’’مشینی گلوکار‘‘ مثبت روایات کی تباہی کے ذمہ دار

قیصر افتخار  منگل 6 فروری 2018
ہم اگراس خطے میں موسیقی کے ماضی کی بات کریں تووہ انتہائی شانداراورجاندار تھا۔ فوٹو: فائل

ہم اگراس خطے میں موسیقی کے ماضی کی بات کریں تووہ انتہائی شانداراورجاندار تھا۔ فوٹو: فائل

ایک دورتھا جب موسیقی کے شعبے کی جانب آنے کا خیال صرف انہی لوگوں کے دل ودماغ میں آتا تھا جن کا تعلق موسیقی کے گھرانوں سے ہوتا یا پھروہ مستند اساتذہ کے زیر تعلیم ہوتے۔

پاکستان ہویا بھارت، ان گنت عظیم گلوکارموجود تھے، جو گیت، غزل ، ٹھمری، فوک، صوفی اورقوالی کے ساتھ ساتھ پاپ میوزک میں اپنا منفرد مقام رکھتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ ان کی ریاضت اوراس فن سے عشق تھا۔ مگر اب توصورتحال میں ’’انقلابی‘‘ تبدیلی آچکی ہے۔ جب سے جدید ٹیکنالوجی نے اس شعبے میں قدم رکھا ہے، تب سے میوزک کی دنیا میں ایسے بہت سے لوگ سامنے آچکے ہیںِ ، جن کو مشینی گلوکار کہیں توغلط نہ ہوگا۔

ایک طرف توان کی اکثریت نے موسیقی کی کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی ہوئی لیکن ان کی دولت نے ان کی اس سب سے بڑی کمی کوایسا پورا کیا ہوا ہے کہ اب ہرجگہ ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ حالانکہ ٹی وی چینلز، ریڈیو اوردیگر ذرائع سے ہمیشہ شہنشاہ غزل مہدی حسن، محمد رفیع، ملکہ ترنم نورجہاں، کشور کمار، فریدہ خانم، استاد نصرت فتح علی خاں، لتامنگیشکر، آشا بھوسلے اوردیگرکے گیت سننے کوترجیح دی جاتی تھی۔ لیکن اب توٹی وی دیکھ لیں یا ریڈیوسنیں آپ کوایسے عجیب وغریب انداز کے سنگرسننے اوردیکھنے کوملیں گے کہ ان کی آواز اوراندازہمیں یہ سوچنے پرضرور مجبورکرے گا کہ اب میوزک کا جنازہ نکلنے والا ہے۔

بلاشبہ موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے لیکن اب یہ روح کی غذا نہیں رہی بلکہ ایک وباء کی شکل اختیارکرچکی ہے۔ پہلے ممی ڈیڈی گلوکاروں نے پاپ میوزک کی جگہ ریپ کومتعارف کروایا اوراب اس کوبھی اپنی ذہانت سے کچھ ایسا بگاڑ دیا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ اس میوزک کوکون سا نیا نام دیا جائے۔ کیونکہ کوک سٹوڈیو نامی ایک شونے توعظیم غزل گائیکوں کی گائی ہوئی مقبول ترین غزلوں کوبے سرے اوربے تالے گلوکاروں کے حوالے کرکے ایسے معرکے انجام دیئے ہیں کہ تاریخ میں ان کا نام ’’سنہرے ‘‘ حروف سے لکھا جائے گا۔

بقیہ کسرسوشل میڈیا پوری کررہا ہے۔ جس کی بدولت ہمیں آئے دن میوزک میں بگاڑ کے ساتھ متعارف ہونے والے ان گنت سنگرسننے کوملتے ہیں۔ ان کی گائیکی سن کریوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے موسیقی کے سچے 7سُروں کا بائیکاٹ کیا ہے اوراب کچھ نئے سُروں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ کر بس روح کوبھوکا رکھنے کا  راگ آلاپ رہے ہوں۔ یہ لوگ تواتنی زحمت بھی نہیں کرتے کہ کسی سے پوچھ لیں یا اس کوسیکھ لیں۔

حالانکہ ایک دورتھا جب آڈیوریکارڈنگ سٹوڈیوزمیں ملکہ ترنم نورجہاں، مہدی حسن، غلام علی، عابدہ پروین، استاد نصرت فتح علی خاں، غلام علی، فریدہ خانم، ریشماں، عالمگیر، نازیہ حسن ، اے نیئراورمہناز سمیت بہت سے گلوکارجب ریکارڈنگ کیلئے پہنچتے تویہ لوگ جہاں موسیقی پرپورا عبوررکھتے تھے، وہیں ان کا ادب وآداب بھی دکھائی دیتا تھا۔ اس کے ساتھ معروف موسیقار، سازندے ، شاعر اوراس شعبے کے مستند اساتذہ ریکارڈنگ سٹوڈیوز میں دکھائی دیتے لیکن اب توایک عرصہ ہوا ہے کہ ایسی محفلیں اُجڑ چکی ہیں۔

جہاں ملک بھرمیں آڈیوریکارڈنگ سٹوڈیوز ویران ہوچکے ہیں، وہیں پیسے کے بل پربہت سے گلوکاروں نے اپنے گھروںمیں ہی ریکارڈنگ سٹوڈیو قائم کرلئے ہیں۔ جہاں تک بات سازندوں کی ہے تو ایک کی بورڈ نے سازندوں کی چھٹی کرا دی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کیونکہ موسیقی جیسے شعبے کے ساتھ ایسا سلوک ہوگا اس بارے میں کبھی کسی نے سوچا نہ ہوگا۔ مگراب توحالات کچھ ایسے ہوتے جارہے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے انتہائی بے سرے اوربے تالے گلوکاروںکو ’’سُر‘‘ میں کیا جانے لگا ہے۔ اس سلسلہ میں بھاری رقوم حاصل کی جارہی ہیں لیکن یہ وہ المیہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں موسیقی کا شعبہ شدید بحران میں جاتا دکھائی دیتا ہے۔

اس سلسلہ میں 40برس سے بطورآڈیو ریکارڈسٹ کام کرنے والے سینئرساؤنڈ انجینئر فاروق راؤ نے ’’ایکسپریس‘‘ کوبتایا کہ اس وقت ہمارے ملک میں موسیقی کا سب سے بڑا پلیٹ فارم کوک سٹوڈیوز کومانا جاتا ہے۔ لیکن جس طرح سے وہاں پر 6 ماہ گلوکاروں کوٹیون کرنے اور3ماہ ریکارڈ کرنے میں لگائے جاتے ہیں، اس سے بدترین مثال شاید ہی کوئی دوسری ہوگی۔ ایک دور تھا جب پاکستان میں  18فلم سٹوڈیو ہوا کرتے تھے ، جہاں پردن رات عظیم گلوکار، موسیقار، شاعر، فلمساز، ہدایتکار، فنکاراورسازندے کام کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ایک گیت کوسچے سروں سے سجانے کیلئے باقاعدہ ریہرسلز کی جاتی تھیں لیکن اب توایک رات میں البم ریکارڈ کرلیا جاتا ہے۔

یہ سب کمال جدید ٹیکنالوجی کا ہے۔ یہ تواچھی بات ہے کہ اس شعبے میں جدید ٹیکنالوجی متعارف ہوئی ہے لیکن اس کا فائدہ وہ لوگ اٹھا رہے ہیں، جن کا اس شعبے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے ملک میں گزشتہ 20برس سے کوئی بڑا شاعر، موسیقار، گلوکارسامنے نہیں آیا۔ نغمہ نگارخواجہ پرویز، ریاض الرحمان ساغر، حزئیں قادری کے بعد کوئی نغمہ نگارایسا نہیں جس کے کام کوسراہا جائے۔

موسیقار ایم اشرف اوروجاہت عطرے کے بعد کوئی مستند موسیقار سامنے نہیں آیا، پلے بیک سنگنگ کے شعبے میں گلوکارہ حمیراچنا، سائرہ نسیم اورشازیہ منظورکے بعد کوئی نئی آواز سنائی نہیں دیتی، اسی طرح فلمی ہیروئنوں میں اداکارہ ریما، صائمہ، میرا اورریشم کے بعد کوئی ایسی اداکارہ نہیں ہے، جس کوہیروئن کا مقام ملا ہو۔

اس کے علاوہ اگرفوک گائیکی پر نظر ڈالیں توعطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے بعد کوئی نیا فوک سنگر سامنے نہیں آیا۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کہہ لیں یا اس شعبے سے وابستہ لوگوںکی عدم توجہ۔ آج یہ شعبہ ان لوگوںکے ہاتھوں میں پہنچ چکا ہے، جن کواس کی الف ب کا پتہ نہیں ہے۔ میں نے بطور ریکارڈسٹ شہنشاہ غزل مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں، نصرت فتح علی خاں، عابدہ پروین، فریدہ خانم ، ریشماں اورعطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے علاوہ راحت فتح علی خاں جیسے منجھے ہوئے گلوکاروں کے ساتھ کام کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے موسیقی سے عشق کیا اوران کا یہ عشق ان کے کام میں صاف دکھائی دیتا تھا۔

لیکن آجکل کے گلوکاروں نے تواس کام کومذاق سمجھ لیا ہے۔ کیونکہ اپنے والدین کی دولت سے انہوں نے جدید مشینری سے لیس اپنے گھروں میں ایسی ’’ورکشاپس‘‘ بنالی ہیں، جن کے ذریعے وہ خود کو ’’گلوکار‘‘ بنانے میں کسی حد تک ’’کامیاب ‘‘ ہیں۔ لیکن جب یہ لوگ کسی مارننگ شویا لائیوشومیں بیٹھ کرپبلک کے سامنے براہ راست پرفارم کرتے ہیں، اس وقت ’’دودہ کا دودہ اورپانی کا پانی‘‘ صاف نظرآنے لگتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ائیرکنڈیشنڈ ورکشاپس سے تیارشدہ گلوکارجب کھلے میدانوں میں پرفارم کرنے کیلئے آتے ہیں توانہیں سی ڈی یا ڈیٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے، جبکہ سیکھ کراس شعبے میں آنے والے کسی کے محتاج نہیں ہوتے۔ میرانوجوان گلوکاروںکو مشورہ ہے کہ وہ موسیقی کی تربیت حاصل کرنے کے بعد اگراس شعبے کو بطور پروفیشن اپنائیں تووہ لوگوںکے دلوں پرہمیشہ راج کرتے رہیں گے، وگرنہ ان کا حال بھی ایسا ہی ہوگا جیسے مشینی گلوکاروںکو ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔