لیکن میری حفاظت؟

عبدالقادر حسن  بدھ 7 فروری 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ریاست اور عوام میں ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت عوام کی حفاظت ریاست کی ذمے داری قرار پاتی ہے لیکن ہماری ریاست اس معاہدے کے باوجود عوام کے جان و مال کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ روزانہ کی وارداتیں اس ناکامی کا ثبوت ہیں۔ مگر پھر بھی دعوے کیے جاتے ہیں کہ گڈ گورنس صرف پنجاب میں ہی ہے۔ میرے پسندیدہ وزیر اعلیٰ جن کے اصل نظریات سے میں بے خبر ہوں ان کی تقریریں اور جلسوں میں ان کے جذبات کسی انقلابی کے جذبات کی طرح کے لگتے ہیں مگر تعلق ان کا بھی اشرافیہ سے ہی ہے اور وہ اس کی تقلید بھی کرتے ہیں، وہی کرتے ہیں جو ان کی سمجھ میں آتا ہے، وہی سنتے ہیں جو سننا چاہتے ہیں، انداز مختلف ہے ان کی انقلابی تقریریں ان کی ظاہری شخصیت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ وہ پچھلے دس سال سے پنجاب کے بلا شرکت غیرے  حکمران ہیں۔

ان کی انتظامیہ ان سے خائف رہتی ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں حقیقی معنوں میں ایک داستان چھوڑ آتے ہیں۔ ان کے بڑوں نے محنتیں کیں جن کا پھل ان کی موجودہ نسل کے حصے میں آیا ہے۔ وہ اس پھل کی لذت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس لیے وہ انقلابی سے زیادہ ڈکٹیٹر نظر آتے ہیں۔ پنجاب پر وہ اپنا حق اسی طرح سمجھ بیٹھے ہیں جیسے مہاراجہ رنجیت سنگھ حکمرانی کر رہا ہو۔ان کو ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں ہی بہتی دکھائی دیتی ہیں۔ حالانکہ اگر وہ صرف لاہور شہر کے دل میں رواں نہر کا نظارہ ہی کر لیں تو ان کی طبیعت صاف ہو جائے گی۔

لاہور سے جیسے ہی باہر کا رخ کریں تو راوی پار کرتے ہی گڈ گورنس مٹی دھول اور ٹوٹی سڑکوں کی صورت میں آپ کا استقبال کرے گی جیسے جیسے آگے چلتے جائیں مناظر بدلتے چلے جائیں گے اور آپ داد دیں گے کہحکومت نے کتنی آسانی سے ترقی کا مسلسل ڈھنڈورا پیٹ رکھا ہے اور یہ مثال سچ ثابت کر دی ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ لوگ اسے سچ ماننے پر مجبور ہو جائیں۔ وہ تو شکر ہے کہ میں اپنے پسندیدہ وزیر اعلیٰ جن کو خادم اعلیٰ کہلانا زیادہ پسند ہے ان کے پسندیدہ شہر لاہور میں رہتا ہوں اور ان تمام خرابیوں سے کسی حد تک دور ہوں جو لاہور سے باہر بدرجہ اتم موجود ہیں اور میرے پاکستانی عوام اسے بھگتنے پر مجبور ہیں۔ میں بھی چونکہ اس ملک کا ہی باشندہ ہوں اس لیے میری بھی یہ مجبوری ہے کہ مجھے کبھی کبھار شہر سے باہر بھی جانا پڑتاہے اور جب باہر کارخ کرتا ہوں تو ان تمام خرابیوں سے براہ راست واسطہ بھی پڑتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی صحافتی ذمے داری سمجھتے ہوئے مجبور ہو جاتا ہوںکہ ان کو رپورٹ کروں، ان کے بارے میں دہائی دوں شائد کسی کی نظر سے یہ چند سطریں گزر جائیں اور حالات سدھر جانے کی کچھ امید ہو جائے۔

میرے دیرینہ دوست مرحوم ایس کے محمود جو  ایک وفاقی وزارت میں اہم عہدے پر فائز تھے، انھوں نے میرے ایک اسلام آباد کے دورے میں ملاقات میں مجھے ایک عدد کلاشنکوف بمعہ لائسنس تحفتاً دی تو میرا بے ساختہ جواب تھا کہ شاہ صاحب میرے پاس ہے کیا جس کی میں اس کلاشنکوف کے ساتھ حفاظت کروں گا، بلکہ اب تو لگتا ہے کہ مجھے اس کلاشنکوف کی حفاظت کرنا پڑے گی اور ابھی تک ہو بھی یہی رہا ہے کہ میڈیا کی تیز رفتار ترقی کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے میں اپنے مرحوم مہربان دوست کے اس تحفے کا تحفظ کرنے پر مجبور ہوں۔ ایک دفعہ حکومت نے ممنوعہ بور کے اسلحہ جمع کرنا شروع کیا تو میں نے اﷲکا شکر ادا کیا اور اس کو اپنے گھر کے قریبی تھانے میں سیل لگا کر ایک تھیلے میں بند کر کے متعلقہ تھانیدار کے سپر د کر آیا اور اﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس ہتھیار کی حفاظت سے وقتی طور پرمیری جان چھوٹ گئی ہے لیکن کچھ عرصہ بعد ہی حکومت بھی اس ہتھیار کی حفاظت سے انکاری ہو گئی اور مجھے ایک بار پھر اسے واپس اپنی تحویل میں  لینا پڑا۔

وقت کے ساتھ حالات بدلتے گئے اور یہ وقت آگیا کہ ریاست عوام کی حفاظت سے قاصر ہو گئی اور عوام اپنے دفاع کے لیے اپنا بندو بست کرنے پر مجبور ہو گئے۔میری صحافتی زندگی کو دیکھتے ہوئے مجھے بھی کسی مہربان دوست نے مشورہ دیا کہ مجھے بھی اپنی حفاظت کے لیے گارڈ رکھ لینا چاہیے، میں نے بصد احترام عرض کیا کہ جو رات قبر میںلکھی اسے کوئی ٹال نہیں سکتا اس لیے میں اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔ البتہ میں نے اپنے ایک پرانے خدمتگار کو بلا کر اس سے اپنی کلاشنکوف کو صاف کرا لیا تا کہ اس کو جو زنگ لگ چکا ہے اس سے وہ محفوظ ہو جائے۔

اب حالت یہ ہے کہ کلاشنکوف میرے سامنے پڑی رہتی ہے لیکن میں اس کا اور وہ میرا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے لیکن دل کی ایک دلی تسلی ضرور ہے کہ اگر کوئی چور اچکا آبھی گیا تو اسے کچھ نہ کچھ ملنا چاہیے ورنہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے یا کم از کم باہر جا کر مجھے شرمندہ ضرورکر سکتا ہے کہ فلاں کے گھر میں تو کچھ بھی نہیں تھا اس لیے میں نے اب کلاشنکوف اپنے سامنے سجا رکھی ہے تا کہ کسی آنے والے غیر متوقع ڈاکو کے لیے کچھ تو موجود ہو جو وہ ساتھ لے جائے۔ میں اپنے واحد ہتھیار کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہوا ہوں کہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ممنوعہ بور کے تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کیے جارہے ہیں اور ممنوعہ بور اسلحہ کو یا تو تبدیل کرا لیا جائے یا پھر اس کو حکومت کو قیمتاً فروخت کر دیا جائے لیکن جیسا کہ آپ نے پڑھا کہ یہ کلاشنکوف ایک مرحوم مہربان دوست کا تحفہ ہے اس لیے یہ تو ممکن نہیں کہ میں اس کو حکومت کو فروخت کر دوں اور ایس کے محمود کی روح کو عالم بالا میں تکلیف دوں جنھیں کئی سال پہلے ہی اس بات کا ادارک ہو گیا تھا کہ ان کے دوست کو اس ہتھیار کی ضرورت پڑے گی۔

اس لیے یہ تو ہونے سے رہا کہ اس کو فروخت کر کے میں رقم وصول کر لوں دوسری صورت حکومت نے اس کی صلاحیت میں کمی کی تجویز دی ہے کہ اس کے آٹو میٹک سسٹم کو ختم کرا دیا جائے اور اس کے لیے نیا لائسنس حاصل کر لیا جائے لیکن میں اس پر بھی راضی نہیں ہوں یہ اس بندوق اور اس کے بنانے والے کی بھی بے عزتی ہے جس نے اپنی بیٹی کے نام پر اس ہتھیار کا نام رکھا۔ اس سب کو دیکھتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ میں حکومت کے اس فیصلے کو نہیں مانتا۔ یا تو حکومت مجھے اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ وہ عوام کی حفاظت کر سکتی ہے۔ لیکن یہ بات حکومت کے لیے ممکن نہیں کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں ان کی اپنی حفاظت کے لیے سیکڑوںکی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات ہیں جو کہ دن رات ان کی حفاظت کر رہے ہیں جب کہ عوام ڈاکوؤں لٹیروں کے رحم و کرم پر بے یارو مددگار چھوڑ دیے گئے ہیں۔ یہ دو عملی ہے جو حکمرانوں کے لیے تو جائز ہے لیکن عوام کے لیے یہی چیز ناجائز قرار پاتی ہے۔ اس دوعملی کو ختم کرنااور عوام کے جان و مال کا تحفظ ریاست اور اس کے حکمران کی ذمے داری ہے اور ریاست یا حکمران جب تک ذمے داری کو پورا نہیں کرے گی عوام کے ذاتی حفاظت کے اسلحے پر قدغن لگانے کا کوئی جواز نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔