قرآنی آیات کی روشنی میں دعا کی اہمیت

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 9 فروری 2018
مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو۔ فوٹو : فائل

مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو۔ فوٹو : فائل

اللہ تعالیٰ ہی سے اپنی تمام تر حاجات اور ساری ضروریات (خواہ ان کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے) مانگنا شریعت میں دعا کہلاتا ہے۔

اللہ رب العزت ہی حاجت روا اور مشکل کشا ہیں، اللہ کے علاوہ نہ تو کوئی حاجت روا ہے اور نہ ہی مُشکل کشا۔ صرف وہی ذات ہمیں فائدہ پہنچا سکتی اور نقصان سے بچا سکتی ہے۔ ہم سب اس کے مملوک اور وہ ذات ہم سب کی مالک ہے۔ ہم سب اس کے در کے فقیر اور محتاج ہیں، وہ غنی اور وہاب ذات ہے، ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا ہے۔ ال غرض ہم بندے ہیں اور وہ آقا ہے۔ اس کریم ذات کا محض اتنا کرم ہی کافی ہے کہ وہ ہم جیسے نالائق، غیر مستحق بل کہ قابلِ سزا و عتاب لوگوں کو اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے، لیکن یہاں تک معاملہ صرف کرم کا ہے اب اْس کرم کی انتہا تو دیکھیے کہ جو اس سے دعا نہ مانگے وہ ذات اس سے ناراض ہوجاتی ہے۔ایک حدیث پاک میں ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : ’’ جو شخص اللہ سے (دعا) نہیں مانگتا تو اس پر اللہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ ‘‘

( جامع الترمذی، باب ماجاء فی فضل الدعاء، حدیث نمبر 3295)

یہ دستورِ دنیا کے بالکل برعکس ہے، کیوں کہ دنیا والوں سے مانگو تو ناراض اور نہ مانگو تو خوش ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہم اس ذات سے اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کی دعا نہ مانگیں تو بتائیے ہم سے زیادہ بے عقل اور کون ہوگا ؟ اس لیے ہمیں اپنی ضروریات کے حل کے لیے دعا کی اہمیت کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ یوں تو مسلمان کے لیے صرف اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مملوک اور بندہ ہے، اس لیے اسے اللہ سے اپنی حاجات اور ضروریات کو مانگنا چاہیے۔ مزید یہ کہ اگر غور کیا جائے تو کئی وجوہات ایسی ہیں کہ جن کا بھی تقاضا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگنی چاہیے۔

ان میں سے چند یہ ہیں :

1 رحمٰن و رحیم

قرآن کریم میں ہے: اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔ (سورہ الفاتحہ، آیت نمبر 2)

یہ بات بالکل واضح ہے کہ بے رحم سے کچھ نہیں مانگا جاتا، رحم کرنے والے سے ہی مانگا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات تو صرف رحم کرنے والی ہی نہیں، بل کہ بے حد رحم کرنے والی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ دعا صرف اسی سے مانگی جائے جو بے حد رحم کرنے والا ہے۔

2 : قدرت کاملہ

قرآن کریم میں ہے، مفہوم: اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 20)

جس ذات سے مانگنا ہے اس کے لیے قدرت والا ہونا بھی ضروری ہے اگر اس کی قدرت ہی نہ ہو تو دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں، وہ مرادیں کیسے پوری کرے گا ؟ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دعا اس سے کی جائے جس کو ہر کام کی مکمل قدرت ہو اور وہ ذات سوائے اللہ رب العزت کے اور کسی کی نہیں۔

3 : قبولیت:

اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو فرماتے ہیں، مفہوم : ’’ اے میرے پیغمبر(ﷺ) ! جب کوئی آپ سے میرے بارے میں سوال کرے تو (آپؐ فرما دیں کہ ) میں قریب ہوں، جب کوئی دعا کرنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں قبول کرتا ہوں۔‘‘ اس کا تقاضا ہے کہ انسان کو ہر وقت اللہ ہی سے مانگنا چاہیے۔

4 : الحی القیوم

بے جان اور کم زور کسی کو کیا دے سکتا ہے اور ایسا زندہ جس کو ہر وقت مرنے کا دھڑکا لگا رہتا ہو، وہ کسی کی حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے۔ اس لیے دعا اس ذات سے مانگنی چاہیے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے، قوت و طاقت والا ہے، کم زور نہیں ہے یعنی اس سے دعا کی جائے جو ’’ الحی القیوم ‘‘ ہے اور وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔

5  : غنی کریم

ظاہر سی بات ہے کہ جو خود کسی دوسرے کا محتاج ہو اس سے کیا مانگنا ؟ مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو۔ اس لیے دست دعا بھی اس کے سامنے دراز کرنا چاہیے۔ غنی کے ساتھ اس کا کریم ہونا بھی ضروری ہے۔ کریم کا مقابل بخیل ہوتا ہے، بخیل سے کچھ نہیں مانگا جاتا اور مانگ بھی لیا جائے تو بخیل نہیں دیتا، اگر دے بھی دے تو ضرورت سے کم دیتا ہے۔ کریم وہ ذات ہے جو استحقاق کے بغیر بھی نواز دے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ہی در کا محتاج بناکر غیروں کی محتاجی سے محفوظ فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔