی جا رہی ہیں۔ راولپنڈی میں جرائم کے حوالے سے 2017 ء کا 2016 ء میں ہونے والے جرائم سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو اعدادو شمار کے مطابق دونوں سالوں کے دوران مجموعی طور پر درج ہونے والے مقدمات کی تعداد اٹھارہ ہزار سے زائد رہی۔ مختلف تنازعات پر 2017ء کے دوران قتل کے 234  مقدمات درج کیے گئے جبکہ 2016  کے دوران ان کی تعداد 225  تھی یوں گذشتہ سال کے مقابلے میں قتل کے 9 مقدمات زیادہ درج ہوئے۔

اسی طرح 2017 میں ڈکیتی و رہزنی کے دوران قتل کے 12 واقعات ہوئے جبکہ 2016 کے دوران ان کی تعداد 14 تھی، یوں گذشتہ سال ایسے دو واقعات کم رپورٹ ہوئے۔2017 ء میں اقدام قتل کے 354 مقدمات کے مقابلے میں2016ء میں یہ تعداد318  رہی، یوں گزرے سال کے دوران اقدام قتل کے 36 واقعات زیادہ رپورٹ ہوئے۔

2017ء کے دوران اغواء برائے تاوان میں واضح کمی دیکھی گئی اور صرف ایک مقدمہ درج ہوا جبکہ اس کے مقابلے میں 2016ء میں ایسے مقدمات کی تعداد 6 تھی۔ خواتین کے اغواء کے 2017 میں443  واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2016 میں ان کی تعداد 401  تھی، یوں 2017ء میں خواتین کے اغواء کے 42 واقعات زیادہ رپورٹ ہوئے، اسی طرح 2017ء میں زنا بالجبر کے 62 مقدمات درج ہوئے، جو 2016ء میں 54  تھے، جبکہ گینگ ریپ کے واقعات میں 2017 کے دوران کمی دیکھی گئی اور 2016 کے دوران درج 9 مقدمات کے مقابلے میں گزرے سال کے دوران گینگ ریپ کے صرف 3  مقدمات درج کیے گئے۔

کار سرکار میں مزاحمت کے سنتالیس کے مقابلے میں اکتالیس مقدمات درج ہوئے، 2016ء میں مہلک حادثات کے 153 واقعات ہوئے جبکہ 2017ء میں یہ تعداد149رہی۔ 2017 کے دوران ڈکیتی کی وارداتوں کے تحت درج مقدمات کی تعداد 20  رہی جبکہ 2016  کے دوران ان کی تعداد 31 تھی، یوں اعداد و شمار کے مطابق ڈکیتی کے گیارہ مقدمات کی کمی دیکھی گئی۔

بنک ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی گزرے سال کے دوران کمی دیکھی گئی اور صرف ایک واردات ہوئی جبکہ 2016 کے دوران ان کی تعداد پانچ تھی۔ 2017  کے دوران موٹر سائیکل چھیننے کے68  واقعات ہوئے جبکہ 2016 کے دوران ان کی تعداد 55  تھی، یوں گزرے سال کے دوران موٹر سائیکل چھیننے کے 13  واقعات زیادہ ہوئے۔

2016ء میں نقب زنی کی 437 کے مقابلے میں 2017ء میں 450 واداتیں رپورٹ ہوئیں جو ماضی کے مقابلے میں 13 زیادہ ہیں۔ کار چوری کی 2017  میں600  سے زائد وارداتیں ہوئیں جبکہ 2016  میں ان کی تعداد551  تھی یوں گزرے سال کے دوران 49 کاریں زیادہ چوری ہوئیں۔ موٹر سائیکل چوری کی 497  کے مقابلے میں 589  واردتیں رپورٹ ہوئیں، جو 2017  میں 92  زیادہ ہیں، دیگر وہیکل چوری کی وارداتو ں کی تعداد 143 کے مقابلے میں127  رہی۔

سال بھر کے دوران راولپنڈی پولیس کی جانب سے ناجائز اسلحہ ایکٹ کے تحت 2678  مقدمات درج کیے گئے جبکہ 2016  کے دوران ان کی تعداد 1225  تھی، یوں225  مقدمات زائد درج کیے گئے، اسی طرح منشیات ایکٹ کے تحت گزرے سال کے دوران 2678  مقدمات درج ہوئے جو ماضی کے مقابلے میں 275  زیادہ ہیں۔

راولپنڈی پولیس نے 2017کے دوران کیٹگری اے کے 602 اشتہاری ملزمان کو گرفتار کیا جبکہ سال 2016 کے دوران ان کی تعداد 665  تھی یوں گزرے سال کے دوران 63  ملزمان کم گرفتار ہوئے، اسی طرح کیٹگری بی کے تحت 2402  کے مقابلے میں 2550  ملزمان کو گرفتار کیا گیا جو گزرے سال کے دوران 148 زیادہ ہیں۔

پولیس ریکارڈ کے اعداد شمار میں وہی واقعات سامنے آئے جو رپورٹ ہوئے، اس کے علاوہ آئے روز وقوع پذیر ہونے والے متعدد ایسے واقعات بھی ہیں، جو رپورٹ نہیں ہو پاتے۔ درج ہونے والے مقدمات کو ٹریس کرنے کے لیے پولیس بظاہر سرگرم تو رہتی ہے تاہم گزرے سال یعنی2017 ء کے دوران وقوع پذیر ہونے والے سنگین واقعات، جن میں 2017کے دوران تھانہ صادق آباد کے علاقے میں نجی کمپنی کے پانچ سینڑی ورکرز کو ٹارگٹ کلینگ کا نشانہ بنایا جانا اور انتہائی اہم نوعیت کے میگا پراجیکٹ سے غیرملکی انجینئرز کی پراسرار گمشدگی جس کے اغواء کا باقاعدہ مقدمہ بھی تھانہ کہوٹہ میں درج کرلیاگیا ہے کی تفتیش میں کاونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر اداروں کی معا ونت کے باوجود پیش رفت نہ ہونا راولپنڈی پولیس کے ارباب اختیار سمیت آئی جی پنجاب اور خود پنجاب حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

یقیناً راولپنڈی پولیس کی کمان ریجنل پولیس آفیسر راولپنڈی وصال فخر سلطان راجہ اور سی پی راولپنڈی اسرار عباسی جیسے گھاگ افسران کے سپرد ہے، جو نہ صرف راولپنڈی بلکہ دیگر اضلاع میں پولیسنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر جرائم کی بیخ کنی کے لیے کوششوںکے ساتھ ساتھ ملکی وقار کو یقینی بنانے کے لیے ان دونوں کیسز کو بھی ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔