سیاست کا دل کھل رہا ہے

جاوید چوہدری  جمعرات 28 مارچ 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

نجم سیٹھی سیاست میں برداشت اور کھلے دل کی تازہ ترین مثال ہیں۔

یہ 1975ء سے پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالف چلے آ رہے ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں بلوچستان میں قوم پرستوں کے خلاف ملٹری آپریشن شروع کیا‘ نجم سیٹھی نے اس آپریشن کی مخالفت کی‘ بھٹو صاحب مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے چنانچہ سیٹھی گرفتار ہوئے اور1975ء سے 1977ء تک قید میں رہے‘ یہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جناح سے ضیاء تک جیسی متنازع کتاب لکھنے پر بھی گرفتار ہوئے ‘ بے نظیر بھٹو کی 1986ء میں پاکستان آمد کے بعد دوبارہ بھٹو خاندان کے قریب ہو گئے‘ یہ قربت بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کے دوران قائم رہی‘ 1996ء میں صدر فاروق احمد لغاری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو نجم سیٹھی لغاری صاحب کے کیمپ میں چلے گئے‘ 5 نومبر 1996ء کو ملک معراج خالد کی سربراہی میں نگراں حکومت بنی ‘ نجم سیٹھی اس نگراں حکومت میں سیاسی امور اور احتساب کے مشیر بن گئے‘ ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا‘ یہ اس دور کا اہم ترین عہدہ تھا کیونکہ صدر فاروق احمد لغاری آصف علی زرداری کو اسی گورنر ہاؤس سے گرفتار کروا چکے تھے جس میں کل نجم سیٹھی نے نگراں وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا اور صدر لغاری کے اس اقدام کو قانونی حیثیت دینا نجم سیٹھی کی بھی ذمے داری تھی‘ نجم سیٹھی نے ثابت کرنا تھا بے نظیر بھٹو حکومت واقعی کرپٹ ہے اور صدر نے ان کی حکومت برطرف کر کے درست اقدام کیا ہے‘ سیٹھی صاحب نے یہ کام شروع کر دیا‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے نجم سیٹھی پی ٹی وی پر آتے تھے اور مختلف رنگوں کی وہ چٹیں دکھاتے تھے جن پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری غیر قانونی احکامات جاری کرتے تھے‘ نجم سیٹھی نومبر 1996ء سے فروری1997 ء تک مشیر رہے اور انھوں نے اس دوران محترمہ اور زرداری صاحب کے خلاف ثبوت نکالے ‘ ان ثبوتوں کی بنیاد پر مشہور زمانہ سوئس کیسز شروع ہوئے‘ یہ ثبوت بعد ازاں احتساب بیورو کے اگلے چیئرمین سیف الرحمان کے کام آئے اور انھوں نے آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیربھٹو کے خلاف وہ کارروائیاں شروع کر دیں جن کے اثرات آج تک جاری ہیں‘ محترمہ اور زرداری صاحب اس بنا پر برسوں نجم سیٹھی سے ناراض رہے۔

میاں نواز شریف17 فروری 1997ء کو برسر اقتدار آئے ‘ یہ بھی بہت جلد نجم سیٹھی سے ناراض ہو گئے‘اس کی وجہ مضامین تھے‘ نجم سیٹھی نے 1996ء میں اپنی وزارت کے دوران میاں صاحبان کے خلاف بھی ٹھیک ٹھاک ثبوت جمع کر لیے تھے‘ صدر لغاری بی بی اور میاں صاحب دونوں کے خلاف بیک وقت محاذ نہیں کھولنا چاہتے تھے چنانچہ سیٹھی صاحب نے میاں برادران کے خلاف کارروائی نہیں کی لیکن سیٹھی صاحب نے وزارت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے انگریزی ہفت روزہ فرائیڈے ٹائم میں میاں صاحبان کی کرپشن کی اسٹوریز شایع کرنا شروع کر دیں‘ میاں صاحبان ناراض ہو گئے اور انھوں نے بھارت میں ان کی ایک تقریر کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کر دیا‘ آئی بی نے8 مئی 1999ء کو رات کے وقت ان کے گھر کے دروازے توڑ کر انھیں گرفتار کیا اور انھیں سیف ہاؤس میں پھینک دیا‘ نجم سیٹھی کو گھر سے ادویات تک اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی‘ یہ ان دنوں شدید علیل تھے‘ نجم سیٹھی کی گرفتاری عالمی ایشو بن گئی‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیموں نے نجم سیٹھی کا ساتھ دیا۔

امریکی حکومت نے پاکستان پر دباؤ ڈالا‘ جنرل پرویز مشرف اس وقت آرمی چیف تھے‘ انھیں امریکی وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ اور وزیر دفاع ولیم کوہن نے فون کیا‘ جنرل مشرف نے آئی ایس آئی کی مدد سے نجم سیٹھی کو ریکور کیا‘ یہ عدالت میں پیش ہوئے اور سپریم کورٹ نے انھیں جون کے اوائل میں رہا کر دیا تاہم یہ اس دوران دل کے امراض کا شکار ہو گئے‘ جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ جنرل کے قریب بھی رہے‘ جنرل مشرف ان کی گفتگو اور مشوروں کو سنجیدہ لیتے تھے‘ 2008ء کے بعد یہ صدر زرداری اور میاں نواز شریف دونوں کے قریب ہو گئے‘ ملک ریاض نے اس قربت میں اہم کردار ادا کیا‘ نجم سیٹھی ملک ریاض کے قریبی دوست ہیں‘ لوگ ملک ریاض کو نجم سیٹھی کی چڑیا بھی کہتے ہیں کیونکہ ملک ریاض انھیں سیاست کی اندرونی خبریں دیتے رہے ہیں‘ ملک ریاض کی وجہ سے یہ صدر آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کے قریب ہوئے اور یہ بعد ازاں میاں نواز شریف کے بھی قریب ہو گئے‘ عمران خان بھی ان سے مشورے لیتے رہے ہیں اور الطاف حسین بھی ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں۔

ہم اگر نجم سیٹھی کی زندگی کا تجزیہ کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا یہ پاکستان کے واحد صحافی ہیں جو ملک کے زیادہ تر لیڈروں کے قریب بھی ہیں اور ان کے عتاب کا نشانہ بھی بنے‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی نے ان کا نام نگراں وزیراعلیٰ کے لیے کیوں پیش کیا‘ اس کی تین وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ چوہدری نثار اور ملک ریاض کے اختلافات ہیں‘ ملک ریاض میاں برادران کو دھمکی دے چکے ہیں مجھے اگر اپنی ساری دولت بھی لگانا پڑی میں چوہدری نثار کو الیکشن نہیں جیتنے دوں گا‘ ملک ریاض کو خدشہ ہے چوہدری نثار اس الیکشن کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب بن جائیں گے اور یہ ملک صاحب کے لیے قابل قبول نہیں‘ صدر آصف علی زرداری بھی چوہدری نثار کا راستہ روکنا چاہتے ہیں اور نجم سیٹھی ملک ریاض اور صدر زرداری دونوں کو سوٹ کرتے ہیں‘ دوسرا صدر زرداری کا خیال ہے نجم سیٹھی 1999ء کے دور کو بھولے نہیں ہوں گے چنانچہ اگر انھیں موقع ملا تو یہ میاں نواز شریف سے بدلہ لیں گے اور تیسری وجہ سیاسی برتری تھی‘ صدر آصف علی زرداری نگراں وزیراعظم اور نگراں وزیراعلیٰ پنجاب دونوں معاملے میں پاکستان مسلم لیگ ن کو سیاسی شکست دینا چاہتے تھے۔

انھوں نے نگراں وزیراعظم اور نگراں وزیراعلیٰ دونوں ایشوز میں اپنے کارڈز صفائی سے کھیلے اور ن لیگ کو چت کر دیا اور میاں صاحبان وفاق اور پنجاب دونوں کی نگرانی پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے حوالے کرنے پرمجبور ہو گئے ‘ یہ صدر زرداری کی آخری چالوں کا پہلا مرحلہ ہے‘ صدر زرداری الیکشن کے بعد کامیاب پارٹیوں کو یہ پیش کش کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں آپ ہمیں وزارت عظمٰی دے دیں اور ہم سے تمام وزارتیں لے لیں اور یوں یہ ایک بار پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اگر خدانخواستہ الیکشن نہ ہوئے یا کوئی ’’بزرگ‘‘ اپنی طبعی عمر تک پہنچ گیا یا پھر کوئی بڑا لیڈر دہشت گردی کا شکار ہو گیا اور یہ نگراں سیٹ اپ آگے چل پڑا تو صدر زرداری وفاق اور پنجاب دونوں میں اپنی پوزیشن بہتر بنا لیں گے اور یوں چِت ہو یا پَٹ بازی بہرحال صدر زرداری کے ہاتھ میں رہے گی۔

یہ اس کہانی کا ایک پہلو ہے ‘ ہم اسے سیاہ پہلو یا ڈارک سائیڈ کہہ سکتے ہیں مگر اس کہانی کا ایک اچھا پہلو بھی ہے اور یہ تصویر کی وہ برائٹ سائیڈ ہے جس کا ذکر میں نے کالم کے شروع میں کیا ‘یہ حقیقت ہے پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی دونوں ایک وقت میں نجم سیٹھی کی مخالف رہیں‘دونوں نے انھیں گرفتاربھی کروایالیکن اس کے باوجود نگراں وزارت اعلیٰ کے وقت دونوں جماعتوں نے نجم سیٹھی پر اتفاق کر لیا ‘ یہ چیز ثابت کرتی ہے ہماری سیاست کا دل کھل رہا ہے‘ اس کی برداشت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ آپ اگر 1996ء‘1999 یا2007ء کا تجزیہ کریں تو آپ کو ان ادوار میں یہ اچھائی نظر نہیں آئے گی‘ وہ نفرتوں کے دور تھے‘ ان ادوار میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ نگرانوں کے معاملے میں آخری سطح تک چلی جاتیں اور جب دونوں کی دم اور چونچ ٹوٹ جاتی تو پھروہ آجاتے تھے جو ہمارے ملک میں ہمیشہ اس وقت کا انتظار کرتے ہیں مگر اس بار دونوں جماعتوں نے پہلے میر ہزار کھوسوکے معاملے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ مان کر اور بعد ازاں نجم سیٹھی پر اتفاق کر کے سیاست اور جمہوریت کا بھرم بھی رکھ لیا اور بوٹوں سے بھی بچ گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔