خرابیوں کے بھوت

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 7 فروری 2018

اگر ہمارے کرتا دھرتا اپنی سوانح حیات لکھنے بیٹھیں اور سچائی کے دامن کے ساتھ ساتھ اسے مکمل پکڑکر رکھیں تو ان کی سوانح حیات اور بنجمن فرینکلن کی سوانح حیات میں حیرت انگیز مماثلت پائی جائے گی اور بہت ہی معمولی سا فرق سامنے آئے گا۔ پہلے آپ بنجمن فرینکلن کی سوانح حیات کا ایک اقتباس پڑھ لیں اور پھر اس کے بعد اس معمولی سے فرق پر بات کرتے ہیں۔

بنجمن فرینکلن بہت کامیاب انسان تھا، اس نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ ’’میں اپنی کامیابیوں اور کارناموں سے بہت خوش تھا، کامیابی میرے قدم چوم رہی تھی مگر اس کے باوجود مجھے یہ سب خوشیاں خالی خولی نظر آتیں، مجھے سب کچھ کھوکھلا سا دکھائی دیتا، ایک بار میں نے تنہائی میں بیٹھ کر اس چیز کا جائزہ لیا تو مجھے پتہ چلا کہ میں ایک اچھا دوست یا ساتھی نہیں تھا، میں صرف لوگوں سے اسی بات کی توقع رکھتا تھا کہ وہ میری عزت کریں، میری تعریف کریں، خود میں کبھی بھی کسی کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوا تھا، مختصر یہ کہ میں صرف حاصل کرنے پر یقین رکھتا تھا ناکہ دینے پر۔ اس روز میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے آپ کو یکسر بدل ڈالوں گا اور میں نے 12 نیکیوں کا انتخاب کرلیا اور فیصلہ کیا کہ ہر روز ان میں سے ایک میں کروں گا اور ہوسکے تو پوری کی پوری نیکیاں ایک دن میں کرکے دکھاؤں گا اپنے آپ کو۔ اب میرا یہ اصول ہوگیا تھا کہ میں جس روز ایسا نہ کرتا اپنے روزنامچے میں ان نیکیوں یا خوبیوں کے آگے صفر لکھ دیتا۔ صفر دیکھ کر مجھے بہت شرمندگی ہوتی۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں اس بارے میں بڑا پکا اور مضبوط ہوگیا۔ اب میرے روزنامچے میں صفر نہیں ہوتا تھا‘‘۔

اب آپ ہی فیصلہ کرلیں کہ کیا دونوں کی سوانح حیات میں حیرت انگیز مماثلت پائی نہیں جاتی ہے۔ بقول بنجمن فرینکلن وہ ایک اچھا دوست یا ساتھی نہیں تھا اور وہ صرف لوگوں سے اس بات کی توقع رکھتا تھا کہ وہ میری عزت کریں، میری تعریف کریں، خود وہ کبھی بھی کسی کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوا تھا، مختصر یہ کہ وہ صرف حاصل کرنے پر یقین رکھتا تھا نا کہ دینے پر۔ کیا اس کی یہ تمام باتیں ہمارے کرتا دھرتاؤں کی باتوں سے ملتی جلتی نہیں ہیں، کیا وہ یہ ہی سب کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ کیا وہ اپنی زندگیاں اس چاہت میں نہیں گزار رہے ہیں کہ لوگ ان کی عزت کریں، تمام وقت تعریف کرتے رہیں اور کیا وہ سب کچھ حاصل کرنے پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔

آئیں اب اس معمولی سے فرق پر بات کرتے ہیں، فرینکلن نے جب اپنے آپ کو یکسر تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو اس نے 12 نیکیوں کا انتخاب کیا اور فیصلہ کیا کہ وہ ہر روز ان میں سے ایک کرے گا، جب کہ ہمارے کرتا دھرتاؤں نے اپنے لیے 12 نیکیوں کا نہیں بلکہ روز 12 خرابیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور وہ اکثر یہ بارہ خرابیاں ایک ساتھ بھی روز کر لیا کرتے ہیں۔ آئیں ان کی انتخاب شدہ 12 خرابیوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔

خرابی نمبر1: ملک میں بیروزگاری میں مسلسل اضافہ کرنا۔ خرابی نمبر 2: مہنگائی میں مسلسل اضافہ کرنا۔ خرابی نمبر 3: پینے کے پانی، صحت کی سہولیات کو تباہ کرنا، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ کرنا۔ خرابی نمبر 4: ملک میں غربت و افلاس کو بڑھاوا دینا۔ خرابی نمبر 5: قانون کی مسلسل خلاف ورزی کرنا۔ خرابی نمبر 6: اداروں کو کمزور سے کمزور کرتے جانا۔ خرابی نمبر 7: کرپشن اور لوٹ مار میں اضافہ کرتے جانا۔ خرابی نمبر  8: ملک میں عدم استحکام، بے چینی اور بے یقینی میں اضافہ کرنا۔ خرابی نمبر 9: ملک کے عوام سے رہے سہے حقوق کو غصب کرتے جانا۔ خرابی نمبر 10: ملک میں انتہاپسندی کو بڑھاوا دینا۔ خرابی نمبر  11: ملک کے طاقتور اداروں کے خلاف سازشیں کرنا۔ خرابی نمبر 12: عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف مسلسل بولنا۔

وحشت ناک بات یہ ہے کہ ان کے ایجنڈے کی کامیابی میں روز بروز اضافہ ہوتا ہی چلا جا رہا ہے اور ملک اور عوام کو ان بارہ خرابیوں نے چڑیلوں کی طرح مکمل اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اس گرفت سے چھٹکارے کی صورت یا امید دور دور تک نظر نہیں آ رہی ہے اور یہ بارہ خرابیاں بھوتوں کے خوف کی طرح روز عوام کو کھائے جا رہی ہیں۔ ملک کے عوام نے بڑے بڑے عاملوں سے بھی رابطہ کیا لیکن ان سب کا جواب ایک ہی تھا کہ ہم جن، بھوت اور چڑیلوں سے تو آپ کی جان چھڑا سکتے ہیں لیکن ان بارہ خرابیوں کے آگے ہم بھی بے بس، لاچار اور مفلوج ہیں، جس طرح آپ جن، بھوتوں اور چڑیلوں سے ڈرتے ہیں ہم بھی اسی طرح ان بارہ خرابیوں سے ڈرتے ہیں۔

اب ملک کے عوام کو سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ وہ ان حالات میں کریں تو کریں کیا۔ ملک کے اس سارے منظر کو دیکھ کر اسکائی لیس کے لکھے گئے ڈرامے ’’پرومی تھیوس‘‘ کا ایک ڈائیلاگ یاد آ رہا ہے ’’یہ تو اب تک کاقصہ ہے، آیندہ کیا ہوتا ہے۔ مجھے کن اذیتوں سے گزرنا ہے، یہ تم مجھے بتاؤ۔ مجھ پر رحم کھا کر جھوٹی تسلیاں نہ دینا۔ جھوٹ کے تاروں سے بنے ہوئے لفظ، ایک غلیظ مرض کی طرح ہوتے ہیں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔