واقعہ زینب اور معاشرہ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  بدھ 7 فروری 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں واقعہ زینب کے بعد سے اس قسم کے واقعات کے سدباب کے لیے مختلف قسم کی تجاویز سامنے آرہی ہیں جو کہ ایک اچھی سوچ ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان تجاویز پر عمل سے قبل ہمیں ان کا جائزہ بھی لینا چاہیے اور ایک تحقیقی نظر سے دیکھنا چاہیے کہ ان مسائل کی اصل جڑ کیا ہے۔ جب اصل جڑ کا پتہ چلے گا تو پھر ان جیسے واقعات کا سدباب بھی ممکن ہوسکے گا۔

ابھی تک عموماً دو طرح کی تجاویز سامنے آئیں ہیں، ایک یہ کہ انصاف اورقانون کے معاملات کو درست کیا جائے اور سخت سے سخت سزا تجویز کی جائے، مثلاً سزائے موت۔ دوسرے یہ کہ بچوں کو جنسی تعلیم دی جائے۔ اس ضمن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ بچوں کو ’گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ‘ کے بارے میں آگہی دی جائے، کوئی کہہ رہا ہے کہ ماموں اور چچا کی گود میں بھی بچوں کو دینے سے پرہیز کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ بظاہر تو یہ باتیں بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں اورعقلی طور پر محسوس ہو تا ہے کہ اس سے یہ مسائل یقیناً حل ہوں گے، مگر یہاں دو سوال بڑے اہم ہیں ایک یہ کہ عالمی سطح پر ’ہیومن رائٹس‘ کا جو تصور ہے اور انسانی حقوق کے حوالے سے جو دباؤ ہے۔

اس کے تحت تو ہم ریاستی سطح پر سزائے موت کے قانون پر عمل کرنا بھی چھوڑ چکے تھے اور کچھ ہی عرصے قبل دہشتگردی کے ایک بڑے واقعات کے بعد پھانسی کے منتظر مجرموں کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ کیا عالمی دباؤ کے باوجود ہم اس قسم کے واقعات یا زینب کے مجرم کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا سکیں گے؟ کیا ہمارا پولیس اور عدالت کا نظام اس قدر بہتر ہوسکے گا کہ انصاف بروقت ہوسکے اور تھانہ کلچر بھی بدل جائے کہ جہاں کسی مظلوم کے لیے ایف آئی آر درج کروانا بھی انتہائی مشکل ترین کام ہوتا ہے، مظلوم کو انصاف ملنا تو دور کی بات، ایسا تھانہ کلچر کے جس کے ماروائے عدالت قتل کرنے کے شہرت کا چرچہ عام ہو؟

اسی طرح کیا جس ملک میں ساٹھ فیصد کے قریب لوگوں کو ان کی مادری زبان میں بھی تعلیم نہ دی جاسکی ہو ان کے بچوں تک جنسی تعلیم پہنچادی جائے؟ کل آبادی تک جب تعلیم بھی نہ پہنچ پاتی ہو وہاں ظاہر ہے یہ کام ممکن نہیں، اسی طرح فوری اور سستا انصاف بھی ممکن نہیں۔ کیا ایسے ماحول میں یہ تمام تجاویز رنگ لے آئیں گی؟ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہی حل ہے اس قسم کے واقعات کا؟ اس کا جواب ہم ان ممالک سے حاصل کر سکتے ہیں کہ جہاں قانون پر سختی سے عمل بھی ہوتا ہو اور انصاف بھی فوری ملتا ہو، نیز جنسی تعلیم بھی معاشرے میں ہر فرد تک پہنچ چکی ہو، اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو۔

جدید ترقی یافتہ ممالک میں شرح خواندگی بھی ہمیں صد فیصد نظر آتی ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی کثرت بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں جنسی تعلیم پر بھی کوئی قدغن نہیں، بلکہ عملاً والدین اپنے اسکول جانے والے بچوں کو مانع حمل کی دوائیں بھی فراہم کردیتے ہیں۔ گویا ان تمام معاملات میں یہ جدید ترقی یافتہ ممالک ہم سے بہت آگے ہیں۔ آئیے اب ان کے معاشروں کا ایک جائزہ لیتے ہیں کہ وہاں کی ’زینب‘ کس حد تک آزاد ہے اور وہاں حوا کی ’بیٹی‘ کو قانون نے کس حد تک تحفظ فراہم کیا ہوا ہے۔

امریکا جہاں بائیس سو ایجنسیاں کام کرتی ہیں، جرم کی اطلاع ملتے ہی تین منٹ میں پولیس یا ایجنسی جائے وقوع پر پہنچ جاتی ہے، وہاں کے بارے میں گزشتہ سال تیس اکتوبر کی اشاعت میں نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ امریکا میں کام پر جانے والی 94 فیصد عورتوں کو کام کی جگہوں پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، روزانہ 46 بچوں کو گولیاں لگتی ہیں، جن میں سے سات روزانہ مر جاتے ہیں یعنی سالانہ تین ہزار بچے صرف گولیوں سے مرتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی جنوری 2014ء میں 35 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکا میں سالانہ کروڑوں جبری زنا ہوتے ہیں، امریکی فوج میں عورتوں اور مرد سپاہیوں سے جبری زنا کاری، بدفعلی کے لاکھوں واقعات ہیں۔ امریکا میں 38 فیصد لڑکیاں باپ اور بھائی کی جنسی دہشتگردی سے بچنے کے لیے گھر سے بھاگ کر شیلٹر ہومز میں پناہ لیتی ہیں۔ کروڑوں عورتیں جبری زنا کی رپورٹ ہی درج نہیں کراتیں، انھیں یقین ہوتا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

نیویارک ٹائمز 28 دسمبر 2017ء کے اداریے میں لکھتا ہے کہ امریکا میں ہر سال ہزاروں عورتیں اپنے آشنا عاشق دوست کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔

یہ مسئلہ صرف امریکا نہیں تمام مغربی اور ترقی یافتہ ممالک میں درپیش ہے۔ آسٹریلیا میں دو ہزار دس میں تاریخ کا ایک بڑا اسکینڈل منظر عام پر آیا، جس کے مطابق اولڈ ہاؤسز میں رہنے والی 70-80 سال کی بوڑھی عورتوں اور بوڑھوں کو نوجوانوں نے اغوا کرکے جبری زنا کیا اور یہ عمل نہ جانے کب سے جاری تھا۔

یورپین ایجنسی فار فنڈامینٹل رائٹس نے تمام یورپی ممالک کی صورتحال کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں یہ کہا کہ ہر سال ایک کروڑ بیس لاکھ خواتین کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان خواتین میں ستر سال کی بزرگ خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔ ہر بیس میں سے ایک عورت پندرہ سال کی عمر میں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چار کروڑ خواتین نے شکایت کی کہ انھیں مرد مختلف طریقوں سے جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں۔ بیس فیصد لڑکیوں کو شکایت ہے کہ انھیں ان کے سابق یا موجودہ دوست یا پارٹنر نے جنسی طور پر استحصال کا نشانہ بنایا۔ ایک رپورٹ کے مطابق کینیڈا میں بتیس فیصد بچے بچیاں اپنے گھروں میں جنسی اور مختلف قسم کے تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔

ان حقائق کی ایک طویل فہرست ہے مگر یہاں مختصراً ذکر کیا گیا ہے تاکہ ہمیں یہ اندازہ ہوسکے کہ ہم جن مسائل کا حل جنسی تعلیم کے فروغ میں سوچ رہے ہیں، اگر بالفرض وہ سب کچھ ہم کر بھی لیتے ہیں (اگرچہ یہ ناممکنات میں سے ہے) تب بھی اس کے نتائج کیا حاصل ہوں گے؟ جن ترقی یافتہ ممالک کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہاں نہ صرف قوانین بہت زیادہ ہیں اور فعل بھی ہیں، نیز وہاں جنسی تعلیم بھی کھلی کردی جاتی ہے، بلکہ اس قدر کھل کر دی جاتی ہے جس میں میڈیا بھی کھل کر اپنا رنگ دکھاتا ہے کہ بچے سن بلوغت سے قبل ہی تمام معلومات اور حقائق سے واقف ہوجاتے ہیں، جو ہمارے ’گڈ اور بیڈ ٹچ‘ کے تصور سے کہیں زیادہ ہے۔

یوں اگر ہم آج کے اس جدید عہد میں ایمانداری سے تجزیہ کریں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ جن معاشروں یا ممالک میں جنسی تعلیم بچوں کو کم عمری ہی میں دی گئی اور جہاں صنف نازک کے لیے، بچوں اور بچیوں کے لیے، ہر طرح کے تحفظاتی قوانین موجود ہیں اور جہاں قانون کی حکمرانی بھی ہے، ان تمام معاشروں میں بھی ’حوا کی بیٹی‘ اور بچے، بچیاں سب کی عصمتیں غیر محفوظ ہیں۔

اب یہ سوال ہمارے سامنے ابھر کر آتا ہے کہ انتہائی منظم ترقی یافتہ معاشروں میں بھی یہ سب کچھ کرنے کے بعد حاصل کچھ نہیں تو پھر ہمارے جیسے غیر منظم معاشرے یا ملک میں یہ قوانین اور جنسی تعلیم سوائے والدین کو شرمندہ کرنے کے اور کیا نتائج دے سکتی ہے؟ اصل بات تو یہ ہے کہ ان وجوہات کو بھی جانا جائے کہ جس سبب یہ سب کچھ ہمارے معاشرے میں بھی ہونے لگا ہے، جو برسوں پہلے ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ہوچکا ہے اور اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے۔ زندگی رہی تو آیندہ کے کالم میں ان وجوہات کا ضرور جائزہ لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔