انتخابی جنگ

نصرت جاوید  جمعرات 28 مارچ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں اس وقت جو صف اول کے سیاست دان ہیں ان میں سے صرف اپنی کرشماتی شخصیت اور بہت سی دیگر وجوہات کی بناء پر عمران خان کے مداحین کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔پاکستان کے سیاسی نظام کا مگرمسئلہ یہ ہے کہ اس میں وزیر اعظم کا انتخاب براہِ راست مقابلے کے ذریعے نہیں ہوتا۔ہماری ایک قومی اسمبلی ہے۔ سیاسی جماعتیں اس کی نشستوں کے لیے امیدوار کھڑے کرتی ہیں ۔

11مئی کو اصل مقابلہ اسی قومی اسمبلی کی 272نشستوں کے لیے ہوگا۔تحریکِ انصاف نے اپنے 137 لوگ منتخب کروالیے توعمران خان وزیراعظم بن جائیں گے ۔یہ جماعت اگر واحد اکثریتی جماعت بنی تواسے دوسری جماعتوں سے حامی اکٹھے کرکے ایک مخلوط حکومت بنانا پڑے گی۔

اکتوبر2011ء کے لاہور والے جلسے کے بعد عمران خان کے مداحین سے کہیں زیادہ ہمارے کافی معتبر ،سنجیدہ اور تجربہ کار صحافیوں نے یہ طے کرڈالا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی طرح تحریکِ انصاف آیندہ انتخابات میں ’’کھمبوں‘‘ کو بھی ٹکٹ دے کر قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرکے دُنیا کو حیران کردے گی۔میں ذاتی طورپر عمران خان کا خیر خواہ ہوں اور ان کی بے شمار ذاتی خوبیوں کا شدید مداح۔

مگر ان کا 2013ء میں ’’بھٹو دوئم‘‘ بن جانا مجھے کبھی ممکن نظر نہیں آیا۔میں نے اس ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار کیا توتحریکِ انصاف کے انٹرنیٹ جہادیوں نے اپنے رکیک حملوں کا نشانہ بنادیا۔ڈھیٹ آدمی ہوں۔اپنی بات پر ڈٹارہا۔اسی لیے تو ہرگز حیران نہ ہوا جب لاہور میں 23 مارچ کا ’’تاریخی جلسہ‘‘ منعقد کرنے کے عین ایک روز بعد عمران خان جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر چلے گئے اور سید منور حسن صاحب سے آیندہ انتخابات کی صورت مشترکہ طور پر لڑنے کے لیے سنجیدہ مذاکرات کا آغاز کردیا۔

عمران خان میں ’’بھٹو دوئم‘‘ دیکھنے والوں نے کبھی یاد نہیں رکھا کہ 1970ء میں اس ملک کے لوگوں کو پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے نمایندے منتخب کرنے کا اختیار ملا تھا۔1947ء سے 1970ء تک انھوں نے جو سیاسی اور فوجی حکمران بھگتے تھے وہ بالواسطہ طریقوں سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے بلاکسی استثناء کے اپنے سے پہلے والے تمام حکمرانوں کو نہ صرف عوام کا دشمن قرار دیا بلکہ ان کی قوت کو توڑنے کے لیے صنعتوں کو قومیانے اور زرعی اصلاحات کے ٹھوس وعدے بھی کیے۔

عمران خان نے تبدیلی اور انقلاب کی باتیں تو بہت کی ہیں مگر وہ کبھی یہ وعدہ نہیں کرتے کہ وہ دولت مندوں کی طاقت کے اصل ذرایع پر ہاتھ ڈالیں گے۔ ان کا وعدہ ہے تو صرف اتنا کہ وہ زیادہ آمدنی والے لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے کی روایت کو پھیلا کر توانا کریں گے۔ یورپ اور امریکا میں خوشحال لوگوں سے ٹیکس گزشتہ پچاس سالوں سے بڑی سختی کے ساتھ وصول کیے جاتے ہیں۔اس کے باوجود وہاں’’انقلاب‘‘ نہیں آیا ہے۔ امیر اب بھی امیر تر ہورہا ہے اور غریب کے نصیب میں دھکے ہی دھکے۔ یقین نہ ہو تو ذرا سی زحمت کرکے بس اتنا جان لینے کی کوشش کریں کہ ان دنوںا سپین،یونان اور قبرص میں کیسی آگ لگی ہوئی ہے ۔

’’انقلاب‘‘لانے کے دعوے کو ایک طرف رکھ دیں تو ہمیں اس بات پر بھی غور کرلینا چاہیے کہ ہمارے ہاں 1977ء کے بعد سے دومارشل لائوں کے باوجود بے تحاشہ انتخابات ہوئے ہیں۔ ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد بھی مقامی سطح کے انتخابات کروائے۔ ان کے ذریعے ضلعی سطح کی جو قیادت اُبھری اسی کی اکثریت نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

اس کے بعد سے نام نہاد ’’نظریاتی سیاست‘‘ کا پاکستان میں ہمیشہ کے لیے قلع قمع ہوگیا۔اب صرف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقے رہ گئے ہیں ۔ان حلقوں میں برادری اور دوسری بنیادوں پر طاقتور دھڑے بن چکے ہیں ۔وہ کبھی ایک اور کبھی دوسری جماعت میں شامل ہوکر ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے ہیں ۔عمران خان نے “Electables”کو ڈھونڈتے ہوئے ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ایک نیا دھڑا بنانے کی کوشش کی اور وہ اس سلسلے میں ابھی تک اتنے کامیاب ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔تحریک انصاف کی ٹکٹ پر 11مئی کو 137افراد کا قومی اسمبلی کا رکن بن جانا تقریباً ناممکن ہے ۔

عمران خان نے لاہور کے جلسے کے بعد جماعت اسلامی سے مذاکرات کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے میری نظر میں انتخابی سیاست کے دائو پیچ کو سمجھنے والی ذہانت کا اظہار کیا ہے ۔مگر اس کے چند ’’لبرل‘‘ قسم کے مداحین کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی۔ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ عمران خان کو پنجاب میں درحقیقت نواز شریف کو زچ کرنا ہے ۔’’تخت لاہور‘‘ کو فتح کرنا اس ضمن میں بڑی نفسیاتی اہمیت کا حامل ہے اور تحریک انصاف کے پاس ابھی اتنے لوگ اکٹھے نہیں ہوئے جو یہ تاثر پیدا کرسکیں کہ کم از کم لاہور کی ساری نہ سہی تو زیادہ تر نشستیں اب نواز شریف کی جماعت کے پاس نہیںرہیں گی۔ نواز شریف اگر لاہور میں ہارتے نظر نہ آئیں تو ان کے مستقبل کا وزیراعظم بننے کے امکانات روشن رہتے ہیں۔

جماعت اسلامی کو فرید پراچہ،حافظ سلیمان بٹ اور لیاقت بلوچ والے حلقے دے کر باقی حلقوں میں تحریک انصاف کے لوگ کھڑے کرنے کے بعد عمران خان یہ تاثر ختم کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں ۔بہاولپورکے نواب صلاح الدین کے ساتھ بیٹھ کر عمران خان نے پیپلز پارٹی کے ساتھ’’سرائیکی وسیب‘‘کے حوالے سے یہی کچھ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ان کے مداحین کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ انتخابی جنگ ہے اور اس میں ہر نوعیت کا پتہ کھیلا جانا ضروری ہوتاہے۔ انھیں اپنے ہیرو سے ولیوں اور درویشوں والی توقعات نہیں رکھنا چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔