عجب طرفہ تماشہ ہے!

مقتدا منصور  بدھ 8 اگست 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

قول علیؓ ہے کہ بغیر کسی واضح ثبوت محض الزام تراشی فتنہ و فساد پھیلانے کا باعث بنتی ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ کوئی بات کہنے سے قبل کئی مرتبہ اس پر غور کر لینا چاہیے مبادا کوئی ایسی بات منہ سے نکل جائے جو سواد اعظم کے لیے نقصان کا باعث ہو کیونکہ کمان سے نکلا تیر اور منہ سے نکلی بات کبھی واپس نہیں ہوتی۔ زبان کا گھائو تلوار کے گھائو سے زیادہ شدید ہوتا ہے۔

ہلکی بات کہنے والے کی اپنی شخصیت کو ملیامیٹ کر دیتی ہے۔ ابن صفی مرحوم نے اپنے ایک ناول میں لکھا تھاکہ دعویٰ بزدل کرتا ہے، حوصلہ مند دعوے نہیں عمل کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ قلب و ذہن کی غلاظت جب منہ کے راستے خارج ہوتی ہے تو اس سے پھیلنے والا تعفن بہت دیر تک فضاء کو آلودہ رکھتا ہے۔ شائستگی اور عامیانہ پن میں وہی فرق ہے جو ستر پوشی اور برہنگی میں ہوتا ہے۔

مستشرقین دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاحی ادارے تعمیر کرنا مسلمانوں کی سرشت میں نہیں ہے۔ اگر کچھ سرپھرے مسلمان یہ کارنامہ سرانجام دیدیں تو ان کے اپنے ہی احباب اسے ملیامیٹ کرنے پر تل جاتے ہیں اور قائم ہونے والے ادارے باہمی نفاق اور سازشوں کے سبب تادیر قائم نہیں رہ پاتے۔ یہی سبب ہے کہ مسلم معاشروں میں فلاحی ادارے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

چونکہ مسلمانوں کے سوا دیگر مذاہب کے ماننے والے سیاسی مفادات اور سماجی خدمت میں خط امتیاز برقرار رکھتے ہیں اس لیے عالمی سطح پر جتنے بڑے، قابل ذکر اور معتبر فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں، وہ سب غیرمسلموں کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔

پاکستان میں اور بھی برا حال ہے۔ یہاں انگریزوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں نے تقسیم سے قبل جو ادارے قائم کیے تھے انھیں تک تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ کراچی سے پشاور تک اور کوئٹہ سے قصور تک ان خیراتی اسپتالوں، زچہ خانوں، اسکولوں، لائبریریوں اور تفریحی مقامات پر نظر دوڑائیے جنھیں پارسیوں، ہندوئوں اور مسیحیوں نے قائم کیا تھا،

وہ آج زبوں حالی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ اس کی ایک مثال کراچی میں یونیورسٹی روڈ پر موجود اوجھا سینیٹوریم ہے، جو قیام پاکستان سے بہت پہلے صاحب ثروت ہندوئوں نے تپ دق کے غریب مریضوں کے علاج کے لیے قائم کیا تھا۔ قیام پاکستان سے قبل یہ ایک معیار ی فلاحی ادارے کے طور پر پورے سندھ میں مشہور تھا۔

تقسیم ہند کے بعد حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث اس کی حالت خراب ہوتی چلی گئی۔ چند برس قبل تک سیاستدانوں اور حکومتی اہلکاروں کی نظریں اس کی وسیع و عریض اور قیمتی زمینوں پر لگی ہوئی تھیں جنھیں مختلف حیلوں بہانوں سے کئی بار فروخت کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

وہ تو بھلا ہو گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کا جنہوں نے ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کے کیمپس کا کچھ حصہ یہاں منتقل کر کے اس کی زمین کو لینڈ مافیا کی چیرہ دستیوں سے محفوظ کر دیا۔ اس قسم کی بیشمار مثالیں ملک کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔

عجب طرفہ تماشہ ہے کہ اقتدار کے اس گندے کھیل میں ایک بار پھر فلاحی اداروں کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وطن عزیز میں سرکاری اسپتال اور تعلیمی ادارے حکمرانوں کی کوتاہ بینی، خود غرضی اور کرپشن کے نتیجے میں تباہی کے آخری دہانے تک جا پہنچے ہیں اور تعلیم اور صحت کا شعبہ ایک منفعت بخش کاروبار کی شکل اختیار چکا ہے۔

ایسے میں لے دے کر عبدالستار ایدھی ٹرسٹ، شوکت خانم کینسر اسپتال اور سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) سمیت گنتی کے چند اور ادارے ایسے ہیں جو عوام سے حاصل ہونے والے عطیات، صدقات، زکوٰۃ اور فطرے کی رقوم سے غریب اور مفلوک الحال شہریوں کو مختلف نوعیت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

اگر ایک طرف ایدھی ٹرسٹ ایمبولنس سروس‘ یتیم و بے سہارا بچوں کی نگہداشت اور لاوارث میتوں کی تدفین جیسی خدمات سرانجام دے رہا ہے تو دوسری طرف شوکت خانم اسپتال کینسر اور سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن گردے اور مثانے کے مختلف پیچیدہ امراض میں مبتلا غریب اور نادار مریضوں کو مفت یا کم خرچ پر علاج معالجے کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

الزام عائد کرنے سے قبل یہ سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ اگر یہ ادارے نہ رہے یا ان کی مالی حالت کمزور ہو گئی تو ان کروڑوں غریب مریضوں کے علاج معالجے کا کیا بنے گا جو پیسے پیسے کو محتاج ہونے کی وجہ سے علاج معالجے کی سکت نہیں رکھتے اور نان شبینہ کو ترس رہے ہیں۔

انھیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں کہ ان اداروں کی بلاامتیاز خدمات اور نیک نامی کی وجہ سے عوام کا ہر طبقہ ہر وقت دامے درمے سخنے ان کی مدد کو تیار رہتا ہے۔ اگر ایک طرف صاحب ثروت افراد وقتاً فوقتاً اپنے عطیات کے ذریعے اس کارخیر میں مسلسل شریک رہتے ہیں تو دوسری طرف کم حیثیت کے حامل شہری بھی ہر سال ماہ رمضان میں اپنے صدقات، زکوٰۃ اور فطرے کی رقم ان اداروں کو عطیہ کرکے ذہنی، قلبی اور روحانی سکون محسوس کرتے ہیں۔

کیونکہ انھیں یقین کامل ہوتا ہے کہ اس کی دی ہوئی رقم غریبوں، مفلسوں اور ناداروں کے علاج معالجہ، بزرگوں اور معذروں کی نگہداشت اور یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت جیسے نیک کاموں پر صرف ہورہی ہے۔ لیکن ان حقیقتوں کو کرپٹ اور بدعنوان حکمران اور سیاستدان کیا سمجھیں گے جو معمولی بیماری کی تشخیص اور علاج کے لیے سرکاری خرچ پر بیرون ملک دوڑے چلے جاتے ہیں اور جنہوں نے اس ملک میں کرپشن، بدعنوانیوں اور غنڈہ گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

سیاست اور فلاحی کاموں میں حد فاصل رکھنا ضروری ہوتا ہے وگرنہ پورا سماجی ڈھانچہ تہس نہس ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس اصول پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ خود برصغیر میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مسلم لیگ نواز اساتذہ اور طلبہ کا زور ہونے لگا تو نیشنلسٹ مسلمانوں کے ایک گروپ نے گاندھی جی کے اکسانے پر 1920 میں علی گڑھ ہی کے مقام پر ایک اور تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

جس کے قیام میں حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار انصاری اور عبدالمجید خواجہ پیش پیش تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے ساتھ ہی دونوں تعلیمی اداروں میں مسابقت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اگر یہ فروغ تعلیم کے حوالے سے ہوتا تو صحت مند ہو سکتا تھا لیکن سیاسی وابستگیوں کے حوالے سے ابھرنے والے تاثر کی وجہ سے مسابقت کے منفی سمت اختیار کرنے کے خطرات پیدا ہوئے تو مسلمان اکابرین نے انتہائی دانشمندی کے ساتھ1925 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کو دہلی منتقل کر دیا۔

دہلی منتقلی اور 1928 میں ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر عابد حسین اور ڈاکٹر محمد مجیب کے اس ادارے سے منسلک ہونے کے بعد کوشش کی گئی کہ اس پر لگی سیاسی چھاپ اور مسلم یونیورسٹی کے ساتھ اس کے ٹکرائو کے تصور کو ختم کیا جائے۔ نتیجتاً اس درسگاہ نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی اور آج یہ اعلیٰ پائے کی جامعہ ہے۔ آج دونوں جامعات بلاتخصیص تعلیم کے میدان میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ چند برس قبل ڈاکٹر مشیرالحسن جامعہ ملیہ کے وائس چانسلر تھے جن کا گہرا تعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تھا۔

مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف اگر یہ سمجھتی ہیں کہ اس طرح گھٹیا الزام تراشیوں کے ذریعے ایک دوسرے کو نیچا دکھا دیں گی تو یہ ان کی بھول ہے۔ الزام تراشیوں کی سیاست سے فائدہ اٹھانے کا دور لد گیا ہے۔ یہ ذرایع ابلاغ کا دور ہے جہاں منہ سے نکلی ہر بات کو ٹھوس شواہد کے ساتھ ثابت کرنا ہوتا ہے۔

الزامات ثابت نہ ہونے کی صورت میں الزام لگانے والے کا اپنا سیاسی مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس قسم کی ٹکرائو کی سیاست کا ان قوتوں کو بالواسطہ فائدہ پہنچ رہا ہے جو اس ملک میں سیاسی نظام کو لپیٹنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ آج ملک جن مسائل و مصائب میں گھرا ہے ان کا تقاضہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں سنجیدگی اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی توجہ ان مسائل کے حل پر مرکوز کریں‘ اس لیے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ اور فلاحی اداروں کو تختہ مشق بنانے کے بجائے ایک وسیع تر اور قابل عمل ایجنڈے کی تیاری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ اب عوام کی نظریں سیاسی شخصیات کے بجائے ان کے ایجنڈے پر لگی ہوئی ہیں۔ لوگ بجلی کے بحران، امن و امان کی مخدوش صورتحال، مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان ہیں اور تبدیلی کے خواہشمند ہیں اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہو گی کہ آیندہ انتخابات کے نتائج حیران کن بھی ہو سکتے ہیں اور بہت بڑے بڑے ستون زمیں بوس بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ابھی سے کہے دیتے ہیں کہ مشتری ہشیار باش۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔