دامادی سیاست

عبدالقادر حسن  منگل 6 فروری 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اس میں خاص طور پر کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہم نے از خود فیصلے کررکھے ہیں کہ ان کا احترام ہم پر واجب ہے اور ان کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات نہیں کرنی جس سے ان رشتوں سے منسلک کسی فریق کی دل آزاری ہو ۔ اپنے ان فیصلوں پر ہم سختی سے کاربند بھی رہتے ہیں تا آنکہ کوئی ایسی صورتحال نہ بن جائے کہ ان نازک اور قابل احترام رشتوں کے بارے میں گفتگو کرنی پڑ جائے اور یہ صورتحال اگر خوشگوار ہو تو بات کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے کچھ ایسی ہی خوشگوار اور پُر لطف بات سابق وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر اعوان نے کہی ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’آصف زرداری اور میں کچھ بھی کر لیں ، رہنا ہم نے داماد ہی ہے‘‘۔

کیپٹن صفدر نے یہ بیان کس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے داغا ہے اس کے پس منظر کے بارے میں وہی زیادہ بہتر جانتے ہیں یہ بات انھوں نے قائمہ کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوران کہی ہے انھوں نے اجلاس کے دوران اپنی جان کو لاحق خطرات کا بھی ذکر کیا اور کسی نقصان کی صورت میں جے آئی ٹی کے ارکان پر مقدمہ کا کہا ہے۔

کمیٹی کی ایک رکن محترمہ شگفتہ جمانی نے کہا کہ آ پ کی حکومت ہے آپ کو کس بات کا خطرہ ہے اور کیا آپ بھی آصف علی رزداری کی طرح پارٹی سربراہ بننا چاہتے ہیں جس کا جواب تو کیپٹن صفدر نے نہیں دیا یا پھر اس کو رپورٹ نہیں کیا گیا لیکن اس کے بارے میں کوئی وضاحت بھی نظر سے نہیں گزری جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ صرف بطور داماد اپنی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں انھوں نے اپنے اس رشتے کی وجہ سے قربانیاں بھی دی ہیں وہ اپنے سسرالی خاندان کے ساتھ جلاوطن بھی رہے اور اس جلا وطنی میں ایک قلیل مشاہرے پر گزارہ کرتے رہے ہیںوہ اب جس طرح اپنے سسر کا دفاع کر رہے ہیں وہ بھی ایک مثال ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں۔

ویسے ہم اعوانوں میں تو داماد کی عزت بھی دوسری قوموں کی طرح ہی کی جاتی ہے اور کوئی ناپسندیدہ بات نہیں کی جاتی جو کہ داماد صاحب کو گراں گزرے ۔ دوسرا ذکر کیپٹن صفدر نے جناب آصف علی زرداری کے بارے میں کیا ہے جو کہ ذوالفقار علی بھٹو کے داماد ہیں اور ایک حادثے کی صورت میں پاکستانی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے اور نمودار کیا ہوئے ہر ایک کو اپنی سیاسی فہم و فراست سے اپنا گرویدہ بنا لیا گو کہ وہ اپنی اہلیہ محترمہ بینظیر شہید کی طرح سیاست میں وہ مقبولیت نہیں پا سکے جو ان کے سسرالی خاندان کے حصے میں آئی لیکن انھوں نے اپنے وقت کے بڑے بڑے سیاستدانوں اور ڈکٹیٹر کو ناکوں چنے چبوا دیے اور پارٹی کی حکومت اور اپنی صدارت کی مدت پوری کر کے ہی اپنے منصب سے علیحدہ ہوئے۔

انھوں نے اپنی بد ترین سیاسی مخالف جماعت نواز لیگ کو اپنی حکومت میں وزارتیں دے کر اپنا شریک بنا لیا بعد میں نواز لیگ کی عقل پر پڑا پردہ چاک ہوا تو وہ حکومت میں شراکت سے علیحدہ ہو گئے۔ جناب زرداری کے بارے میں یہ کہا جاسکتاہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے داماد ثابت ہوئے اور انھوں نے بھٹو کی وراثت کے لیے اپنے ناموں کے سابقے لاحقے تک تبدیل کر لیے۔اب یہ بات کیپٹن صفدر نے واضح نہیں کی کہ آصف زرداری کا اور ان کا بطور داماد کیا جوڑ ہے ۔مجھے تو دونوں میں ایک ہی بات مشترک نظر آتی ہے کہ دونوں صاحبان ملک کی دو بڑی پارٹیوں کے سربراہان کے داماد کے عہدے پر فائز ہیں دونوں کا رہن سہن الگ ہے البتہ اعوانوںمیں گھر داماد کے بارے میںبہت سی ضرب المثل مشہور ہیں۔

سیاست کے میدان کارزار میں میرے چند بھتیجے ہیں جو کہ اپنی سیاست کو بزور زبان جاری رکھے ہوئے ہیں انھوں نے اپنے بزرگوں کی سیاست کو آگے بڑھایا ہے جیسے بھی بڑھایا ہے اس کے بارے میں بہتر تبصرہ وہی کر سکتے ہیں لیکن سیاست انھوں نے جاری رکھی ہوئی ہے ان میں سے ایک عزیز دانیال عزیز بھی ہیں جو میرے محترم بھائی چوہدری انور عزیز کے بیٹے ہیں اور ناروال سے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں چوہدری انور عزیز اور ان کے بیٹے کی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے ’اولاد اور مال اس دنیا فتنہ ہیں‘ اکثر اوقات والدین اولاد کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں ۔

میرے ایک دوسرے بھتیجے چوہدری فواد حسین ہیں جو کہ میرے بھائی مرحوم چوہدری الطا ف حسین کے بھتیجے ہیں اس نسبت سے وہ میرے کامیاب بھتیجوں میں شامل ہیں اور انھوں نے اپنے آپ کو ایک کامیاب سیاستدان ثابت کیا ہے انھوں نے نہایت قلیل وقت میں ایک کامیاب وکیل سے ایک کامیاب سیاستدان کا سفر طے کیا ہے اور اس وقت ایک بڑی جماعت کی ترجمانی کا فرض ادا بھی ادا کر رہے ہیں ان کی سیاست کے بارے میں آپ لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن وہ جس  کے ساتھ بھی رہے اس کے ساتھ ایمانداری سے ڈٹے رہے باقی سیاست میں سب کچھ چلتا ہے کہ سیاست اسی کا نام ہے اور سیاست دان پارٹیاں بدلنے کو سیاست کا حسن کہتے ہیں اور یہ حسن ہماری سیاست میںکچھ زیادہ ہی نظر آتا ہے۔

بھتیجوں کے ذکر سے یاد آیا کہ ایک دفعہ نواب کالاباغ کے دور حکومت ایک اہم حکومتی معاملہ پر ایک سیاستدان کی مدد درکار تھی جس سے وہ انکاری ہو گئے کسی درباری نے نواب صاحب کو مشورہ دیا کہ اس کا بیٹا فلاں محکمہ میں ملازم ہے اس کو ذرا جھٹکا دے دیتے ہیں نواب صاحب نے فوراً غصہ سے مذکورہ افسر کو دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ تو میرا بھتیجا ہے اس کے باپ سے میرے سیاسی معاملات ہیں ان کو سیاسی طور پر ہی حل کیا جائے گا۔یہ بڑے لوگ تھے ان میں وضع داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی سخت گیر حکمرانی کے ساتھ ساتھ نوابی شان پر بھی کبھی آنچ نہیں آنے دی۔

بہر حال یہ کہا جا سکتا ہے کہ فی الوقت سیاست میں داماد بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں دیکھتے ہیں وہ اپنی سسرال کے لیے کتنے سود مند ثابت ہوتے ہیںیا پھر صرف دامادی کے عہدے پر ہی فائز رہنے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔اپنی اپنی قسمت……

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔