مودی پکوڑے اور افضل گُرو کا خون

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 8 فروری 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

نریندر مودی تقریباً چار سال پہلے بھارتی اقتدار کے مالک بنے تو انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بھارت کی سوا ارب آبادی کے معاشی اور سماجی مسائل ختم کر ڈالیں گے۔ اب انھیں مگر یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ عوام سے کیے گئے وعدے اور دعوے ایفا نہیں ہو سکے ہیں۔ بھارتی سماج میں کٹر ہندومذہبی قوتوں کا ظلم تو یقیناً بڑھا ہے لیکن سماجی مسائل کم ہُوئے ہیں نہ معاشی مصائب میں کمی آسکی ہے۔ بھارت میں اگلے عام انتخابات کے دن بھی قریب آلگے ہیں۔ نریندر مودی اور اُن کی جماعت (بی جے پی) پریشان ہیں کہ وہ کس منہ سے عوام کے پاس ووٹ مانگنے جائیں گے تاکہ دوسری بار بھی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ سکیں۔

اوپر سے کمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) ایسی زبردست سیاسی جماعت کے سربراہ، پرکاش کرت، نے مودی کو اعداد و شمار کا آئینہ دکھاتے ہُوئے کہا ہے:’’نریندر مودی کے اقتدار کے دوران بھارت میں دو کروڑ تعلیم یافتہ بیروزگاروں کا اضافہ ہُوا ہے۔ خوشحال بھارت کے اُن کے وعدے کہاں گئے۔؟‘‘مودی جی کو بڑی مشکلات نے آگھیرا ہے؛ چنانچہ انھوں نے گزشتہ ہفتے اپنے سالانہ بجٹ میں بھارتی دیہی عوام کو زیادہ خوش کرنے کے لیے کچھ مراعات اور سہولیات دینے کا اعلان تو کیا ہے لیکن بھارتی اپوزیشن پارٹیوں نے اُن کے فریب کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ پی چدمبرم ایسے سابق بھارتی وزیر خزانہ مودی جی سے پوچھ رہے ہیں کہ بھارت کی بڑھتی بیروزگاری کا اُن کے پاس کیا عملی حل ہے؟بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی زبان سے نکلے یہ الفاظ اُن کے لیے وبالِ جان بن گئے ہیں۔

بھارتی تعلیم یافتہ مگر بیروزگار نوجوانوں نے مودی کے خلاف احتجاج کا ایک انوکھا طریقہ نکالا ہے۔ یہ نوجوان اپنی ڈگریوں سمیت،گریجویٹ فراغت کے سیاہ گاؤن پہنے بازاروں میں یوں نکلے ہیں کہ اُن کے ہاتھوں میں پکوڑوں سے بھرے ایلومینیم کے تھال تھمے ہیں اور وہ بازاروں اور لاری اڈوں میں یہ آوازیں لگاتے سنائی دے رہے ہیں:’’مودی پکوڑے لے لیں۔ سستے بھی اور گرم بھی۔‘‘ مودی صاحب اس پر سخت ناراض ہورہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کی قیادت میں بھی پکوڑوں کے بارے میں مودی کے خلاف آوازیں اُٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔

سب کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ بیہودہ الفاظ نہیں کہنے چاہیئں تھے۔ اس سے بھارتی تعلیم یافتہ، بیروزگار نوجوانوں کی دل آزاری ہُوئی ہے لیکن مودی کے حواری اور وزرا یہ ماننے اور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ مودی جی کے معتمد ساتھی اور بی جے پی کے مرکزی لیڈر، امِیت شاہ، نے کہا کہ ’’اگر ایک چائے بیچنے والے کا بیٹا  (اشارہ مودی کی طرف ہے) بھارت ایسے مہان ملک کا وزیر اعظم بن سکتا ہے اور اُس وزیر اعظم نے اِس ماضی پر کبھی ندامت کا بھی اظہار نہیں کیا ہے تو پکوڑے بیچنا کونسی بُری بات ہے؟ ہمارے نوجوانوں کو اچھی ملازمت نہ ملنے تک اگر یہ کام بھی کرنا پڑے تو کوئی مذائقہ نہیں ہے۔ آخر پکوڑے بیچنے سے کچھ تو کمائی ہوتی ہی ہے۔‘‘ اِس پر مزید شور مچا ہے۔ ردِ عمل اور ضِد میں بھارتی نوجوان جوق در جوق ’’مودی پکوڑے‘‘ کی آوازیں لگاتے بازاروں میں نکل رہے ہیں تو ہر شہر کی پولیس حرکت میں آکر انھیں گرفتار کررہی ہے۔ پولیس کے اہلکاروں کا اصرار ہے کہ نوجوان پکوڑے ضرور بیچیں لیکن ’’مودی پکوڑے‘‘ کے نام سے نہیں۔ایک نیا تماشہ ہے جس نے مودی کے خلاف سارے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

نریندر مودی جو پہلے ہی بھارت کی آٹھ شمال مشرقی ریاستوں کے مسلّح علیحدگی پسندوں اور (مقبوضہ) کشمیر کے نوجوان و سربکف مجاہدوں سے سخت پریشان ہیں، اِس نئی افتاد نے انھیں مزید نالاں کررکھاہے۔یہ نئی افتاد خود اُن کی اپنی خرید کردہ ہے۔اُن کی غیر محتاط زبان کا شاخسانہ۔ 7فروری2018ء کو بھارتی یونین وزیر، ہنس راج آہیر،نے لوک سبھا(قومی اسمبلی) کو بتایا کہ پچھلے ایک برس کے دوران بھارتی شمال مشرقی ریاستوں میں علیحدگی پسندوں نے 212کی تعداد میں بھارتی فوجی مار ڈالے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کا بحران الگ مودی کے اعصاب پر سوار ہے۔ پاکستان میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو، جسے سزائے موت سنائی جا چکی ہے، کی وجہ سے علیحدہ انھیں دنیا بھر کے سامنے شرمندگی اُٹھانا پڑرہی ہے۔ پاکستان ایسے اپنے سب سے بڑے ہمسایہ کے گھر میں دہشتگردانہ اور خونی مداخلت بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کا کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔فروری کا یہ مہینہ مودی جی کے لیے کئی مسائل اور آزمائشیں لے کر طلوع ہُوا ہے۔

اِسی مہینے میں(مقبوضہ) کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری افضل گُرو شہید کی برسی مناتے ہیں۔ اب پھر 9فروری2018ء کو گُرو شہید کی پانچویں اور11فروری کو مقبول بٹ شہید کی 34ویں برسی پورے جوش وخروش اور جواں جذبوں کے ساتھ منائی جارہی ہے۔ برسی کی یہ تقریبات بھی مودی کے اعصاب پر دباؤ بڑھا رہی ہیں۔دونوں دن مقبوضہ کشمیر کی ’’متحدہ مزاحمتی قیادت‘‘ کی اپیل پر سارا کشمیر بطورِ احتجاج بند رہے گا۔ میر واعظ عمر فاروق نے ٹویٹ کیا ہے :’’بھارت نے مارے خوف کے مجھے نظر بند اور ملک یاسین صاحب اور علی گیلانی صاحب کو پھر حراست میں لے لیا ہے۔‘‘ ایسے ہتھکنڈوں سے بھلا آزادی کی تحریکیں رُکا کرتی ہیں!!مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ،محبوبہ مفتی، نے گزشتہ روز ہی ریاستی اسمبلی میں ایک سوال کا جواب دیتے ہُوئے آن دی ریکارڈ کہا ہے کہ افضل گُرو اور برہان وانی کی شہادتوں کے باوجود کشمیر میں نوجوانوں کی مزاحمتی تحریک میں اضافہ ہُوا ہے۔

کشمیری حریت پسند شہید افضل گُرو کو پانچ سال قبل، 9فروری 2013ء کو، بھارتی ظالم حکام اور اسٹیبلشمنٹ نے دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی تھی۔ افضل گُرو بے گناہ تھے۔ اُن پر یہ الزام بھی ثابت نہیں کیا جاسکا تھا کہ انھوں نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا۔ متعصب اور سنگدل بھارتی ججوں نے مگر یہ کہاکہ گُرو کا جرم تو ثابت نہیں کیا جا سکا ہے ’’لیکن بھارت کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کا تقاضا‘‘ یہ ہے کہ وہ زندہ نہ رہے۔ یوں افضل گُرو کو 9فروری کی شب دھوکے سے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ انھیں کسی دوسری بَیرک میں منتقل کیا جارہا ہے۔ بیوی تبسم، اکلوتے بیٹے (غالب گُرو) اور والدہ محترمہ سے ملنے کی اُن کی آخری خواہش بھی پوری کرنے سے انکار کردیا گیا۔اُن کی اہلیہ ، تبسم  گُرو، کا خط پڑھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ پھانسی دراصل مجبور ومقہور کشمیریوں کی بے بسی کا مظہر بھی ہے۔

پھر کشمیری ظالم بھارتی اسٹیبلشمنٹ پر کیوں اور کیسے اعتبار کریں؟ بھارت کو اپناوطن کیسے مان لیں؟گُرو کو پھانسی کے بعد اپنے وطن، کشمیر، کی مٹّی بھی نصیب نہ ہو سکی۔ بھارتی حکمرانوں نے ڈر کے مارے انھیں تہاڑ جیل کے اندر ہی کہیں دفن کر دیا تھا۔پھانسی کے وقت گُرو کے اکلوتے بیٹے، غالب گُرو، کی عمر صرف دس سال تھی۔ اب غالب گُرو نے پچھلے دنوں ایف ایس سی کے امتحان میں پورے (مقبوضہ) کشمیر میں پہلی پوزیشن لی ہے(غالب گرو نے میٹرک کے امتحان میں  بھی 95فیصد نمبر لیے تھے)سارے کشمیر میں اُن کے نام کا ڈنکا بجا ہے۔

اتنے ذہین بچے کا مگر بھارت ایسے ملک میں کیا مستقبل ہے؟ کشمیری نوجوانوں کو بھارت میں سخت امتیازات کا سامنا ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی بھارتی ریاست، ہریانہ، کی یونیورسٹی میں کشمیری طلباء (آفتاب احمد،امجد علی وغیرہ)کو بھارتی ہندو غنڈوں نے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنا کر لہو لہان کر دیا۔سارے کشمیر ی طلبا اس سانحہ پر سراپا احتجاج بنے ہُوئے ہیں۔ اب یہ مضروب کشمیری طلبا ہریانہ یونیورسٹی سے واپس کشمیر آچکے ہیں۔اس سے قبل راجھستان کے علاقے ’’مارواڑ‘‘ میں بھی کشمیری طلبا پر تشدد کیا گیا تھا۔ اِن  دگرگوں اور غیر یقینی حالات میں ٹاپ کرنے والے نَو عمر غالب گُرو کا بھلا بھارت میں کیا مستقبل ہو سکتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔