2+2 کا نتیجہ4ہی نہ نکالیے

نصرت جاوید  بدھ 8 اگست 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

دو کو دو کے ساتھ جمع کر کے ہمیشہ چار ہی دیکھنے والے یہ دعویٰ کرتے ہوئے بڑے سچے سنائی دیتے ہیں کہ فیصل رضا عابدی کو مختلف ٹاک شوز کے ذریعے عدلیہ کو للکارنے کے لیے آصف علی زرداری نے میدان میں اُتارا ہے۔ جہانگیر بدر کی طرف سے جاری شدہ شو کاز نوٹس اور عابدی کو پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی سے نکالے جانے والی خبریں بد تر از گناہ قسم کے بہانے ہیں۔

میرے پاس ٹھوس حقائق نہیں ہیں جو مجھے یہ سمجھنے میں مدد دے سکیں کہ عابدی، آصف زرداری کے اشاروں پر کھیل رہے ہیں یا نہیں۔ تھوڑی کوشش کر کے پتہ چلایا جا سکتا ہے مگر کیا فائدہ؟ آج کل کے پاکستان میں لوگ خبریں نہیں رائے جاننا چاہتے ہیں۔ ہمارے بڑے ہی بے باک میڈیا اور آزاد عدلیہ کی مہربانی سے ایک واضح لکیر کھینچ دی گئی ہے۔

ایک طرف بہت ہی ’’چالاک‘‘ آصف علی زرداری ہیں جن کے مبینہ طور پر کروڑوں ڈالر سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع ہیں‘ اپنی بیوی کے قتل کے بعد وہ بڑی مکاری سے سیاسی مہرے آگے بڑھاتے ہوئے اس ملک کے صدر بن گئے۔ بجائے بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو ڈھونڈنے کے انھوں نے ’’قاتل لیگ‘‘ سے دوستی کر لی‘ عوام کو نہ بجلی دی نہ نوکریاں‘ وزارتوں اور دوسرے منافع بخش اداروں میں چن چن کر اپنے چمچے لگائے تاکہ وہ ’’دیہاڑیاں‘‘ لگا سکیں۔ اب ان کا سارا زور اس بات پر مرکوز ہے کہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو ’’وہ چٹھی‘‘ نہ لکھی جا سکے۔ اس کے لیے گیلانی کے بعد راجہ اور پھر جتنے چاہو وزیراعظموں کی قربانی دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔

میڈیا کے پارسا ساز نوحہ گروں کی بات پر اعتبار کریں تو ان حالات میں نواز شریف کی ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کسی کام کی نہیں۔ عمران خان سے اُمیدیں تھیں مگر وہ آصف زرداری کو فارغ کروا کے جیل بھجوانے کے مشن پر توجہ دینے کے بجائے نواز شریف سے اُلجھ پڑے۔

ایسا کرتے ہوئے ’’تبدیلی کے نشان‘‘ نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی باہمی لڑائی ’’دائیں بازو کے ووٹ بینک‘‘ کو تقسیم کر دے گی۔ اس لڑائی کا اصل فائدہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی پاکستان پیپلز پارٹی کو ہو گا جو آیندہ انتخابات میں اپنے ’’پکے ووٹوں‘‘ کے ذریعے ایک بار پھر حکومت بنانے کی حق دار ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔

نواز شریف اور عمران خان کی ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ اور ’’بچگانہ سیاست‘‘ سے مایوس پارسا سازوں کے لیے ہماری عدلیہ آخری امید ثابت ہو رہی ہے۔ اس ملک میں اب وہی ادارہ اس قابل سمجھا جا رہا ہے جو بدعنوان سیاستدانوں سے جان چھڑا کر پاکستان کو اس راہ پر ڈال سکے جہاں لوگ وینا ملک کا ’’استغفار‘‘ نہ دیکھیں اور راجیش کھنہ کی موت پر افسردہ نہ ہوں‘ برما کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے بے تاب رہیں‘ اسلامی شعائر کی پابندی کریں‘

اللہ سے لو لگا کر خود کو آخرت کے لیے تیار کرتے رہیں۔ عدلیہ پر کسی بھی قسم کا ’’حملہ‘‘ اب نیکی کی واحد علامت کے خلاف شیطانی حملہ سمجھا جاتا ہے اور ’’بدی کی سب سے بڑی علامت‘‘ آصف علی زرداری بنا دیے گئے ہیں۔ فیصل رضا عابدی ان کے علاوہ کس کا کھیل کھیل سکتا ہے؟

میں یہ کالم فیصل رضا عابدی کے دفاع میں نہیں لکھ رہا۔ میں ان کے بارے میں بنیادی حقائق بھی نہیں جانتا۔ میرا ان سے کسی طرح کا رشتہ یا واسطہ کبھی بھی نہیں رہا۔ وہ جانیں ان کا کام جانے۔ تاہم پتہ نہیں کیوں پیر کی رات سے مجھے بار بار یاد آ رہا ہے کہ پچھلے سال اسی ماہ رمضان میں آصف علی زرداری کے ایک اور جیالے اور متوالے ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی۔ کہا اس وقت بھی یہی جا رہا تھا کہ انھیں آصف علی زرداری نے آنکھ ماری ہے۔

ذوالفقار مرزا نے کئی مہینوں تک بڑا رش لیا پھر خاموش ہو کر ٹی وی اسکرینوں سے غائب ہو گئے۔ مجھے ابھی تک کسی نے نہیں سمجھایا کہ مرزا کو میدان میں اُتار کر آصف علی زرداری نے کون سے سیاسی فوائد حاصل کیے۔ پتہ نہیں کیوں یہ خیال آ رہا ہے کہ اگلے سال رمضان میں ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہوں گے کہ عابدی کو مبینہ طور پر عدلیہ کے سامنے لاکھڑا کرنے کے بعد آصف علی زرداری نے کیا حاصل کیا۔ فی الوقت تو دھماچوکڑی ہے‘ اس سے لطف اندوز ہوں۔ خواہ مخواہ ذہن پر زور ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔

اگر سوچے بغیر رہ نہیں سکتے تو مجھے یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ چیف جسٹس صاحب کے ساتھ گڑبڑ کا اصل آغاز تو ملک ریاض نے کیا تھا۔ آصف علی زرداری کے سچے یا جھوٹے کروڑوں ڈالر تو سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ہیں۔ ملک ریاض کی ریاست جیسی طاقت، وسائل اور پہنچ رکھنے والی ’’بادشاہی‘‘ تو اسی ملک میں ہے۔

وہ ہمارے بڑے سیٹھوں کی صف میں آصف علی زرداری کے صدر بن جانے کے بعد نہیں پہنچے۔ ان کی طاقت اور حیثیت تو جنرل مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے سے پہلے ہی مُسلّم ہو چکی تھی‘ اسی لیے تو وہ جنرل مشرف کے ہوتے ہوئے چیف جسٹس صاحب سے ان دنوں ملاقاتیں کرتے رہے کہ جب وہ معزول ہوا کرتے تھے۔

ملک ریاض جیسے لوگوں کی کامیابی کا اصل راز یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ کے پھڈوں میں اُلجھ کر میڈیا پر چھائے نیکی بمقابلہ بدی والے ڈراموں کا کردار نہیں بنا کرتے۔ ان کی بقا تو میرے اور آپ کی نظروں سے دور کہیں چھپے اس ماحول میں ٹکے رہنے پر ہی ہوا کرتی ہے جہاں پل پل لاکھوں کروڑوں کے سودے ہوتے ہیں‘ لوگوں کی قسمتیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔

وہ جب دھماکا خیز دِکھنے والے مناظر میں گرتے ہیں تو کچھ دیکھ کر ہی گرتے ہیں۔ ایک صحافی کے طور پر میرا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ میں ابھی تک یہ نہیں جان پایا کہ ملک ریاض کیا دیکھ کر گرے ہیں‘ ان کی اصل گیم کیا ہے اور وہ یہ گیم تن تنہا کھیل رہے ہیں یا مقصد کسی کے فائدے کی خاطر کسی کو نقصان پہنچانا ہے۔

یہ بات کرنے کے بعد مجھے ڈرتے ڈرتے یہ اضافہ کرنے کی بھی اجازت دیجیے کہ عدلیہ کی ساکھ کو ’’نقصان‘‘ اس ملک میں صرف آصف علی زرداری کو ہی فائدہ نہیں پہنچا سکتا‘ کچھ اور لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو آصف علی زرداری کی طرح محض ’’ایک فرد‘‘ نہ ہوں۔

بات لیکن عابدی سے چلی تھی اور بیچ میں ملک ریاض آن ٹپکے۔ مجھے عرض صرف اتنا کرنا مقصود تھا کہ دو کو دو کے ساتھ رکھ کر نتیجے میں چار ہی نہ نکالیے‘ ذہن کو وسعت دیں تو دونوں مل کر 22 بھی تو ہو سکتے ہیں۔ فیصل رضا عابدی کو کراچی سے ’’جلاوطن‘‘ ہوئے تین سے زیادہ سال ہو گئے ہیں۔

وہ اسلام آباد نہیں راولپنڈی کے ایک پنج ستاری ہوٹل میں رہا کرتے ہیں۔ وہ ہوٹل ایوان صدر سے بہت دور مگر طاقت کے کچھ اور مراکز کے بہت نزدیک ہوا کرتا ہے۔ ان مراکز کی بھی کچھ ترجیحات ہوتی ہیں‘ طے شدہ ہدف جنھیں حاصل کرنے کے لیے بہت سارے محاذوں پر مختلف النوع کھیل رچائے جاتے ہیں۔

عابدی کو تھوڑی دیر کو بھول کر یہ بھی یاد رکھئے کہ ریاستیں اور خاص طور پر مملکت خداداد پاکستان جیسی ’’دشمنوں میں گھری ریاست‘‘ طاقت کے مرکز کو طے کرنے کی ضمن میں ’’وحدہ لاشریک‘‘ والا رویہ اختیار کیا کرتی ہے۔ کوئی اس کی جگہ لیتا نظر آئے تو برداشت نہیں ہوتا۔

اسی سلسلے میں برداشت تو عوام کے ووٹوں سے بنے بھٹو جیسے وزیر اعظموں کو نہیں کیا جاتا نہ ہی نواز شریف کو جنھیں ’’بھاری اکثریت‘‘ ملی تو اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ مل کر پاکستان اور بھارت کے درمیان کیمپ ڈیوڈ جیسا ’’تاریخی سمجھوتہ‘‘ کرنے کے چکروں میں پڑ گئے۔ اس مملکت خداداد میں طاقت کے اصل سرچشمہ کو جاننے کی کوشش کیجیے۔ عابدی جیسے مہرے آتے جاتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔