عدالتی نظام؛ تنازعات اور کش مکش

انصاف میں تاخیر کے اسباب،ریمارکس، سوموٹو ایکشن اور جوڈیشل ایکٹوازم کی کیا حدود ہیں؟،ملک بھر سے اہم ماہرینِ قانون کی رائے۔ فوٹو: فائل

انصاف میں تاخیر کے اسباب،ریمارکس، سوموٹو ایکشن اور جوڈیشل ایکٹوازم کی کیا حدود ہیں؟،ملک بھر سے اہم ماہرینِ قانون کی رائے۔ فوٹو: فائل

 کراچی /  اسلام آباد /  لاہور / پشاور: سماج کے چھوٹے بڑے نزاعی امور عدالت کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں، لیکن اس ایوان میں پیش ہونے کی شروعات مقدمہ درج ہونے سے ہوتی ہے۔

عام شہریوں کو اپنے کسی مسئلے پر مقدمہ درج کرانے کے لیے بھی جان جوکھم میں ڈالنا پڑتی ہے، کیوں کہ تھانوں میں ستم زدہ افراد کی شنوائی نہیں ہوتی۔۔۔ یہ صورت حال اُس صورت میں ہوتی ہے، جب کسی عام فرد کے خلاف پرچا کرایا جا رہا ہو۔ اگر کسی بااثر شخص یا کسی بھی روپ میں چھپے ہوئے بدقماش یا بدمعاش کے خلاف مقدمہ کرانا ہو، تو ہمارے ہاں عام شہری کے لیے یہ ایک امرمحال سمجھا جاتا ہے۔ بعد کے مراحل عدالت میں مقدمے کی طویل سماعتوں اور فیصلہ ہونے تک دراز ہوتے ہیں۔۔۔ بقول شاعر ’کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘ یہ بدقسمتی ہے کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگا کر ’کورٹ کچہری‘ سے پناہ طلب کرتے ہیں۔

قومی عدلیہ پر نگاہ ڈالی جائے، تو 9 مارچ 2007ء میں ہماری عدلیہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جب اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، ان کے انکار پر انہیں معطل کر کے اُن کے خلاف ایک ریفرنس بھیجا۔ افتخار چوہدری مختلف اہم مسائل پر ایسے فیصلے دے چکے تھے، جو حکومت وقت کے لیے ناپسندیدہ تھے۔۔۔ انہوں نے بہت سے سلگتے ہوئے مسائل پر ازخود نوٹس کے ذریعے ایسے حکام سے جواب طلبی بھی کی، جو خود کو کسی بھی جواب طلبی سے مستثنا سمجھتے تھے۔ چناں چہ ملک بھر کے وکلا افتخار چوہدری کی حمایت میں سڑکوں پر آگئے اور انہوں نے اس ’حرف انکار‘ پر بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔

افتخار چوہدری کو ’عدالتی فعالیت‘ کے سبب عوامی حلقوں میں پذیرائی حاصل تھی، اس لیے مختلف شہروں میں اُن کے استقبالی جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس میں مختلف سیاسی جماعتیں بھی شامل ہو گئیں، جب کہ حزب اقتدار کی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر اس عمل کی سخت مخالف تھیں۔ جولائی 2007ء میں ریفرنس میں فیصلہ افتخار چوہدری کے حق میں ہوا اور وہ اپنے عہدے پر بحال ہو گئے۔

اس کے بعد 3 نومبر 2007ء کو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر کے ’پی سی او‘ (Provisional Constitutional Order) نافذ کیا، افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججوں نے اس پر حلف اٹھانے سے انکار کیا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر نئے چیف جسٹس بنے۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کی بحالی سے انکار کیا، جس پر مسلم لیگ (ن) نے تحریک چلائی، پھر 21 مارچ 2009ء کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جسٹس افتخار محمد چوہدری اور نومبر 2007ء کے پی سی اور پر حلف نہ اٹھانے والے دیگر ججوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا۔

اس کے بعد پیپلز پارٹی کے خلاف مقدمات کی سماعت شروع ہوئی، آصف زرداری نے آئینی استثنا کو استعمال کیا اور عدالت میں پیش نہ ہوئے اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے جرم میں عہدے سے فارغ کردیے گئے۔ اس طرح عدلیہ بحالی تحریک کی سرگرم جماعت پیپلزپارٹی کی شکایات شروع ہوئیں، اس کے بعد 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی، تو تحریک انصاف عدلیہ کی سخت ناقد بن گئی اور انہوں نے عدالتی فیصلوں پر جانب داری کے الزامات لگائے۔ پھر پاناما کے مقدمے میں نوازشریف کو وزارت عظمیٰ سے نااہل قرار دیا گیا، تو مسلم لیگ (ن) عدلیہ پر تنقید کرنے والوں میں شامل ہوگئی۔ یوں 2007ء میں زوروشور سے ’آزاد عدلیہ‘ کا نعرہ بلند کرنے والی تینوں بڑی جماعتیں ایک کے بعد ایک عدلیہ کی ناقد ہوئیں!

ہماری عدالتوں میں مقدمہ درج ہونے سے لے کر عدالت تک پہنچنے کے معاملات بھی اصلاح طلب ہیں، سیاسی بنیاد پر بھرتی کی گئی پولیس کس طرح غیرجانب داری سے مسائل ٹھیک کر سکتی ہے۔ اسی طرح پولیس کی جانب سے یہ دعوے بھی سامنے آتے ہیں کہ ہم نے اتنے ملزمان پکڑ کر دیے، لیکن وہ عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں، اس ضمن میں بھی قانونی شگاف پر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بہت سنگین الزام ہے، جس کا مداوا ہونا چاہیے، اس الزام کی آڑ لے کر بدقماش ظالم پولیس افسر ماورائے عدالت قتل کی وارداتیں کرتے ہیں اور معاشرے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر صاف بچ نکلتے ہیں۔

اسی طرح ملزمان کا ریمانڈ لینے کا معاملہ بھی خاصا تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ ملزمان کو عدالت میں پیش کرکے ان کا ریمانڈ لے لیا جاتا ہے، اس ضمن میں قانونی ماہرین کوئی ایسی حکمت عملی ترتیب دے سکتے ہیں، جس میں ریمانڈ دینے کے حوالے سے کوئی واضح اصول طے کیا جائے، کیوں کہ شکایات ہوتی ہیں کہ بے گناہوں کا ریمانڈ لے کر ان سے ’اعتراف‘ کرالیا جاتا ہے۔بہت سے مقدمات کی شنوائی سے فیصلہ سنانے تک ججوں کو مختلف دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔ بالخصوص انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ججوں کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جولائی 2013ء میں کراچی میں دہشت گردوں کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر کے قافلے پر حملہ کیا گیا، جس میں نو افراد جاں بحق ہوئے۔ اس ضمن میں ججوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے، تاکہ وہ کسی بھی دباؤ یا خطرے سے آزاد ہوکر اپنا کام کر سکیں۔

عدلیہ کی اصلاحات کے باب میں ججوں کی کمی بھی ایک بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آتا ہے، آئے دن ایسے مقدمات سامنے آتے ہیں، جو متواتر سماعت کے باوجود کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن مقدموں کو جج مل بھی رہے ہیں، بوجوہ ان کے فیصلے بھی بروقت نہیں ہو پا رہے۔ اگر سماعت کیے جانے والے مقدمات جلد نمٹائے جائیں، تو پھر شاید ججوں کی کمی کی شکایت بھی دور ہو جائے، یا کم سے کم صورت حال زیادہ واضح ہو سکے گی۔

بہت سے مقدمات کی تاریخ ملنے کے بعد وکلا کی ہڑتال یا عدالتی امور معطل ہونے کے سبب سائلین شدید ذہنی اذیت اور کوفت سے دوچار ہوتے ہیں، کیوں کہ پھر مقدمے کے لیے نئے سرے سے تاریخ لینی پڑتی ہے اور یوں مقدمات میں تاخیر در تاخیر کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس کے ساتھ بہت سے وکیلوں کی فیس بہت زیادہ ہے، یہ امر بھی حصول انصاف کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، کیوں کہ بعض اوقات بہتر وکیل نہ ہونے کے سبب انصاف حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ بہت سی عدالتی فیصلوں کے خلاف حکم امتناع لے لیے جاتے ہیں۔ عدالتیں یقیناً اس ضمن میں قانون کے مطابق ہی چارہ جوئی کرتی ہیں، لیکن ایسے قوانین وضع ہونے چاہییں، جن سے ایسا محسوس نہ ہو کہ اپنے خلاف فیصلہ آنے پر فریق حکم امتناعی لے کر صورت حال یا تنازعے کو اپنے حق میں کر لے۔

ہماری 70 سالہ تاریخ میں عدلیہ کا کردار جہاں خاصا متنازع رہا ہے، وہیں اسی ایوان سے قانون کے رکھوالوں نے جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سے اجالوں کی بنیاد بھی رکھی۔ جب جب فوجی آمروں نے جمہوری حکومتوں پر شب خون مارا، تب تب انہیں ریاست کے اس مقدس ایوان سے تائید دی جاتی رہی، تو ہر بار طاقت وَر شخصیات کو اسی مسند پر بیٹھے ججوں نے انکار کر کے آئین وقانون کی پاس داری کا حق بھی ادا کیا، اور اپنے بلند عہدے کی جاہ وچشم پر باعزت گُم نامی کو ترجیح دی۔ متعدد بار پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ یہی نہیں جبر واستبداد کے ادوار میں یہی ایوان اس ملک کے عام شہریوں کی امید کا واحد مرکزومحور بھی رہا۔۔۔ بہتیرے عوامی مسائل کے حل کی امیدیں بھی اسی چوکھٹ پر بر آئیں۔

عدلیہ کو مقنّنہ اور انتظامیہ کے ساتھ ریاست کے بنیادی ستونوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ عدلیہ کے بغیر ریاست کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اس لیے جس طرح مقنّنہ اور انتظامیہ کی کارکردگی ریاست کی مضبوطی پر اثرانداز ہوتی ہے، اسی طرح عدلیہ کا کام بھی کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

مولاناابو الکلام آزاد نے کہا تھا،’’تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔‘‘ برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیںِ، تو ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے، ہم سرخرو ہوں گے۔۔۔ ایک انگریزی مقولے کے مطابق ’انصاف میں جلدبازی کرنا انصاف کو دفن کرنے کے مترادف ہے‘ (Justice hurried is justice buried) لیکن دوسری ایک مثل یہ بھی ہے کہ ’انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف سے انکار ہے‘ (Justice delayed is justice denied) ۔ ریاست اور معاشرے میں عدل کی اس اہمیت کو ہمارے ہاں بھی تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن عملاً ہم ابھی اس منزل سے بہت دور ہیں جہاں انصاف ہر شہری کی دسترس میں ہوتا ہے، اس کا حصول آسان ہوتا ہے اور اس کے ایوانوں کے فیصلے اعتبار کا حصار لیے ہوتے ہیں۔ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہم اس صورت حال سے دوچار ہیں اور کس اصلاحات کے ذریعے ہم اپنے عدالتی نظام کو مثالی بناسکتے ہیں؟ اس حوالے سے ہم نے ماہرین قانون اور سائلین سے سیر حاصل گفتگو کی ہے، جس کا احوال آپ کی نذر ہے۔

 ناصر اسلم زاہد(جسٹس ریٹائرڈ)
پاکستان کے عدالتی نظام میں تو اصلاح کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اسلام میں تو انصاف کو نصف ایمان کہا گیا ہے، یہ ہماری اولین ترجیح انصاف ہونی چاہیے، لیکن انصاٖف کی فراہمی ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ ہم اپنے بجٹ کا ساٹھ فی صد دفاع کے لیے، بیس فی صد انفارمیشن کے لیے مختص کردیتے ہیں، باقی اِدھر اُدھر خرچ کرنے کے بعد جو معمولی رقم بچتی ہے اسے ہم تعلیم، صحت اور انصاف جیسی بنیادی سہولیات کے لیے مختص کرتے ہیں۔ آپ انصاف کو اولین ترجیح دیتے نہیں اور بلاوجہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، اسلامی جمہوریہ پاکستان کہے جاتے ہیں، اسے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بجائے ’نان اسلامک ری پبلک آف پاکستان‘ کہنا چاہیے۔ آپ کچھ کرکے تو دکھائیں کہ جی آپ نے انصاف کے لیے کتنا کام کیا ہے، لوگوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے عدالتوں میں کیا کام کیا ہے؟

آپ کسی بھی عدالت میں جاکر دیکھیں کہ لوگ انصاف کے لیے کس طرح دھکے کھا رہے ہیں، ایک ایک عدالت کے پاس سو سو کیس لگے ہوتے ہیں، اور جب اتنا دباؤ ہوتو پھر کرپشن ہوتی ہے۔ لوگوں کے پاس وکیل کرنے کی استطاعت نہیں ہے۔ یہاں لوگوں کو کہاں انصاف ملتا ہے۔ ہمارے ہاں کتنی لا ریفارم کمیشن رپورٹس بنیں، لیکن کوئی انہیں دیکھتا ہی نہیں اور پارلیمنٹ کو اس بات کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ جب ایک عدالت میں سو ڈیڑھ سو کیس اور ایک جج ہوگا تو کیسے جلد فیصلے ہوں گے؟ وہ ایک دن میں دو کیس دیکھ لے گا باقی موخر ہوجائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک عدالت میں تین چار کیس لگے ہوں، ایک میں آرگیومنٹ لگی ہو، ایک میں شہادت ہو، فارمل کیسز آپ دس پندرہ لگالیں، لیکن اگر پتا چلے کہ دس کیس گواہی کے لگے ہیں، پانچ آرگیومنٹ کے لگے ہیں تو جج تو ایک وقت میں ایک ہی کیس چلائے گا ناں!

گواہ پیش کرنا متعلقہ پولیس افسر کی ذمے داری ہے، لیکن پتا چلتا ہے کہ گواہ پیش ہی نہیں ہوئے تو پھر آپ کو اس پولیس افسر کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمیں تھوڑا پر ایکٹیوہونا چاہیے، حکومت کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ میں نے سٹی کورٹ میں اکثر دیکھا ہے کہ جج صاحب ایک تنگ و تاریک بدبودار کمرے میں بیٹھے ہیں، دروازے کی جگہ ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا ہے، پنکھا تک نہیں ہے۔ آپ پی آئی اے، ایئر پورٹس، سول ایوی ایشن اور دوسرے اداروں کے لیے تو بہت پیسہ خرچ کرتے ہیں تو پھر آپ عدالتوں کے لیے کیوں خرچ نہیں کرتے، دوسری اداروں کی طرح اسے بھی تو فوقیت دیں۔

مقدمات میں تاخیر کا ایک اہم سبب بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے، کراچی کا رقبہ کم اور آبادی ڈھائی کروڑ ہے۔ آسٹریلیا کا رقبہ چین کو نکال کر ایشیا کے برابر ہے اور آبادی پاکستان سے کم ہے۔

ہم ملائیشیا، سنگا پور کے نظامِ عدل کو دیکھ سکتے ہیں۔ ملائیشیا میں نظام انصاف بہت اچھا ہے، لیکن بات یہی ہے کہ وہاں آبادی اور مقدمات کم ہیں۔ قانون میں ہے کہ جج پہلے فریقین سے پوچھے کہ کیس کیا ہے، کیس ڈسکس کرے اور اس کے تصفیہ کی کوشش کرے، لیکن جج کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا، تین چار کیسز کی حد تک تو یہ ممکن ہے، ایک ہزار کیسز کے لیے آپ کے پاس کم از کم دس، پندرہ جج تو ہونے چاہییں۔ 2000ء میں، میں نے ایک تحقیق کی تھی جس کے مطابق اگر ہر قسم کے ججز (سول، کرمنل، اپیلٹ کورٹ، مجسٹریٹ، ہائی کورٹ، سیشن کورٹ ، انکم ٹیکس وغیرہ) کو شمار کریں تو پاکستان، انڈیا اور بنگلادیش میں دس لاکھ کی آبادی کے لیے دس سے پندرہ ججز ہیں، جب کہ انگلینڈ اور کینیڈا میں اتنی ہی آبادی کے لیے ایک سو دس سے ایک سو پچاس ججز ہیں، لیکن جب جج ہے ہی نہیں تو آپ کیا کریں گے؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ افتخار چوہدری بہت اچھے جج تھے، لیکن ان کے پاس آپ سو کیسز لگادیں تو فیصلہ وہ ایک کیس کا ہی کریں گے، باقی تو التوا کا شکار ہوجائیں گے۔ بات صرف ترجیحات کی ہے اور مجھے اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ اسلامی مملکت پاکستان میں نظامِ انصاف کو ہی فوقیت حاصل نہیں ہے۔

 وجیہہ الدین احمد (جسٹس ریٹائرڈ)
اگر ہمیں عدالتی نظام میں اصلاحات لانی ہیں تو سب سے پہلے تاریخ دینے کا طریقہ کار ختم کرنا ہوگا، کیوں کہ یہ رجحان پاکستان میں بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔ وکلا کی جانب سے عدالتوں سے تاریخ مانگنے کی دو وجوہات ہیں۔ وکیل کئی کیسز ایک ساتھ لے لیتے ہیں، دوسرا یہ کہ کیس کی پیروی کے لیے تیاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ تاریخ لے لیتے ہیں۔ وکلا کے تاریخ لینے پر قدغن لگانی چاہیے، اور اگر دی جائے تو اس پر سیرحاصل پنالٹی لگائی جائے۔ مغربی ممالک میں تو کیس کے التوا کا تصور ہی نہیں ہے۔ وہاں تو جج صاف کہہ دیتا ہے کہ اگر وکیل صاحب بیمار ہوگئے ہیں یا کسی اور وجہ سے عدالت نہیں آسکتے تو آپ دوسرا وکیل کرلیں، لیکن ہم کیس کو ملتوی نہیں کریں گے اور کیس ملتوی نہ کرنے کی وجہ سے وہاں ججوں کے پاس کیس اتنے ہی لگتے ہیں جو کہ ایک دن میں نمٹائے جاسکیں۔ اب اگر آپ پاکستان میں یہ سلسلہ شروع بھی کردیں تو یہ جو لاکھوں کی تعداد میں مقدمات التوا میں ہیں ان کا کیا بنے گا؟

ہمارے پاس معقول تعداد میں جج نہیں ہیں، پیرا جوڈیشل اسٹاف نہیں ہے، حد تو یہ ہے پیرا جوڈیشل اسٹاف کے بیٹھنے کے لیے دفاتر تک نہیں ہیں۔ ڈسپوز ہونے والے کیسز کا باقاعدہ ریکارڈ تک نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسی سوسائٹی میں رہتے ہیں جہاں پر جاگیردار، سرمایہ دار اسی انصاف کو مانتا ہے، جو وہ خود کرتا ہے۔ یہ عدالتیں وغیرہ اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ علاقے کا ایس ایچ او تک اس کی مرضی سے لگتا ہے جو اس کے احکامات کا پابند ہوتا ہے۔ عدالتی نظام میں بہتری کے لیے ہمیں معاشرے میں انقلابی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان تما م کاموں کے لیے پیسہ لگتا ہے، میں جس زمانے میں سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تھا تو اس وقت ایشیائی ترقیاتی بینک نے عدالتیں بنانے کے لیے تین سو ملین ڈالر دینے کی پیش کش کی جسے ہم نے مسترد کردیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انصاف کے محکمے کو بھی بیرونی امداد کی ضرورت ہے؟ آپ کی ضروریات کیا ہیں؟ آپ کو عدالت کے لیے عمارتیں بنانے کی ضرورت ہے، عدلیہ میں ججوں، پیرا جوڈیشل اسٹاف کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہے تو یہ کام تو حکومت کے کرنے کے ہیں اس میں قرض لینے کی ضرورت کہاں سے آگئی؟ بات صرف ترجیحات کی ہے۔ آپ سارے کام ایک ساتھ نہیں کرسکتے۔ نہ صرف عدلیہ بلکہ پورے معاشرے کو ٹھیک کرنے کے لیے سب سے پہلے آپ کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا، میر ے نزدیک سب سے اول ترجیح پارلیمنٹ اور دوسری ترجیح عدالتی نظام اور لا اینڈ آرڈر سچویشن ہونی چاہیے۔ ہمارا عدالتی نظام غلط نہیں ہے، یہی سسٹم یورپ میں کام کر رہا ہے، یہی سسٹم شمالی امریکا، جنوبی افریقا، آسٹریلیا اور دنیا کے بہت سے ممالک میں کام کر رہا ہے، بات صرف یہ ہے کہ غلطی ہمارے نظام میں نہیں ہم میں ہے۔ ہم ابھی تک اپنی ترجیحات کا تعین ہی نہیں کرسکے، ہمارے قول و فعل میں بہت تضاد ہے، ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔

ہماری عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں کیسز زیرالتوا ہیں۔ عدالتوں خصوصاً ضلعی عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات جلد نمٹانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے ججوں اور پیرا جوڈیشل اسٹاف کی تعداد بڑھانی پڑے گی۔ لیکن یہ عملی طور پر ممکن نہیں کیوں کہ ہمارے پاس عدالتیں قائم کرنے کے لیے عمارتیں نہیں ہیں۔ ہمیں عمارتیں بنانی پڑیں گی۔ نئی بھرتیوں کے ساتھ ساتھ یہ کام بھی ساتھ ساتھ ہونا چاہیے۔ برطانیہ میں زیرالتوا مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے دو شفٹوں میں عدالتیں لگائی گئیں اور سارے پینڈنگ کیسز ختم کردیے۔ ہمیں تصفیے کا متبادل نظام متعارف کرانا چاہیے، یعنی ایسے کیسز جن میں عدالتی فیصلہ ضروری نہ ہو انہیں ثالثوں کے ذریعے حل کرایا جائے، تھانے کی سطح کے چھوٹے چھوٹے مقدمات پر بھی ثالثی، مصالحت کی نشستیں ہونی چاہئیں۔ بار کونسل کو مزید فعال ہونے کی ضرورت ہے۔

وکلا صاحبان ہر بات پر تو ہڑتال کا اعلان کردیتے ہیں، کوئی چھینک مارتا ہے تو اسٹرائیک کال کردیتے ہیں۔ تو یہ سب چیزیں غلط ہیں، بار کونسل ایکٹ میں اس طرح کی شقیں ہونی چاہئیں کہ جب تک کوئی بہت ہی جائز وجہ نہ ہو تب تک بار کونسل فیصلہ نہ کرے کہ وکلا اسٹرائیک پر جائیں۔ دوسرا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ نہ صرف عدلیہ بلکہ تمام سرکاری محکموں میں ملازمین کی تنخواہوں میں عدم توازن بہت زیادہ ہے۔ ایک سیکریٹری چار لاکھ روپے لے رہا ہے اور چپراسی کو بیس ہزار بھی نہیں مل رہے۔ اگر تنخواہوں میں تضاد اور نچلے اور درمیانے گریڈ کے ملازمین میں پائی جانے والی مایوسی کو آپ نے ختم کردیا تو پھر یہ کانسٹیبل، کلرک یا چپڑاسی بڑے افسران کی غلط بات نہیں مانے گا، غلط کاموں کے لیے تیار نہیں ہوگا یہ باتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ اب یہ سوال کرتے ہیں کہ جی اس کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟

بلاواسطہ محصول کے لیے بارہ لاکھ لوگ فائلرز ہیں، پینتالیس پچاس لاکھ لوگوں کو نیشنل ٹیکس نمبر جاری کیا ہوا ہے، آپ باقی لوگوں سے کیوں نہیں پوچھتے کہ وہ فائل ریٹرن کیوں جمع نہیں کرواتے۔ سوائے عدلیہ کے تمام انتظامی اداروں میں ضرورت سے زائد لوگ بھرتی کیے گئے ہیں، ان میں جو نااہل ، بے ایمان لوگ پیسے لے کر بھرتی کیے گئے ہیں، انہیں نکالنے کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ جی آپ کی تنخواہ یہ ہے اور آپ کے اثاثے یہ ہیں، چوںکہ آپ کے اثاثے آپ کی تنخواہ سے میل نہیں کھاتے، اس کا مطلب ہے کہ آپ بدعنوان ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کو فارغ کر کے نئی اسامیاں نکالنی چاہییں۔ تنخواہیں بڑھانی چاہییں، چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے۔ جب تک آپ کرپشن کو روکنے کا نظام متعارف نہیں کریں گے چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھیں گے، اس وقت تک معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ ان سب اقدامات سے نہ صرف نظام انصاف بلکہ ہر سرکاری ادارے میں کرپشن ختم نہیں تو کم از کم کافی حد تک کم ہوجائے گی۔ اور یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔

ہمارے ہاں عدالتی کارروائی میں اتنا وقت نہیں لگتا، اصل وقت فائل کو دفتر سے جج کے پاس پہنچنے میں لگتا ہے، مروجہ اصول تو یہ ہے کہ جو پرانے کیس ہیں انہیں پہلے اٹھایا جائے اور نئے کیس الماری کی زینت بن جائیں، کیوں کہ زیرالتوا مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ التوا کی دوسری سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ فریقین چاہتے ہی نہیں کہ ان کے کیس کا فیصلہ ہو۔ میںآپ کو ایسے ہی ایک کیس کی مثال دیتا ہوں۔ غالباً 1990میں وفاقی شرعی عدالت میں بینک کے سود کو رِبا قرار دیا گیا۔ یہ کیس نو سال بعد 1999میں سپریم کورٹ کی شریعت ایپلیٹ بینچ میں لگا، میں بھی اس بینچ کا ایک رُکن تھا۔ ہم نے اس کیس کی دو ماہ سماعت کی اور فیصلہ دے دیا کہ جناب بینک کا سود ربا ہے۔ فیصلہ میں نے، مفتی تقی عثمانی اور بینچ کے ایک اور رکن نے لکھا تھا ۔ مشرف دور میں ہم نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا، جس کے بعد انہوں نے اس بینچ میں اپنے لوگ متعین کیے اور ہمارے ہی فیصلے پر نظر ثانی کرکے 2002 میں واپس شرعی عدالت کو بھیج دیا کہ اس کیس پر دوبارہ فیصلہ کرو۔ اور اب سترہ سال بعد بھی یہ کیس زیرالتوا ہے۔ تو کچھ معاملات اس طرح کے بھی ہوتے ہیں جہاں ریاستی عناصر انوالو ہوجاتے ہیں۔ وہ کیس کو یا تو چلنے نہیں دیتے، اور اگر فیصلہ ہو بھی جائے تو اسے الٹے سیدھے طریقے سے خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے عدالتی نظام میں پہلے کی نسبت کافی بہتری آئی ہے۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کی ویب سائٹس پر کیسز کو روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ سول کیسز میں زیادہ وقت گواہی ریکارڈ کرنے میں لگتا ہے۔ اب اس میں بھی جج صاحبان نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوا ہے کہ سنیئر وکلا یا ریٹائرڈ جج صاحبان کے پاس لمبے کیسز بھیج دیے جاتے ہیں کہ آپ گواہی ریکارڈ کریں، اور اسے عدالت کو بھیج دیں، اس ریکارڈ کی بنیاد پر عدالت کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی، وہ صرف بحث اور دلائل سننے کے بعد فیصلہ کردے گی۔ مقدمات کا جلد فیصلہ کرنے کے لیے یہ طریقہ بھی بروئے کار لایا جا رہا ہے۔

زیرالتوا مقدمات کو جلد ختم کرنے کے لیے عدالت کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ جس کیس کو چاہے مصالحت کار یا ثالث کے پاس بھیج دے۔ اس وقت قانون یہ ہے کہ جب تک دونوں فریق اس بات پر متفق نہ ہوں کہ معاملہ مصالحت کاری یا ثالثی میں جائے، اس وقت تک وہ کیس ثالثی میں نہیں جا سکتا۔ ثالثی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مصالحت کار کا فیصلہ حتمی ہے، ثالثی کا مطلب یہ ہے کہ مصالحت کار اپنا فیصلہ دیتا ہے اور اس کے بعد عدلیہ دیکھتی ہے کہ آیا یہ فیصلہ درست ہے یا نہیں، اگر مصالحت کار نے فیصلہ خلافِ قانون یا جانب داری پر کیا ہو تو اسے ختم کردیا جاتا ہے۔ اس طرح کے اور بھی بہت سارے طریقے ہیں جن پر عمل درآمد سے کر کے عدالتی نظام کو اور بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

جہاں تک ویڈیو کو بہ طور شہادت ماننے کا سوال ہے تو بات یہ ہے کہ آج کل ٹیکنالوجی بہت جدید ہوگئی اور اسے کرپٹ کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی قابل اعتبار ویڈیو ہے تو قانون میں جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کی شق موجود ہے۔ لیکن زینب قتل کیس میں گرفتار ملزم عمران اور نشر کی گئی ویڈیو ریکارڈنگ دیکھیں تو ویڈیو میں نظر آنے والے شخص اور عمران کا حلیہ اور جسامت دیکھیں تو شاید یہ وہ فرد نہیں ہے، لیکن ہمارے سورما کہہ رہے ہیں کہ اس کا ڈی این اے نہ صرف زینب بلکہ زیادتی کا نشانہ بننے والی دیگر سات لڑکیوں کے ساتھ بھی میچ ہو رہا ہے۔ ہمارے یہاں تفتیش کا طریقہ کار تو یہی ہے ناں کہ ایک آدمی کو پکڑ کر پرانے چھے سات کیسز بھی اس پر ڈال دیے جاتے ہیں، کیوں کہ انہیں تھانے میں درج کی گئی ایف آئی آر پر اپنی کارکردگی دکھانی ہوتی ہے۔ حالاں کہ ڈی این اے ٹیسٹ فنگر پرنٹ کی طرح بہت پاور فل شہادت ہے، لیکن اب جس ملک میں ڈی این اے کے ساتھ بھی یہ ہوجائے ، یہ بھی نہیں پتا کہ ڈی این اے میچ ہوا بھی ہے کہ نہیں، تو یہاں انصاف کیسے ہوگا؟ کیا فرشتے آئیں گے انصاف کرنے کے لیے؟

افتخار محمد چوہدری سے پہلے کمرہ عدالت میں تبصرے کرنے کی روایت نہیں تھی، وہ اس کام کے بانی ہیں۔ ججوں کی تقرری آرٹیکل 209 کے تحت ہی ہونی چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ جج خود اپنوں کا تقرر کرلیتے ہیں یہ بالکل غلط ہے۔ تقرر کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے ججز، متعلقہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس، وزیرقانون، اٹارنی جنرل مل کر جج کو نام زد کرتے ہیں، یہ تقرری نہیں ہے، پھر یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جاتا ہے وہاں سے منظوری کے بعد وزارتِ قانون کے پاس سے ہوتا ہوا صدر کے پاس جاتا ہے، وہاں جج کا تقرر کیا جاتا ہے۔

عدالتی فیصلوں پر جائز طریقے سے تعمیری تنقید کی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن جس طرح کی تنقید نوازشریف کر رہے ہیں وہ بہت غلط ہے اور ان کی تنقید غداری کے زُمرے میں آتی ہے۔ اگر ہم بات کرتے ہیں ازخود نوٹس کی تو یہ سپریم کورٹ کی پاور ہے، ریاست کے تین اہم ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہیں، اب ان میں سے کوئی ایک ستون کام چھوڑ دے تو پھر سارا بار بقیہ دو ستونوں پر آتا ہے۔ ہمارے ہاں حکومت نام کی تو کوئی چیز نہیں ہے۔ تو اب جو کام حکومت کے کرنے کا ہے وہ کام از خود نوٹس کے ذریعے عدلیہ کر رہی ہے۔

محمد مشفع احمد
(ایڈوکیٹ ہائی کورٹ، ریسرچ اسکالر لا )
معاشرے کے ہر شعبے کی طرح عدلیہ کو اس سے زیادہ اصلاحات اور پورے نظام میں درستی کی ضرورت ہے۔ ہمارے نظام عدل میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام مکمل طور پر ناکام ہے، ہم نے جوڈیشل کونسل کو بھی فعال نہیں کیا۔ اگر ہم بات کرتے ہیں مقدمات میں تاخیر کی تو اس کی پوری ذمے داری ہم عدلیہ پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے، اس میں وکلاء، ہمارا نظام، پولیس ہم سب برابر کے ذمے دار ہیں، جب کہ ہماری وکلا برادری میں اب جو سب سے بڑی خرابی پیدا

ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ جو کچھ نہیں کرسکتا وہ آکر وکیل بن جاتا ہے، اور ایسے وکلا کی وجہ سے بھی مقدمات تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ وکیلوں کے لیے بھی چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہونا چاہیے۔ اسی طرح جوڈیشری خاص طور پر لوئر جوڈیشری میں تعینات ہونے والے ججز کی تربیت مکمل نہیں ہوتی، ان پر اوپر سے نیچے تک کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے ججز کو بہتر ماحول فراہم کیا جائے، ایک عدالت کو تقسیم کرکے وہاں تین عدالتیں بنادی گئی ہیں، آپ نے ایک جج کے کمرے کو منقسم کرکے جج روم کے نام پر تین کھولیاں بنادی ہیں، سہولیات کا بہت فقدان ہے۔ حالیہ برسوں میں ججز اور پیرا جوڈیشل اسٹاف کی تنخواہوں اور مراعات میں تو بہت اضافہ ہوا ہے لیکن ججز اور عملے کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے، ان کی تربیت پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے۔

جہاں تک ججز کے ریمارکس دینے کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ نظام انصاف کو بہتر بنانے کے لیے ججوں کی تقرری اور انہیں ہٹانے کے قوانین میں تبدیلی اشد ضروری ہے۔ پہلے ایک جج کی تقرری میں حکومت، ججز، جوڈیشل کونسل بھی شامل ہوتے تھے، جس کی وجہ سے ایک سسٹم چلتا رہتا تھا، لیکن آج کے حالات میں وہ سسٹم زوال پذیر ہوچکا ہے۔ جوڈیشل کونسل کو بہت مضبوط ہونا چاہیے، لیکن ہم نے اسے غیرفعال رکھ کر عدلیہ پر بہت ظلم کیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اسے فعال کر کے اس میں اعلیٰ پائے کے لوگ رکھے جانے چاہیے، جو ججز کی کارکردگی کو جانچ کر سکیں۔ عدالتی فیصلے کے میرٹ پر تنقید کا طریقۂ کار پوری دنیا میں رائج ہے۔ جج کے فیصلہ کرنے کے بعد آپ اس پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن تنقید کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ اس جج پر ذاتی حملے کریں، الزامات لگائیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں تنقید کے نام پر ذات پر حملوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

جہاں تک بات ہے عدالت کے ازخود نوٹس لینے کی تو یہ تو بہت اچھی بات ہے، ایک عام آدمی جس کی عدالت تک جانے کی حیثیت نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے علاقے میں کوئی غلط کام ہورہا ہے، درخت کاٹے جا رہے ہیں، کوئی کارخانہ پینے کے پانی کو آلودہ کر رہا ہے، اور عدالت کے علم میں آجائے تو پھر عدالت کو خود ایکشن لینا چاہیے۔ عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیے یہ بہت اچھا طریقہ کار ہے۔

 آئی اے رحمٰن
(انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ ، معروف دانشور )
 آج کل اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ مقدمات میں تاخیر ہوجاتی ہے، عدلیہ بار بار کوشش کرتی ہے کہ کسی طریقے سے جلد فیصلے ہونا شروع ہوجائیں۔ ہمارے عدالتی نظام میں ایک مسئلہ اور بھی ہے، ابھی دفعہ 62، 63 کا چکر چل رہا ہے کہ نااہلی تاحیات ہونی چاہیے یا کم ہونی چاہے، ان قوانین میں کہیں خلا موجود ہیں اور کہیں معلوم ہوتا ہے کہ ناکافی ہیں، اس کی وجہ سے تاخیر ہوتی رہتی ہے۔ جہاں تک مقدمات کی تاخیر کی وجوہات کی بات ہے تو اس میں کئی فیکٹرز ہیں، انویسٹی گیشن والے بھی دیر کرتے ہیں، پراسییکیوشن والے بھی دیر کرتے ہیں، پھر دفاع کرنے والے بھی تاریخیں لیتے رہتے ہیں، تاہم بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ مجسٹریٹ اور ججز کم ہیں، جب ایک جج کے سامنے ڈیڑھ سو مقدمات کی لسٹ ہوگی تو وہ کیسے انھیں جلدی چلائے گا۔

گفتگو کرتے ہوئے ریمارکس دیے جاتے ہیں، ان ریمارکس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریقین ان کا کوئی جواب تلاش کریں، ممکن ہے کہ ہمارے ہاں کچھ زیادہ ہوتے ہوں۔ پوچھا گیا کہ کیا ججز کی تقرری اور انھیں ہٹانے کے قوانین میں تبدیلی کی کوئی گنجائش موجود ہے؟ آئی اے رحمن کا کہنا تھا کہ اصل میں ایک گڑبڑ ہوگئی ہے، اٹھارھویں ترمیم میں پارلیمانی کمیٹی کے پاس اختیارات زیادہ تھے لیکن پھر جسٹس افتخارمحمد چودھری نے کہا کہ یہ انھیں قبول نہیں ہے، اب جیوڈیشل کمیشن ہی فیصلے کرتا ہے، بہرحال ابھی اس پر بحث چل رہی ہے، یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ اٹھارھویں تر میم کا زور اس بات پر تھا کہ قائدایوان اور قائدحزب اختلاف ملک وقوم کے مفاد کی خاطر کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں، یہ اصول توبہت اچھا ہے لیکن ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کی بات کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجتاً معاملہ کسی اور کے پاس چلا جاتا ہے۔

عدالتی فیصلوں پر تنقید دنیا بھر میں ہوتی ہے، دوران سماعت کسی مقدمے پر تنقید نہیں ہونی چاہیے، لیکن جب فائنل ہوجائے اور کورٹ فیصلہ کردے تو پھر اس پر تنقید ہوسکتی ہے۔ اس بنیاد پر کہ وہ قانون کی صحیح تعبیر ہے یا نہیں۔ ججز کے کردار پر تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ اب دیکھیں کہ جسٹس منیر کے فیصلے پر سب تنقید کرتے ہیں، سب ہی کہتے ہیں کہ بڑا غلط فیصلہ تھا۔ تاہم تنقید کرنے کا کوئی طریقہ بھی ہونا چاہیے، ججز جب فیصلے کرتے ہیں تو بہت غوروخوض کے بعد ہی فیصلہ کرتے ہیں۔ جو تنقید کرتے ہیں انھیں بھی اتنا ہی علم ہونا چاہیے اور اتنی ہی مہارت ہونی چاہیے۔ وہ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ قانون کی صحیح تعبیر نہیں کی گئی لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ ججز بددیانت ہیں، یعنی عدالت کو اسکینڈلائز نہیں کیا جاسکتا۔

 اسدمنظوربٹ
(سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن)
مقدمات کے التوا میں بہت سے فیکٹرز اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس میں تین پارٹیاں ہوتی ہیں، ایک جس نے دعویٰ کیاہوتا ہے اور ایک دفاع کرنے والی پارٹی ہوتی ہے، جس کے خلاف کیس ہوتا ہے اور ایک کورٹ ہے، تاخیر ان تینوں پارٹیوں میں سے کسی ایک کی طرف سے تعاون میں کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جس پارٹی کے حق میں کیس جارہا ہوگا، وہ جلدی فیصلہ چاہے گی ، جس کے خلاف جارہا ہوگا، وہ کوشش کرے گا کہ فیصلہ ہی نہ ہو۔ کورٹ کا کام ہے کہ دونوں کو ریگولیٹ کرے، وہ اپنے معاملات درست کرے۔ قانون میں جو لکھا ہے سی پی سی کے اندر کہ آپ کو معقول جواز کے بغیر مقدمہ ملتوی نہیں کرنا، اگر ملتوی کرتے ہیں تو اس میں وجہ لکھیں، جب ایسا ہوگا تو مقدمات تاخیری حربوں سے محفوظ ہوسکیں گے۔

جہاں تک جدید سائنسی آلات کے استعمال کا معاملہ ہے، یہ بہت مفید ہے۔ ہماری عدالتوں میں ویڈیولنک کے ذریعے دہشت گردی کے مقدمات یا ایسے کیسز جس کے ملزم کسی اور کیس کے چکر میں کسی دوسری جیل میں ہوں، وہاں سے ویڈیولنک کے ذریعے خصوصی عدالتوں میں مقدمات چلتے ہیں، لیکن ابھی اس عمل کو زیادہ موثر نہیں بنایا گیا، اس لیے پراسس میں دیر ہوجاتی ہے۔ اگر حکومت ان کا سسٹم مناسب انداز میں چلائے تو یہ ایک بہترین ذریعہ ہوسکتا ہے۔ ڈی این اے ایک بہت موثر ذریعہ شہادت ہے لیکن ہمارے ملک میں ڈی این اے کی تشخیص اور اس کے باقی پراسس کے لیے اچھی لیبارٹریز نہیں ہیں۔ حکومت پنجاب نے بھی ایک فرانزک ٹیسٹ لیبارٹری بنائی ہے، اس کے علاوہ کوئی بہت اچھی لیبارٹریز نہیں ہیں۔ نتیجتاً ڈی این اے رپورٹس کی بنا پر جو مدد ملنی چاہئے تھے، وہ نہیں مل رہی۔ اگر حکومت توجہ دے تو یہ ایک بڑی مدد ہوگی۔

جہاں تک ججز کے متنازع ریمارکس کا معاملہ ہے تو ہمیشہ سے یہ اصول ہے کہ ججز عدالت میں نہیں بولتے، جج اپنا ذہن کسی پر منکشف نہیں کرسکتا کہ وہ کس کے حق میں جارہا ہے۔ ہاں! وہ کسی چیز کی وضاحت کے لیے سوال پوچھ سکتا ہے۔ اس کا کام ہے کہ وہ کیس کو باقاعدہ اندازمیں سنے، جوابات سنے، اس کے بعد ڈاکومنٹس دیکھے، شہادتیں دیکھے، پھر دونوں پارٹیوں کی بحث سنے اور پھر اپنے فیصلے کے ذریعے بولے۔ اس کے فیصلے کے ذریعے پتا چلے کہ اس نے سارے کیس کا احاطہ کیا اور پھر اس کا فیصلہ کیا ہے، اس سے پہلے کسی کو برا بھلا کہنا یا کسی کے لیے توہین آمیز ریمارکس دینا کسی جج کے شایان شان نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی جگہ تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی بڑی جمہوریتیں ہیں جیسے امریکا یا یورپ میں برطانیہ، وہاں یہ رواج نہیں ہے کہ ججز کھلے عام ریمارکس دیں۔ وہ بات کرسکتے ہیں، سوالات اٹھاسکتے ہیں صرف اس لیے کہ وہ صورت حال کو سمجھنا چاہتے ہیں لیکن وہ کسی پارٹی کے رویے پر تبصرے نہیں کرتے، وہ کسی کیس کا پری میچور فیصلہ نہیں کرتے۔

ہمارے ہاں ججز کی تعداد کم ہے، حکومتیں غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے بوجھ بڑھتا ہے، اگر حکومتی ادارے اپنے فرائض باقاعدہ سرانجام دیں تو بہت سے کیس عدالتوں میں نہ جائیں، بلکہ وہ محکموں ہی میں حل ہوجائیں۔ اس اعتبار سے حکومتی اداروں میں بھی بہتری آنی چاہیے، وہ قانون کی عمل داری کو یقینی بنائے اور خود بھی قانون اور آئین کے مطابق چلے، دوسری بات یہ ہے کہ آبادی کے مطابق، اس کے تناسب کے حساب سے معاشرے کا نیٹ ورک بننا چاہیے۔ نچلی عدالتوں سے لے کر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک، اس کے پروسیجر اور رولز اینڈ ریگولیشنز ہیں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا آئین میں طریقہ لکھا ہوا ہے، لہٰذا انھیں بھرتی کرنے کا، نکالنے کا یا چھوڑجانے کے لیے طریقہ کار بالکل موجود ہے جو قانون کے مطابق ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس طریقہ کی خلاف ورزی نہ ہو۔

عدالتی فیصلوں کا تجزیہ کرنے اور ان پر اپنی رائے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے الا یہ کہ آپ نفرت کا اظہار کریں۔ آپ اپنا موقف دے سکتے ہیں، فیصلوں پر گفتگو کرسکتے ہیں، البتہ ججز کے فیصلہ کرنے کی وجوہات اور ان کی ذات کو ڈسکس نہیں کیا جاسکتا۔ فیصلے کے نتائج اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر آپ بحث کرسکتے ہیں، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

جہاں تک ازخود نوٹس لینے کا معاملہ ہے، میرے خیال میں وہ پاکستان جیسے معاشرے میں بالکل ٹھیک ہے جہاں حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریوں سے ہٹ کر غیرذمہ دارانہ طریقے سے دوسری ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مثلاً پولیس حکم رانوں، وزیروں اور مشیروں کی حفاظت پر اپنا زیادہ وقت صرف کرتی ہے، عوام جس کے ٹیکس پر وہ پل رہے ہیں، ان کے مفادات کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتی، لہذا سوموٹوایکشن اس لحاظ سے بہت موثر ہے کہ اگر عدالت چوکس اور ہوشیار ہے تو وہ اداروں کو ان کی ذمے داریاں ادا کرانے کے لیے اس طرح کے نوٹس لے سکتی ہے، اس میں کوئی برائی نہیں ہے، لیکن جب کورٹ سوموٹوایکشن لے تو کسی پارٹی کے درست یا غلط ہونے پر اپنی رائے نہ دے، اسے قانون کے مطابق ڈیل کرے، اس کا مزید معاملہ متعلقہ عدالتوں یا محکموں کی طرف بھیجے، خود اس کا ٹرائل ورک نہ شروع کردے۔ اگر وہ خود ٹرائل کرتی ہے تو غلطی کرنے والے کا اپیل کرنے کا حق ختم ہوجاتا ہے، یہ بذات خود زیادتی ہے۔ اگر کیس ایک چھوٹی عدالت میں ہو تو بڑی عدالت میں اپیل کرنے کا راستہ موجود ہوتا ہے، اگر وہی فیصلہ بڑی عدالت کرے گی تو وہ پھر کہاں جاکر انصاف مانگے گا؟ سوموٹوپاور بہت اہم ہے، پاکستان جیسے ملک میں بہت موثر ہے لیکن توازن قائم رکھا جائے۔ اگر ایک شخص نے کوتاہی کی ہے تو وہ اپنی کوتاہی کے برابر ہی کوتاہی کا ذمہ دار ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر مشتاق احمد
( چیئرمین شعبہ قانون، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)

ہمارا عدالتی اور قانونی نظام انگریزوں کا وضع کردہ ہے، درمیان میں ہم نے اسلامی قانون کی باتیں بھی شامل کی ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ قانون کے اندر آپ بہت کچھ اسلامی لے آئے ہیں لیکن جو عدالتی نظام ہے وہ بنیادی طور پر برطانوی اسٹرکچر پر کھڑا ہے۔ اس وجہ سے جج کے جو اختیارات ہوتے ہیں وہ وہی ہیں جو برطانیہ کے نظام میں جج کے پاس ہوتے ہیں تو ہم اس کو ایڈورسرئیل سسٹم کہتے ہیں، اس میں ایک مدعی ہے اور ایک مدعا علیہ ہے یا کریمنل کیس میں ایک استغاثہ ہے اور ایک ملزم ہے۔ ایک پارٹی نے دوسرے پر الزام لگایا، دوسری پارٹی کو صفائی پیش کرنی ہے، بارِ ثبوت اس پارٹی پر ہے جس نے دعویٰ کیا ہے اور ملزم کو معصوم سمجھا جائے گا جب تک اس کے خلاف جرم ثابت نہ ہو۔ جج ان دونوں کو دیکھتا ہے اور دونوں نے دعویٰ اور جواب دعویٰ پیش کیا، دونوں نے جو شواہد پیش کیے ان کے جائزے کے بعد، انہی تک محدود رہتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے۔

اسلامی نظام میں قاضی ہوتے تھے۔ اس میں ایسا نہیں تھا۔ اس میں قاضی کا کام اصل میں عدل کو یقینی بنانا تھا اور یہ اس کی ذمے داری تھی، اس وجہ سے اگر قاضی محسوس کرتا اگر وہ کسی اہم چیز کو سامنے نہیں لے کر آ رہے جس کا تعین کیے بغیر عدل ممکن نہیں یا اگر ایک پارٹی مظلوم ہو لیکن وہ یہ ثابت نہیں کرپا رہی کہ وہ مظلوم ہے لیکن قاضی کو اندازہ ہو رہا ہے تو بار ثبوت اس پارٹی پر نہیں ہو گا، بلکہ قاضی حکومتی مشینری کو استعمال کرے گا اور پتا چلائے گا کہ کیا واقعی اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے یا نہیں۔ سول لا سسٹم میں اس قسم کے اختیارات بہت سارے ممالک میں یہ اب بھی رائج ہیں، اسے انکوئزیٹوریل (Inquisitorial ) سسٹم کہتے ہیں۔

اس میں قاضی اپنی طرف سے سوال بھی متعین کر سکتا ہے، کوئی ایشو بھی فریم کرسکتا ہے، وہ شواہد اکٹھے کرنے کے لیے ذمے داری بھی سونپ سکتا ہے۔ قاضی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے۔ پاکستانی نظام میں چوںکہ ایڈورسرئیل سسٹم ہے اس میں اگر ہم فوجداری مقدمات کو لیں، ان میں ڈرائیونگ سیٹ پر جج نہیں بیٹھا ہوتا بلکہ استغاثہ ہوتا ہے۔ استغاثہ جو الزام لگائے گا اسی کو ہم دیکھیں گے۔ اس وجہ سے جب چالان عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ استغاثہ نے اپنی اسٹوری بیان کرلی، یہ اس کا محرک ہے اور فلاں بندہ اس کا مرتکب ہے۔ اس کو ہم پراسیکیوشن اسٹوری کہتے ہیں۔ مدعا علیہ کو اس کا جواب دینا ہے کہ وہ جوابی اسٹوری دے۔ جج کو ان دونوں کو دیکھنا ہے۔ ممکن ہے کہ پراسیکیوشن نے غلط اسٹوری بنائی ہو، اس کا فائدہ ملزم کو پہنچ رہا ہو، ملزم بااثر شخصیت ہو یا استغاثہ اپنا صحیح کردار ادا نہیں کر رہا ہو۔

جنرل مشرف کے دور میں ہم نے پولیس کے نظام میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ اب تفتیش کا ایک الگ شعبہ ہوتا ہے، استغاثہ ایک الگ شعبہ ہوتا ہے۔ اب جو پراسیکیوشن آفیسر ہے اس کے پاس چابی ہے، وہ تفتیش میں کوئی کمی بیشی کرے گا تو اس کے نتیجے میں چالان کم زور ہوگا۔ استغاثہ کے پاس بھی کوئی چوائس نہیں ہوتی۔ حالیہ شاہ رخ جتوئی کیس کو مثال کے طور پر لے لیں۔ اس میں استغاثہ کہے کہ مقتول کے وارث نے معاف کردیا ہے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں تو عدالت کے پاس کوئی اختیار نہیں، مقتول کا وارث اپنا حق تومعاف کرسکتا ہے لیکن اس بندے نے ایک مخصوص فرد کے ہی حق کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ اس نے پورے معاشرے کو ہلایا ہے۔ اس میں پھر اسٹیٹ کا حق بھی شامل ہے۔ اب سپریم کورٹ کے جج کے پاس انکوئزیٹوریل پاور ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی یہی کہا ہے کہ اس میں انسداد دہشت گردی کی جو دفعات تھیں ان کو ختم کرکے آپ نے غلط کیا ہے انہیں دوبارہ شامل کریں۔

میرے نزدیک عدالتی نظام میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جج ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں بیٹھا ہوا۔ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر جج کو آپ انکوئزیٹوریل پاور دیں، تو اس کے نتیجے میں یوں نقصان ہو سکتا ہے کہ جج منتقم مزاج ہو اور کسی پارٹی کے ساتھ اس کی نہ بنتی ہو، یہ خدشات ہیں، ظاہر ہے وہ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہے جس میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ہوتے ہیں۔ اس امکان کو روکنے کے لیے کوئی میکنیزم ہونا چاہیے، دوسری جانب ایڈورسرئیل سسٹم میں بہت سارے نقائص ہیں جو روز روشن کی طرح عیاں ہیں، اس کے باوجود ہم اس پر چل رہے ہیں۔ کچھ مسائل ایڈورسرئیل سسٹم میں ہیں اور کچھ مسائل انکوئزیٹوریل سسٹم میں بھی ہوں گے۔ اگر آپ جج کو انکوئزیٹوریل پاور دیں گے، سارے مقدمات جو استغاثہ کی کم زوری کی وجہ سے یا تفتیشی کے ملزم کے ساتھ مل جانے کی وجہ سے جو مسائل پیش آتے ہیں وہ نہیں ہوں گے۔ ہاں اگر یہ سسٹم کوئی مسائل پیدا کر رہا ہے تو اسے روکنے کے لیے آپ کو کچھ اور اقدامات کرنا ہوں گے یہ تو فوجداری مقدمات کا معاملہ ہے۔

دیوانی مقدمات لوگوں کو دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ ہمارے پاس جو ضابطہ دیوانی ہے وہ انگریزوں نے1908 میں بنایا تھا۔ آج 2018 ہے، اسے 110 سال ہو گئے ہیں۔ درمیان میں چند ایک اصلاحات ہوئی ہیں لیکن اس پورے دیوانی ضابطے کی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ انگریزوں نے ہمیں جو دیوانی نظام دیا تھا اس ضابطے کا مقصد مقدمے کا خاتمہ نہیں بلکہ اسے لٹکانا ہے، کاز آف ایکشن اس میں اتنے لوگوں کو حاصل ہوتا ہے کہ جو مقدمہ اصلاً دو فریقوں کے درمیان ہوتا ہے، اس میں آٹھ، دس مزید شامل ہو جاتے ہیں، اور پھر ان فریقوں کی وجہ سے معاملہ مزید لٹک سکتا ہے۔ اس میں مقدمے کے التواء کے اس قدر راستے ہیں کہ آپ سوچ نہیں سکتے۔ اس طرح کے بہت سارے مسائل عدالتی نظام میں ہیں۔

مقدمات میں تاخیر کا ایک بہت بڑا سبب وکلاء ہیں، سب سے زیادہ ذمہ دار طبقہ وکلاء کا ہے، وکیل کی روزی روٹی مقدمے کے ساتھ وابستہ ہے، یہ معاملہ سود خور جیسا ہے، سود خور کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کا قرضہ ادا ہو۔ اگر قرضہ ادا ہوا تو اس کی آمدنی رک جائے گی۔ بہرحال تمام وکیل ایسے نہیں ہوتے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر مقدمہ لٹکا رہے تو خود وکیل کی روزی روٹی خطرے میں پڑ جاتی ہے کہ تم مقدمہ حل نہیں کرا سکتے تو بندہ آپ کے پاس کیوں آئے، ظاہر ہے کہ فیصلہ ہونے میں بھی اس کی بہتری ہوتی ہے۔ بالخصوص سنیئر وکیلوں کے ساتھ یہ بڑا سنگین مسئلہ بن جاتا ہے، لوئر کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہوتا ہے اور اس کا اسسٹنٹ وکیل کورٹ میں آ جاتا ہے کہ وکیل صاحب کسی اور مقدمے میں ہائی کورٹ میں ہیں، اگر وکیل قدآور ہو تو جج بے چارہ کچھ نہیں کر سکتا، اگر وہ کچھ کرنے کی کوشش کرے تو بار کی سیاست نے انتہائی جارحانہ شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ججوں کے کمروں کو تالا لگا دیا جاتا ہے، جج پر حملے بھی ہوتے ہیں، جج کے ٹرانسفر کے مطالبے بھی شروع ہوجاتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ لوئر کورٹ میں ججوں کی بہت بری حالت ہوتی ہے۔ بار کی جانب سے ان پر بہت زیادہ پریشر ہوتا ہے، بار کے پولیٹیکل لیڈرز وکیل کم اور سیاسی راہ نما زیادہ ہوتے ہیں۔

افتخار چوہدری صاحب کے دور میں وکلاء کو طاقت ملی ہے، اس کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہوا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ لوئر کورٹ کے ججز کی پوزیشن بہت زیادہ کم زور ہوگئی ہے، حتیٰ کہ اب تو ہائی کورٹ کے ججز کو اس قسم کے رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرے نزدیک مقدمات کی تاخیر میں ایک تو ہمارے پروسیجر لاز ہیں اور دوسرے وکلاء، ایک اور بھی سبب ہے جسے عام طور پر لوگ نہیں دیکھتے۔ انگریزوں نے یہ تو کیا کہ صوبے کی سطح پر ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ کی سطح پر دیوانی مقدمات میں ڈسٹرکٹ جج اور فوجداری مقدمات میں سیشن جج، یعنی فوجداری مقدمات میں مجسٹریٹ اور دیوانی مقدمات میں سول جج لگادیا۔ ستر سال ہو گئے ہمیں آزاد ہوئے، ہم اسے مزید گراس روٹ پر نہیں لے جا سکے۔ اگر ہم یونین کونسل کی سطح تک عدالتی نظام کو لے جائیں اور یونین کونسل کی سطح پر چھوٹے مقدمات جن کا فیصلہ ایک یا دو سماعتوں میں ہوجانا چاہیے وہ ایک لوکل مسئلہ ہوتا ہے گواہ بھی وہیں ہوتے ہیں فریقین بھی وہیں ہوتے ہیں اور اسی یونین کونسل میں آپ کسی وکیل کو فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیں، وکیل کرنے کی اجازت نہ دیں تو سول ججز پر جو بہت زیادہ بوجھ ہوتا ہے کم ہو جائے گا اور بہت سارے وکیل جو وکالت کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ کورٹس میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ یونین کونسل کے مقدمات کا فیصلہ کریں گے اور ان کی روزی روٹی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔

مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے لیگل ایجوکیشن کو بہتر کیا جائے، بار پولیٹیکس کو کنٹرول میں کیا جائے، وکیل اپنے پروفیشن کی طرف توجہ کریں اور ججز بھی اپنا کام کریں۔ پنجاب میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس (جو اب سپریم کورٹ میں آچکے ہیں) منصور علی شاہ نے اے ڈی آر (آلٹرنیٹو ڈسپیوٹ ریزولیشن) پر توجہ کی، انہوں نے ججز کو بھی اے ڈی آر پر لگایا، اس کا مطلب ہی ’متبادل‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے، آپ نے ایک اعتراف کر لیا کہ آپ کا اصل عدالتی نظام کام نہیں کر پا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ متبادل کی طرف جا رہے ہیں، اور متبادل نظام میں بھی آپ انہی ججوں کو بٹھا رہے ہیں، بہرحال اے ڈی آر ہونے چاہییں البتہ اس کے لیے میکنزم بھی ہونا چاہیے، اسی کے نتیجے میں آپ عدالتوں پر بوجھ کم کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں پنچایت اور جرگہ کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کئی کئی سال مقدمہ لٹکنے کی بجائے جلدی فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اس میں کچھ تیکنیکی مسائل بھی ہوتے ہیں جنہیں مناسب نگرانی کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، دنیا اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ عدالتوں میں آکر فیصلے کرانے کا معاملہ کم سے کم ہونا چاہیے، صرف عدالتوں میں نہیں بلکہ عدالتوں کے باہر جو مختلف فورمز ہیں ان میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ لوگوں نے جرگوں اور پنچایت کا ہوا بنا لیا ہے لیکن اسی کو آپ اے ڈی آر کے طور پر لے جائیں تو لوگ مان جاتے ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع تو ہوا ہے لیکن ہم ابھی بہت پیچھے ہیں، اس میں بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے، آپ جتنا زیادہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے جائیں گے تو اس کے فائل ورک کو مینیج کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ویڈیو کو شہادت ماننے کا مسئلہ بہت حد تک حل ہو چکا ہے، ہمارے قانون شہادت میں اس میں سے کچھ باتیں قبول بھی کی ہوئی ہیں، مثلاً سائبر کرائم، الیکٹرانک کرائم کے حوالے سے، لیکن ظاہر ہے ٹیکنالوجی دو دھاری تلوار ہے، متحرک تصویر میں بھی بہت کچھ کمی بیشی کی جا سکتی ہے اور یہ ثابت ہو چکی ہے۔ ویڈیو شہادت کو قبول کیا بھی جاتا ہے لیکن اس میں احتیاط والی بات ہی ہے۔ چوںکہ جج ہر چیز کا ماہر تو نہیں ہوتا اگر میڈیکل کا کوئی ایشو ہے تو جج ڈاکٹر نہیں ہوتا، اس معاملے میں وہ میڈیکل رپورٹس طلب کرتا ہے اور ان پر اعتماد کرتا ہے کہ آدمی پاگل ہے یا پاگل بنا ہوا ہے۔ یہی بات اس معاملے میں بھی آپ کر سکتے ہیں کہ اس فیلڈ کے ماہرین کی رائے پر اعتبار کر سکتے ہیں صرف آڈیو یا صرف ویڈیو کو بذات خود تسلیم نہیں کیا جاسکتا، اس کے ساتھ ماہر کی رائے ہونی چاہیے۔

جہاں تک ڈی این اے کا معاملہ ہے وہ بھی ایک ماہر کی رائے ہوتی ہے، ورنہ ڈی این اے بذات خود تو کچھ نہیں کہہ سکتی، لیبارٹری کی رپورٹ سامنے رکھنے کے بعد، سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ فلاں کی ہے، جس طرح فنگر پرنٹس میں چیک کیا کرتے تھے کہ یہ فنگر فلاں کی ہیں یا نہیں ہیں۔ لیکن اس میں بھی انسان اسے سمجھنے میں غلطی کر سکتا ہے بعض اوقات نادانستہ ہوتی ہے اور بعض اوقات دانستہ ہوتی ہے اور غفلت بھی ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ چیزیں بھی ہوتی ہیں کہ دو ڈی این اے سیمپلزمکس اپ بھی ہوسکتے ہیں، اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں سب کچھ آئیڈیل ہے۔ بعض معاملات میں ڈی این اے کو قبول کیا جاسکتا ہے اور بعض معاملات میں نہیں، مثلاً ریپ کے معاملے میں ڈی این اے ہو گا بالخصوص جب یہ معلوم کرنا ہو کہ ریپ کے نتیجے میں حاملہ ہونے والی خاتون کا بچہ ریپ کرنے والے کا ہے یا نہیں، لیکن زنا کی سزا کے معاملے میں ڈی این اے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زنا کا الزام بہت بھاری الزام ہوتا ہے اور شریعت نہیں چاہتی کہ لوگ ایک دوسرے پر یہ الزام لگاتے پھریں، شریعت یہ چاہتی ہے کہ لوگوں پر پردہ رہے۔ شریعت یہ کہتی ہے کہ اگر آپ کے پاس چار گواہ ہیں تو آپ عدالت میں آ سکتے ہیں ورنہ آپ خاموش رہیں۔ فقہا کہتے ہیں کہ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ حق کی گواہی دے لیکن جہاں تک زنا کا معاملہ ہے، وہاں آگے بڑھنے کی بجائے گواہی کے لیے نہ آنا باعث ثواب ہے۔ اصلاً شریعت چاہتی ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں نہ آئے تو اس وجہ سے ڈی این اے باقی معاملات میں قبول ہو سکتی ہے لیکن زنا کے معاملے میں نہیں۔

ججوں کے متنازع ریمارکس اور تقاریر کا معاملہ خاصا سنگین ہوچکا ہے۔ اس کے کئی پہلو ہیں۔ یہاں یہ مسئلہ اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جج فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں، ان کے ذہن میں برطانوی نظام کا جج ہوتا ہے جو خاموش بیٹھتا ہے۔ وہ ایڈورسرئیل سسٹم کا جج ہوتا ہے، اسے صرف فریقین کو دیکھنا ہے اور ان کی باتوں کو سننا اور نوٹ کرنا ہے اور پھر فیصلے کے ذریعے بولنا ہے، جہاں جج انکوئزیٹوریل  پاور رکھتا ہے وہاں جج بولتا ہے، حتیٰ کہ آپ کے قانون شہادت میں جج کے سوال کرنے کا اختیار بھی موجود ہے، لوئر کورٹ کے جج کو بھی یہ اختیار حاصل ہے لیکن وہ بے چارہ وکیل کے سامنے بول بھی نہیں سکتا، وہ اگر سوال کرنے لگتا ہے تو اس کے لیے کوئی اور مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسے اختیار حاصل ہے کہ وہ کوئی بھی سوال کسی بھی فریق سے پوچھ سکتا ہے، جب وکیل کوئی شہادت پیش کرتے ہیں تو ان کے بارے میں یہ شرط ہے کہ وہ کیس سے متعلقہ ہو، وکیل غیرمتعلقہ چیز عدالت میں پیش نہیں کر سکتا، لیکن جج جب سوال کرے گا تو اس پر متعلق ہونے کی شرط نہیں لگائی جاسکتی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کے پاس سوال کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ بالخصوص دستوری معاملات میں، اس معاملے میں وہ زیادہ سے زیادہ سوالات کرسکتے ہیں۔ لیکن ججز تماشائیوں اور میڈیا کو خوش کرنے کے لیے میڈیا کے ذریعے لوگوں کو مخاطب کرنے کے لیے ایسا نہیں کر سکتے، یہ سلسلہ پچھلے دس پندرہ سالوں کے دوران چل پڑا ہے، جیسے ججز محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بھی عوام کو مخاطب کرنا چاہیے یہ نہیں ہونا چاہیے، لیکن اصولی طور پر جج کے پاس سوالات کرنے کا اختیار بھی ہے اسے کرنا بھی چاہییں۔

اگر ججز کی تعداد کا معاملہ سپریم کورٹ سے متعلق ہے تو یہ مسئلہ ہے، امریکا میں سپریم کورٹ کے سات ججز ہوتے ہیں لیکن وہاں کی سپریم کورٹ کے سامنے کیسز بہت کم آتے ہیں، وہ صرف آئینی مقدمات ہوتے ہیں، ہمارے ہاں سپریم کورٹ اپیل کورٹ بھی ہے، کریمنل کیسز، سول کیسز اور بعض اوقات فیملی کیسز بھی اس کے پاس آجاتے ہیں، ان کیسز کا بہت بوجھ ہوتا ہے۔ دوسرا آئینی مقدمات پچھلے کچھ عرصہ سے بہت زیادہ آرہے ہیں، اس حوالے سے ایک تجویز کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کہ آئینی عدالت کی حیثیت سے سپریم کورٹ کو الگ حیثیت دی جائے اور کورٹ آف اپیلٹ کے طور پر سپریم کورٹ بالکل ایک مختلف کردار ادا کرے۔ تقسیم کار اس طرح ہوجائے کہ سپریم کورٹ کو ہم آئینی عدالت کہیں، وہ صرف آئینی مقدمات لے اور کورٹ آف اپیل کے طور پر بالکل ایک الگ عدالت ہو، ظاہر ہے اس پر ججز کبھی ہنسی خوشی آمادہ نہیں ہوں گے، کوئی بھی اختیارات سے محروم نہیں ہونا چاہتا، لیکن آج یا کل ایک نہ ایک دن ہمیں اس پر سوچنا تو پڑے گا۔

ججز کی تقرری اور ہٹانے کے قانون میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہے۔ ہمارے ججز کے پاس وہ سارے اختیارات ہیں جو امریکا کی سپریم کورٹ کے ججز کو حاصل ہیں، لیکن ہمارے ججز پر احتساب کا وہ نظام نہیں ہے جو امریکا میں ہے۔ وہاں ججز کی تقرری صدر کرتا ہے لیکن ان کی توثیق سینیٹ کرتی ہے۔ وہاں کے ججز ساری عمر کے لیے ہوتے ہیں اگر کوئی از خود ریٹائر ہونا چاہے تو وہ الگ بات ہے، لیکن ان کو سپریم کورٹ مواخذہ کی صورت میں ہٹا سکتی ہے۔

ہمارے ہاں نظام یہ ہے کہ ججز کا تقرر بھی ججز کرتے ہیں اور انھیں ہٹاتے بھی ججز ہی ہیں، جو پارلیمانی کمیٹی ہے وہ بے چاری کچھ نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نام پیش کرتا ہے، جوڈیشل کمیٹی اسے ڈسکس کرتی ہے۔ اس کے بعد پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ یقیناً ہم نے ایک عام شہری کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر سکتا ہے لیکن وہاں کارروائی ان کیمرا ہوتی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے اکا دکا مثالوں کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں ہٹایا۔ اس وجہ سے انہیں ایک مکمل شیلڈ حاصل ہے۔ ججز کی تقرری اور انہیں ہٹانے کے لیے امریکی مثال کو اختیار کرنا چاہیے۔ سینیٹ میں تجربہ کار لوگ ہوتے ہیں، جب یہ اختیار آپ سینیٹ کو دیں گے تو لوگ سینیٹرز کو منتخب کرنے میں بھی احتیاط کریں گے۔ اگر سینیٹ کے پاس ججز کو مقرر کرنے اور انہیں ہٹانے کا اختیار ہو تو کم از کم ججز پر چیک کا سسٹم لاگو ہوجائے گا۔ ججز کو کسی چیک سے ماورا نہیں ہونا چاہیے، جس طرح فوجی جرنیلوں کو کسی چیک سے ماورا نہیں ہونا چاہیے، ہاں! آپ شرائط لگا سکتے ہیں کہ فلاں فلاں الزامات ہوں تو ججز کو ہٹایا جا سکتا ہے اور اسی طرح ججز کی تعیناتی کو شفاف بنانے کے لیے آپ کچھ شرائط رکھ سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم امریکا کی مثال کو ہوبہو نقل کریں، ہم اپنے معاشرے کو دیکھتے ہوئے اس میں مناسب تبدیلیاں کر سکتے ہیں۔

مقدمات کی تاخیر میں پولیس کا بہت اہم کردار ہوتا ہے، ضابطہ فوجداری کے تحت پولیس ہی چالان پیش کرتی ہے، اگر وہ کہے کہ ہمیں مزید تفتیش کرنی ہے بندہ مزید ہماری حوالگی میں دے دیں تو اسے ہم پولیس ریمانڈ کہتے ہیں۔ وہ چودہ دن تک اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس کے بعد آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں مزید چودہ دن دے دیں اور اس طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ریمانڈ میں دینے کا مطلب ملزم کی کھال کھینچ لینے کا اختیار دینا ہے، حالاںکہ قانون میں ایسا کچھ نہیں ہے، اسی طرح پولیس کے پاس یہ سہولت بھی ہوتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ لین دین کرکے کم زور سا چالان پیش کر دے، آگے کی ساری کہانی اس چالان پر منحصر ہے، چالان میں جو اسٹوری بیان کی گئی اسی کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہے، یوں وکیل صفائی کا کام آسان ہو جاتا ہے کیوںکہ ملزم کے بارے میں یہ مفروضہ ہوتا ہے کہ وہ جرم ثابت ہونے تک معصوم ہے۔ اگر چالان کم زور ہے تو جج کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسے بری کر دے، چاہے باعزت بری کرے چاہے شک کا فائدہ دے کر بری کردے۔ بعض اوقات لوئر کورٹ سزا دے دیتی ہے لیکن ہائی کورٹ اس میں تخفیف کردیتی ہے اور سپریم کورٹ تک جاتے جاتے کیس کم زور ہو جاتا ہے اور سپریم کورٹ کو اسے چھوڑنا پڑتا ہے۔

یہ جو فوجی عدالتوں کی مثال دی جاتی ہے۔ اس میں کہا جاتا ہے کہ عدالتیں دہشت گردوں کو چھوڑ دیتی ہیں اور سزائیں نہیں دیتیں، لیکن اس میں اصل مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ آپ صحیح تفتیش نہیں کرتے، صحیح چالان پیش نہیں کرتے، آپ اس سے تشدد کے ذریعے اعتراف کرا لیتے ہیں لیکن وہ عدالت میں آ کر اپنے اعتراف سے انکاری ہوجاتا ہے، عدالت سے ایسے اعتراف کو نہیں مانتی، اگر آپ نے اگر اس کی فون کالز ٹیپ کی ہیں اور وہ بھی قانونی اجازت کے بغیر کی ہیں تو غیرقانونی طریقے سے حاصل کی گئی شہادت کو عدالت کیسے قبول کرسکتی ہے، لیکن اگر آپ عدالت سے اجازت لینے کی بات کریں کہ ہم فلاں بندے کا فون ٹیپ کر لیں پھر ہماری ایجنسیاں تو یہ بات نہیں مانتیں، ایسے میں عدالت اس شہادت کو کیسے قبول کر سکتی ہے جو قانونی طور پر ناجائز ہے۔

آپ کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس نے جرم کیا ہے لیکن آپ کو تو عدالت میں اسے ثابت کرنا ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہم ملٹری کورٹس بنا لیتے ہیں، انہیں وہاں سے سزا دلا دیں گے لیکن آپ دیکھیں کہ اڑھائی سالوں میں ملٹری کورٹس نے کتنے لوگوں کو سزائیں دی ہیں، آپ یہ اعداد و شمار اکٹھے کر لیں کہ وہاں کتنے مقدمات آئے ہیں اور کتنے مقدمات کا فیصلہ ہوا ہے تو آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ سارا معاملہ ہی غلط تھا، گنتی کے چند مقدمات وہاں گئے اور ان میں بھی فیصلے نہیں ہوپائے۔ اگر آپ پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا وہاں شہادت اور سزا کا کوئی ذکر نہیں ہے، سارا قانون صرف اس مقصد کے لیے بنایا گیا کہ ہم بندوں کو اپنی حراست میں رکھیں اور کوئی ہمیں نہ پوچھے کہ کہاں رکھا ہے اور کیوں رکھا ہے۔

عدالتی فیصلوں پر ضرور تنقید ہونی چاہیے دنیا کے تمام مہذب ممالک میں یہ حق مانا گیا ہے بالخصوص قانون پڑھانے والوں اور قانونی ماہرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مقدمات کے فیصلوں پر تفصیلی تنقید کریں اور ان کی اچھی اور بری باتوں کا جائزہ لیں۔ امریکی سپریم کورٹ کے مشہور جج جسٹس اولیور ہومز نے امریکی سپریم کورٹ کے ایک مشہور فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا، اس میں ایک بڑا دل چسپ جملہ لکھا کہ مشکل مقدمات کی طرح بڑے کیسز کے نتیجے میں جو قانون سامنے آتا ہے وہ بہت بُرا ہوتا ہے۔ بڑے کیسز سے مراد وہ جن میں ججز پر بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے، جو میڈیا پر بہت زیادہ نمایاں ہوئے ہیں جن سے لوگوں کو بہت زیادہ توقعات وابستہ ہوں، جب ان کیسز کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو ہومز کے بقول وہ صحیح فیصلہ نہیں ہوتا، ہارورڈ کے ایک پروفیسر کی کتاب کا عنوان یہی ہے کہ بڑے مقدمات برے قانون کو جنم دیتے ہیں، اس کتاب میں انہوں نے امریکا کے چوبیس بڑے بڑے کیسز کو جمع کرکے تجزیہ کیا کہ ان کے نتیجے میں جو قانون بنے وہ صحیح تھے یا غلط۔ انہی تجزیوں اور تبصروں کے نتیجے میں قانون آگے بڑھتا ہے اور اصلاح کا موقع ملتا ہے۔

جہاں تک ازخود نوٹس لینے کا معاملہ ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس یہ اختیار ہے کہ متعلقہ ادارے کسی چیز کو صحیح طور پر نہیں لے رہے وہ چیف جسٹس آف پاکستان (چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نہیں) کے طور پر اسے سب پر سپروائزر کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ از خود نوٹس لے سکتا ہے اور یہ اس کی ذمہ داری بھی ہے اسی طرح شریعت کورٹ کو بھی یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی قانون شریعت سے متصادم ہے تو کوئی بھی اس قانون کو شریعت کورٹ میں چیلینج کر سکتا ہے کہ یہ شریعت سے متصادم ہے اس لیے اسے کالعدم قرار دیا جائے، اس پر شریعت کورٹ خود بھی نوٹس لے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بنیادی حقوق کے معاملے میں یہ اختیار حاصل ہے لیکن ہر چھوٹے موٹے معاملے پر نوٹس لینے سے یہ اختیار غیرموثر ہو جائے گا پھر لوگ اس کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے۔ ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر آپ ہر معاملے میں نوٹس لینا شروع کر دیں تو متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے غافل ہوجاتے ہیں اور لوگ بھی ہر معاملے میں عدالت کی طرف دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ سوموٹو کا لفظ ہر ایک کو پسند آ گیا ہے، حتیٰ کہ بڑے بڑے وکلا بھی سپریم کورٹ سے کہتے ہیں کہ وہ از خود نوٹس لیں۔ حالاںکہ انہیں پٹیشن دائر کرنا چاہیے، اگر آپ سپریم کورٹ میں آنا چاہتے ہیں تو آپ کو پٹیشن دائر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

 اعتراز احسن
(سینیٹر اور معروف قانون داں )
عدالتی نظام میں بنیادی طور پر ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے جو تاخیر کے بجائے میرٹ پر فوری انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، کیوںکہ یہ ایک عمومی مشاہدہ ہے کہ مقدمات کے فیصلے کئی دہائیوں تک نہیں ہوپاتے، یہاں تک کہ بعض اوقات مختلف کیسز میں ملوث ملزمان کی قید کا دورانیہ ان کی اصل سزا سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ عدالتی نظام میں اصلاحات سے جڑی دوسری چیز قانونی شہادت، ثبوت کی دست یابی اور عدالت کو ان کی فراہمی سے متعلق ہے۔ خاص طور پر فوجداری مقدمات میں گواہوں کو تحفظ اور پولیس کے تفتیشی نظام میں اصلاح بہت ضروری ہے۔ مقدمات کی شنوائی اور ان کے فیصلوں میں برسوں کی تاخیر کی متعدد وجوہات ہیں۔ فوجداری مقدمات تو اکثر استغاثہ کی نااہلی کا شکار ہوتے ہیں جب کہ دیوانی مقدمات میں کم از کم ایک فریق تاخیر سے فائدہ اٹھانے کی شعوری کوشش کرتا ہے۔

لہٰذا ان تاخیری حربوں سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہرجانے کے قانون کو مزید بہتر اور زیادہ موثر بنایا جائے، تاکہ جو بھی تاخیری ہتھکنڈے استعمال کرے اسے ہر اُس پیشی پر جس پر وہ التوا کی استدعا کرتا ہے، مناسب قیمت ادا کرنا پڑے۔ یوں ایک کیس کی کئی تاریخیں بچ سکتی ہیں، کیوں کہ جب متعلقہ بندے کو یہ پتا ہو گا کہ اسے ہر پیشی پر بھاری ہرجانے ادا کرنا پڑے گا تو وہ زیادہ مستعدی اور سرعت سے اپنا کام کرے گا۔ اس کے علاوہ عدالتوں کی طرف سے بھی مقدمات تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، مجسٹریٹ، سول جج، ڈسٹرکٹ جج اور اعلٰی عدالتوں کے ججز اکثر نام زد کیے جانے والے مقدمات مقررہ تاریخوں پر نہیں سنتے، وہ کئی مرتبہ چھٹی پر چلے جاتے ہیں یا کیسز کے فیصلے محفوظ کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ کیسز کی مقررہ وقت پر شنوائی اور جلد ازجلد فیصلوں کے اجراء کو یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔ وڈیو کو شہادت ماننے اور ڈی این اے ٹیسٹ کی بطور ثبوت حیثیت کی بابت میں یہ کہوں گا کہ قانونِ شہادت کی دفعہ 264 کے تحت ثبوت فراہم کرنے کے لیے انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

حامد خان
(سینیر قانون داں اور وکیل راہ نما )
عدالتی نظام میں اصلاحات کے لیے فوری طور پر چار اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے عدالتوں میں ججز کی ناکافی تعداد مسائل کو گمبھیر بنا رہی ہے، ججز کم ہونے سے کیسز کی شنوائی سالوں نہیں ہو پاتی اور مقدمات تاخیر کا شکار رہتے ہیں۔ لہٰذا ججز کی موجودہ تعداد میں دو سے تین گنا اضافہ کیا جائے، خصوصاً پنجاب میں جو آبادی کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، ججز کی تعداد میں زیادہ اضافے کی ضرورت ہے۔ دوسرا کیس مینجمنٹ بہت ضروری ہے، جس کے لیے ہر سطح پر الگ شعبہ بنایا جائے، جو میرٹ پر کیسز کی تاریخ مقرر کرکے ان کی شنوائی کو یقینی بنائے۔ یہاں کسی کی مرضی نہ چلے یعنی کوئی بااثر ہے تو اس کا کیس پہلے ہے، جو کم زور ہے اس کا کیس کئی کئی سال نہ سننے کی کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ تیسری چیز تربیت سے متعلق ہے، ٹھیک ہے! جوڈیشل اکیڈمی بنائی گئی ہے، لیکن یہ ناکافی ہے۔

تربیت کی فراہمی کے لیے ہر سطح پر اکیڈیمیز بنائی جائیں۔ چوتھا اقدام احتساب اور خوداحتسابی ہے۔ اس شعبے میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوری معاشروں میں کوئی شخص وہ چاہے کسی بھی عہدہ پر ہو آئین و قانون سے ماورا نہیں ہوتا۔ وڈیو اور ڈی این اے ٹیسٹ کی بطور ثبوت حیثیت یونیورسل اصول ہے۔ دنیا بھر کے عدالتی نظاموں میں ماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی یہ رائج ہو چکا ہے، تاہم یہ تاحال براہ راست ثبوت کے طور پر استعمال نہیں ہوتا، لیکن ایسا ہونا چاہیے۔ اس تناظر میں اہم بات یہ ہے کہ جب آپ کو کوئی جرم ثابت کرنا ہوتا ہے تو اس میں بطور خاص اس کا خیال رکھا جانا ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہو۔

دنیا بھر میں ججز کسی کیس کی شنوائی کے دوران متنازع ریمارکس تو دے دیتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں یہ پریکٹس کچھ زیادہ ہی ہے۔ ججز کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلوں کے ذریعے بات کریں۔ کیس کی شنوائی کے دوران سوالات پوچھنے چاہئیں، لیکن غیرمتعلقہ کمنٹس مناسب نہیں۔ ہمارے عدالتی نظام میں ازخود نوٹس بہت اہم چیز ہے، یہ ایک اچھا اقدام ہے، جو اچھے مقاصد کے لیے ہوتا ہے اور ماضی میں اس سے اچھے کام ہوئے بھی ہیں، لیکن اس کا بہت زیادہ استعمال مناسب نہیں، لہذا میرے خیال میں اس اختیار کا استعمال Selective ہونا چاہیے۔

 محمد اظہر صدیق
(چیئرمین جوڈیشل ایکٹویزم پینل و ایڈووکیٹ سپریم کورٹ)
عدالتی اصلاحات سے قبل مقننہ اور انتظامی اصلاحات کی ضرورت ہے، تاکہ غیرضروری مقدمات عدالت تک پہنچ ہی نہ پائیں جیسے کسی کا پرچا درج نہیں ہو رہا، جائیداد منتقلی، ٹرانسفر پوسٹنگ کا معاملہ ہے یا بجلی گیس کا کنکشن نہیں لگ رہا۔ دوسرے مقننہ کو چاہیے کہ مقدمات کی نوعیت کا تعین کردیا جائے۔ یعنی مثال کے طور پر جائیداد کے کیسز 3 ماہ، ٹرانسفر پوسٹنگ ایک ماہ اور پرچے کا اندراج 10 روز کے اندر ہونا چاہیے۔ اچھا اب بات کی جائے عدالتی اصلاحات کی تو سب سے پہلے نیب اور اینٹی کرپشن جیسے عدالتوں میں جو تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں، ان کا قلع قمع کیا جائے۔ اکثر اوقات تاخیر پراسکیوشن کی وجہ سے ہوتا ہے، لہٰذا پراسکیوشن کو تاخیر پر بھاری جرمانہ کیا جائے، تاکہ وہ اپنا کام مقررہ وقت پر دیانت داری سے کر سکے۔ دوسرے عدالتیں ہر کام کے لیے خصوصی بنچ تشکیل دے دیں، کچھ ججز صرف پرانے کیسز سنیں اور انہیں مزید کوئی کیس نہ دیا جائے، مثال کے طور پر اگر ایک جج کو تین سو پرانے کیسز دیے گئے ہیں تو ان کو نمٹانے تک انہیں نیا کیس نہ دیا جائے اور انہیں روزانہ شنوائی کرتے ہوئے مقررہ وقت میں کیسز نمٹانے کی ہدایت کی جائے۔

مقدمات کے التوا پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی کئی وجوہات ہیں، ایک تو ہم وکیل لوگ ہیں، جو اسٹے لینے بھاگ جاتے ہیں، لہٰذا جب قانونی طور پر یہ طے ہو جائے گا کہ کون سا کیس کتنےروز میں مکمل ہونا ہے تو پھر ایسے تاخیری حربے استعمال نہیں ہوسکیں گے۔ دوسرا یہاں چھوٹے پرچوں کا بڑا رجحان ہے، جس کا خاتمہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے، جب قانون میں ترمیم کرکے جھوٹا مقدمہ کرنے والے شخص کو سزا دی جائے گی۔ عدالتوں میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جانا چاہیے اور لاہور میں تو کمپیوٹر آ بھی چکے ہیں، جن سے کام لیا جا رہا ہے، البتہ کمپیوٹر ریسرچ سیل بنانے کی ضرورت کو مدنظر رکھا جائے، جہاں ججز خود بیٹھیں۔ ویڈیو اور ڈی این اے ٹیسٹ براہ راست شہادت نہیں، لیکن اس کے لیے قانون میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا ہونا چاہیے یعنی ویڈیو اور ڈی این اے ٹیسٹ کو براہ راست شہادت تسلیم کیا جانا چاہیے اور اس میں اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت بھی کی جائے تاکہ کوئی شہادت اسلامی تعلیمات سے متصادم نہ ہو۔ جہاں تک ججز کے متنازع ریمارکس کا تعلق ہے ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دیگر ممالک کی عدالتوں میں بھی ہوتا ہے، لہذا یہ کوئی بڑی بات نہیں، لیکن یہ ریمارکس صرف ریمارکس ہوتے ہیں اور فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوتے۔

ججز کی تعداد آبادی کے تناسب سے ہونی چاہیے اور اس میں بھی ان علاقوں میں ججز زیادہ ہونے چاہیں جہاں قانونی معاملات زیادہ ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں ہائی کورٹس کے اندر ججز کی تعداد کم از کم دو سو ہونا چاہیے۔ رہی بات ججز کی تعیناتی اور انہیں ہٹانے کی تو اس ضمن میں پہلے ہی مناسب قواعد و ضوابط تو موجود ہیں، لیکن میرے خیال میں تعیناتی کے حوالے سے آرٹیکل 193 میں ترمیم کرتے ہوئے اس میں 62،63 کا معیار بھی اپنایا جانا چاہیے تاکہ اس ضمن میں کوئی سقم باقی نہ رہے۔ عدالتی فیصلوں پر تنقید کے سوال پر چیئرمین جوڈیشل ایکٹویزم پینل نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کی قانونی پوزیشن پر تنقید میں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن ’’میں نہ مانوں‘‘ کا رویہ درست نہیں۔ میرے خیال میں تو عدالتی فیصلہ نہ ماننے یا لوگوں کو اس فیصلے کے خلاف اکسانے پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔ ازخود نوٹس ایک آئینی اقدام ہے، جسے قائم رہنا چاہیے، تاہم اس میں آپ صرف اتنی ترمیم ضرور کر دیں کہ وکیل کو اپیل کا اختیار مل جائے۔

عابد ساقی
(ماہر قانون و سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن )
ججز کے متنازع ریمارکس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کی عدالتوں میں عموماً ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ ان ریمارکس کی کوئی حیثیت بھی نہیں ہوتی۔ ججز کو سوال جواب اور پوچھنے کا حق ضرور حاصل ہے لیکن عدالت کی طرف سے کسی کے لیے سسلین مافیا یا گارڈ فادر جیسے الفاظ استعمال کرنا مناسب نہیں۔ ججز کے ریمارکس کے حوالے سے کوئی آئینی یا قانونی حدود و قیود بھی ہیں؟ کے سوال پر ماہر قانون کا کہنا تھا کہ جی بالکل! ججز کا اپنا کوڈ آف کنڈکٹ ہے، جس میں یہ تمام چیزیں واضح طور پر موجود ہیں، لیکن افسوس! ہمارے ہاں الگ ہی روایات ہیں، یہاں چیف جسٹس کے بیٹے پر راتوں رات ارب پتی بننے کا الزام لگتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ لہٰذا میرے خیال میں موجودہ نظام انصاف ناکام اور صرف طاقت ور کے لیے ہے، مظلوم یا غریب لوگوں کو یہاں کچھ نہیں ملتا۔

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہمارے ملک خداداد کے تمام ریاستی اداروں میں اب بھی انگریزوں کے بنائے گئے قوانین، قواعد وضوابط اور طور طریقے عام ہیں۔ ملک کو آزاد ہوئے 79سال کا طویل عرصہ گزرگیا مگر ہمارے سیاست دانوں اور حکم رانوں کو کبھی یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ وہ اپنے ملک کے لیے ایسے قوانین اور پالیسیاں بناتے جو یہاں کے عوام کے اجتماعی مزاج ان کی روایت، تہذیب اور کلچر کے مطابق ہوتیں اور ان میں دور جدید کے تقاضوں اور نئے چیلنجز کے ساتھ آگے بڑھنے کی سکت موجود ہوتی اس ساری صورت حال کے اصل ذمہ دار ہمارے ملک کے سیاست دان اور سیاسی ومذہبی جماعتیں ہیں، کیوں کہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں ہمارے مقننہ ادارے ہیں مگر ان اداروں تک رسائی کے لیے ہماری سیاسی جماعتیں ان افراد کو ٹکٹ دیتی ہیں، جو آئین اور قانون کے الف ب سے بھی واقف نہیں ہوتے، ان کی اہلیت اور قابلیت کا پیمانہ دولت، ثروت اور شان وشوکت مقررکیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ایسے لوگ جب ان ایوانوں تک پہنچتے ہیں تو ان کا مطمع نظرآئندہ ووٹ کے حصول کے لے سرگرم ہونا ہوتا ہے۔ ’’ملا کی دوڑ مسجد تک‘‘ والی بات ہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر اداروں کی طرح ہمارے عدالتی نظام میں بھی کوئی خاطر خواہ اور قابل ذکر تبدیلی نہیں لائی جاسکی اور اب بھی وہی پرانے طورطریقے، قواعد وضوابط کا راج چلا آرہا ہے جو ہمیں انگریزسرکار نے’’تحفتاً‘‘ چھوڑا ہے۔

دنیا کے اکثر ماہرین قانون نے قانون اور رسم کے تاریخی رشتے پرزوردیا ہے، چوں کہ قدیم زمانے میں رسوم کوہی قانون کا درجہ حاصل تھا، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے کل قوانین کا غالب حصہ بھی قدیم رسموں سے یادگار ہے۔ بقول ولیسٹرمارک ’’ لوگ قوانین کی پابندی اسی لیے کرتے ہیں کہ وہ پرانی رسموں پرمبنی ہیں۔‘‘ اسی طرح رسوم اوراخلاق میں بھی گہرے رشتوں وپیوندکا مطالعہ کیاجاسکتاہے، تاریخی پہلو سے اخلاق کی صورت میں پرانی رسموں ہی کی عقلی تعبیر کی گئی ہے، کسی معاشرے میں پائی جانے والی رسمیں اس کے مروجہ اخلاق کو جانچنے میں مدد دیتی ہیں۔ لہٰذا ہمارے ہاں جو قوانین موجود ہیں ان میں ہماری اپنی رسموں اور اپنی ثقافت کا رنگ و اثر اس مقدار اور معیار کا نہیں، جو ہونا چاہیئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارا عدالتی نظام بہت سی ایسے اصلاحات کا متقاضی ہے جن کے ذریعے عوام کو جلد از جلد اور سستا انصاف دلایا جاسکتا ہے۔

محمد سلیم خان ایڈووکیٹ
(معروف قانون دان، قوم پرست رہنماء اور سابق ایم پی اے)
ہمارے ہاں جو عدالتی نظام برسوں سے چلا آرہا ہے یہ انگریزسرکار نے اس وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا تھا اور کچھ اس طریقے سے کہ یہاں کے عوام کی اکثریت ان عدالتوں کے چکر کاٹتی رہیں، معاشی اور سماجی طور پر خوار ہوتے جائیں، انہیں اتنی فرصت نہ دی جائے کہ وہ انگریزسرکار کے خلاف کسی بغاوت یا تحریک کا حصہ بن سکیں۔ اسی خاطر عدالتی نظام کو اتنا پیچیدہ بنایا گیا کہ لوگ اپنے مقدمات میں پھنسے رہے، کبھی ایک تاریخ اور کبھی دوسری تاریخ یعنی اس جال سے نکل نہ پائیں۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو آج ملک کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور جیسے جیسے آبادی بڑھتی ہے اس کے ساتھ لوگوں کے مقدمات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی آبادی اور زیرالتواء مقدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے ججوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیئے جس کے لیے ملک میں جوڈیشل کمیشن موجود ہے۔ اس کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کا انتخاب کرے جو اہل، تجربہ کار اور قانون سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہوں۔ ہمارے ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسے افراد کو ٹکٹیں دے دیتی ہیں جو اسمبلیوں میں پہنچ کر بھی ملک کے آئین اور قانون کے بارے میں سفید کاغذ ہوا کرتے ہیں۔ بھلا ایسے لوگ ہمارے لیے قانون کس طرح بناسکتے ہیں یا موجودہ قوانین میں ترمیم، اضافہ اور اصلاحات کیسے لاسکتے ہیں۔ ان کی مرکز نگاہ اور ترجیح تو صرف اپنے لیے زیادہ سے زیادہ دولت کمانا، اپنی شان وشوکت بڑھانا اور بلدیاتی نمائندوں کے فرائض سرانجام دینا ہوتے ہیں۔

پھر دورجدید کے جو نئے چیلنجز ہیں ان کے مطابق ہمیں اپنا پورا عدالتی نظام درست کرنا ہوگا۔ ان میں عصری تقاضوں کے مطابق نت نئی تبدیلیاں، ترامیم اور اصلاحات لانی ہوں گی، مقننہ کا سب سے اہم اور بنیادی ادارہ صوبائی اور قومی اسمبلی ہے مگر ہمارے ہاں اسمبلیاں سیاسی پہلوانی کے اکھاڑے بن چکے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے فرصت نہیں ملتی۔ ان کی ذاتی اور سیاسی دل چسپی کا محور ومرکز نوکریاں، تبادلے اور تقرریاں ہوتی ہیں۔

سلیم خان ایڈووکیٹ کے مطابق جدید ٹیکنالوجی یعنی آڈیو، ویڈیواورڈی این اے ٹیسٹ کی بطور شہادت اہمیت اور حیثیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور جوں جوں وقت گزرتا جائے گا ان ذرائع کی اہمیت اور ضرورت اور بھی بڑھتی جائے گی۔ ان کے بقول ججوں کے متنازع ریمارکس وغیرہ کسی طرح بھی فیصلے پر اثرانداز نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے بتایا کہ کریمنل کیسز میں مجرموں کی جلد رہائی یا مقدمہ کی طوالت میں پولیس اور عدالتی عملہ کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور اس ضمن میں سب سے بڑی وجہ کم زور تفتیش بنتی ہے۔ اکثر اوقات تفتیش نامکمل ہوتی ہے اور اس میں غفلت، لاپروائی سمیت ہماری پولیس کی خواندگی کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔

میٹرک پاس یا اس سے بھی کم تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی سے نابلد تھانہ دار سے ہم کیا توقع کرسکتے ہیں کہ وہ کس زاویہ نگاہ اور باریک بینی سے اپنی تفتیش مکمل کرے گا؟ یہی وجہ ہوتی ہے کہ نامکمل اور ناقص تفتیش شک کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور شک کا سارا فائدہ ملزم کو ہی جاتاہے۔ لہٰذا ہم اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے کہ ہمارے ہاں تفتیشی ادارے بہت کم زور ہیں، انہیں درست کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ مجرموں کی جلد رہائی میں جھوٹے دعووں اور کمزور شہادتوں کا بنیادی رول ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر مقدمات میں ایک ملزم کے بجائے پانچ پانچ افراد پر دعویٰ کرلیا جاتا ہے، ساتھ جھوٹی شہادتیں بھی دی جاتی ہیں۔ اگر کسی کے قتل یا زخمی ہونے میں ایک دوگولیاں استعمال ہوتی ہیں اور اس کا دعویٰ پانچ چھ افراد پر کیا جاتا ہے تو میڈیکل رپورٹ اور ساتھ جھوٹی شہادت کے تناظر میں اس قسم کے ثبوت پھر وکیل کی جرح کے سامنے ریت کی دیوار بن جاتے ہیں۔ ان کے بقول ازخود نوٹس ایک اچھا اقدام ہے اور اس بات کا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو قانونی اور آئینی اختیار بھی حاصل ہے جس کے ذریعے انصاف کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں زینب، عاصمہ اور نقیب محسود کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات پرازخود نوٹس لیا گیا اور اسی نوٹس کی وجہ سے پھر قانون نافذ کرنے والے تفتیشی ادارے حرکت میں آگئے۔ اگر سپریم کورٹ ازخود نوٹس نہ لیتا تو مذکورہ واقعات کے متاثرین کو انصاف کہاں مل سکتا تھا؟

سید اختر علی شاہ
(سابق ہوم سیکرٹری خیبرپختون )
ہمارے ہاں فوجداری اور دیوانی مقدمات کے لیے جو عدالتی نظام رائج ہے تو اس میں کوئی ایسی خاص کم زوری نہیں ہے جو ہمارے مسائل حل نہ کرسکے۔ تاہم سب سے بنیادی اور ضروری چیز قاعدے قانون پر عمل درآمد کرنا ہے۔ ہمارے ہاں ہر قسم کے جرائم اور قانون سے تجاوز کرنے کے لیے ادارے ایک موثر اور مربوط نظام موجود ہے، جیسا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں اور احتساب کی عدالتیں ہیں اور ان عدالتوں میں مقدمات نمٹانے کا اپنا ایک ٹائم بھی مقرر ہے کہ وہ اپنے مقدمات اس ٹائم فریم میں نمٹائیں گے۔ اسی طرح چالان جمع کرنے کے لیے چودہ دن کا وقت مقرر ہے اور پولیس اس مقررہ وقت میں کسی مقدمے کا چالان جمع کرکے عدالت میں پیش کرنے کی پابند ہے۔

مگر اصل مسئلہ ٹرائیل سیشن کا ہے۔ آج سے پچاس ساٹھ سال قبل یا انگریزوں کے دور میں روزانہ کی بنیاد پر مقدمات نمٹائے جاتے تھے، اب بھی مجوزہ قانون کے تحت عدالتوں کو پابند کرنا چاہیئے کہ وہ اپنے فیصلے اپنے مقررہ وقت میں سنائیں۔ مقدمات کی تاخیر اور کم زوریوں میں پولیس کا وقت پر اپنی تفتیش مکمل نہ کرنا، ضمنیوں کے لکھنے میں سست روی کا مظاہرہ کرنا سمیت میڈیکل رپورٹ ، متعلقہ پٹواری اور شہادتوں کا بروقت پیش نہ کرنا بھی مقدمات کی طوالت اور تاخیر کا سبب بن جاتاہے۔ اسی طرح اکثر مقدمات میں متعلقہ تھانوں کے ایس ایچ اوز کا تبادلہ بھی تفتیش کے عمل کو کم زور کردیتا ہے کیوں کہ ان تبادلوں سے تفتیش نامکمل رہ جاتی ہے۔ لہٰذا پولیس کو بھی پابند کرنا ہوگا کہ وہ مقدمے کی پیشی کے موقع پر اپنا پورا فائل ورک اور اپنے تمام گواہوں کو پیش کریں کیوں کہ اکثر مقدمات میں تاخیر کا اصل سبب گواہوں کی عدم پیشی ہے۔ اس کے علاوہ کبھی متعلقہ ڈاکٹر کی رپورٹ غائب رہتی ہے تو کبھی پٹواری غیرحاضر رہتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام کو مکمل طور پر لاگو کرنا ہوگا۔ اصل بات قانون اور قواعد پر عمل در آمد کی ہے۔ ہاں اگر کہیں کوئی کم زوری ہو تو اسے دور کرنے یا قانون میں ترمیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ ان کے مطابق پہلے زمانے میں کسی واقعے کی تفتیش کے لیے اس وقت کے مروجہ آلات اور وسائل استعمال ہوتے تھے، جب کہ آج جدید ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے لہذا ہمیں ان تمام جدید آلات اور وسائل بروئے کار لانا ہوں گے۔ تاہم سب سے اہم اور بنیادی بات سائیلین کو جلد ازجلد انصاف کی فراہمی ہے اور جہاں صاف اور شفاف نظام ہو اور اس پر مکمل عمل درآمد کیا جاتا ہو تو وہاں جرائم کی شرح بھی بہت کم ہوتی ہے۔ لہذا نہ صرف تھانوں، پٹوارخانوں بلکہ ایوانوں، عدالتوں اور زندگی کے ہر شعبے میں انصاف لازم ہے۔

محمد ناصر غلزئی
(ماہر قانون اور ہائی کورٹ و فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان)
عدلیہ ریاست کا اہم ستون ہے جو ہر لمحہ اصلاحات کا طلب گار ہے۔ اس لیے حالات اور وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر اصلاحات وترامیم کی جانی چاہئیں۔ اس کے علاوہ مقدمات میں تاخیر کی ایک وجہ زیادہ مقدمات اور وقت کی کمی ہے جس کے لیے ججوں کی تعداد اس حد تک بڑھانی چاہئے کہ ہر مقدمہ میں روزانہ کی بنیاد پر کارروائی ہوتی رہے۔ عدالتوں کی دفتری اور کاغذی کارروائی کمپیوٹرائزڈ کرنی چاہئے اور ہر فیصلہ آن لائن ہونا چاہئے تاکہ وصولی میں کسی کو کوئی تاخیر یا رقوم جمع کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ اسی طرح وڈیو کو شہادت ماننے کے حوالے سے قانون واضح ہے، البتہ عدالتوں کو نئی ٹیکنالوجی کی فراہمی کی وقت کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب پولیس اور عدالت کے درمیان رابطے کے فقدان کی وجہ سے تاریخوں پر کارروائی ملتوی رہتی ہے کیوں کہ جس دن پولیس کی شہادت ہوتی ہے اس دن ان کو کسی وی آئی پی کی سیکورٹی حوالہ کردی جاتی ہے۔ جس دن بذریعہ پولیس قبضہ دخل لینے کے احکامات جاری ہوتے ہیں اسی دن ان کی ڈیوٹی پولیو ٹیموں کی سکیورٹی پر مامور کی جاتی ہے اور یوں تمام تر فوائد ملزمان کو پہنچتے رہتے ہیں۔ ججوں کے بیانات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بہتر تو یہی ہے کہ ججز کے فیصلے بولتے رہیں۔ ان کا قلم ہی ان کی زبان ہونی چاہئے۔

ظفر علی خان
(ڈی آئی جی بلوچستان)
خیبرپختون خوا سے تعلق رکھنے والے ظفر علی خان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پولیس کی مراعات اور استعداد کار بڑھانے کے لئے اسے وسائل اور ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ضروری ہے تاکہ مقدمات کی جلد پیروی میں مدد ملے، جب کہ ڈی این اے سمیت دیگر جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے ماہرین پیدا کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ اسی طرح صوبے میں جدید فرانزک لیب کا قیام بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالتی نظام میں بہتری کے لئے دیگر ضروری اقدامات کے ساتھ ججوں کے حوالے سے بھی چیک کا نظام وضع کرنا ضروری ہے جب کہ وکلاء کی جانب سے لاکھوں اور بعض کیسوں میں کروڑوں روپے فیس لینے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرکے فیسوں کے لیے ایک مربوط نظام وضع کرنا چاہئے، ساتھ ہی وکلاء کے لئے کیس لینے کی ایک حد مقرر ہونی چاہئے جس کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ کوئی وکیل کیسوں کی تعداد کی زیادتی کے باعث خواہ مخواہ مقدمے کو طوالت دینے سے قاصر رہے گا اور دوسری جانب دوسرے وکلا کو بھی کیس ملنے شروع ہو جائیں گے۔

اسرار الحق(سائل)
میرے والد نے ایک دیوانی مقدمے میں تیس سال قبل عدالت کا دروازہ کھٹکٹھایا تھا۔ اس کیس کی 15سال تک انہوں نے پیروی کی، بعد میں میرے بڑے بھائی نے اور آخر میں یہ تکلیف دہ اور صبر آزما کیس میرے حوالہ ہوا، اب آپ ہی بتائیں کہ اس دوران ہم کتنی کوفت اور ذہنی اذیت سے دو چار ہوئے ہوں گے اور اوپر سے وکلا اور ان کے ریڈر کے ناز نخرے، جس پیشی پر جاتے تو ریڈر کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ تھمانا پڑتا تھا، اوپر سے وکیل صاحب کبھی غائب تو کبھی کسی اور کیس میں دلائل دیتے ہوئے پاتے جاتے، یا عدم تیاری کا بہانہ بنا کر اگلی تاریخ لے لیتے، یعنی ہماری آدھی زندگی ’’تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ‘‘ کی صورت میں بیت گئی اور بالا آخر ہم نے ازخود جرگہ بٹھا کر مسئلے کا تصفیہ کرا لیا ۔

بلوچستان کے قانونی ماہرین نے ملک میں رائج عدالتی نظام کے حوالے سے اس بات پر زور دیا ہے کہ برٹش دور سے نافذ اس نظام کو پارلیمنٹ فوری طور پر قانون سازی کرکے اس میں مناسب تبدیلی لائے، تاکہ عوام کو جلد سے جلد انصاف مل سکے۔ اسی طرح انہوں نے مقدمات کو بروقت نمٹانے کے لئے صوبے میں مزید عدالتوں کے قیام اور ججوں کی تعداد میں اضافے کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ ان ماہرین نے مقدمات میں تاخیر پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اعلیٰ عدلیہ ماتحت عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر بھی نظر رکھے۔ دوسری طرف وہ شہری جن کے عدالتوں میں طویل عرصے سے مقدمات زیر سماعت ہیں ان کا کہنا ہے کہ مقدمات بروقت نہ نمٹنے کے باعث ان کا قیمتی وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہوتا ہے۔ بعض شہریوں نے جرگہ سسٹم کے تحت فیصلوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے جلد فیصلوں کے باعث انہیں ذہنی کوفت سے نجات مل جاتی ہے۔ شہری عدالتی مقدمات میں تاخیر کا سبب پولیس کو بھی گردانتے ہیں۔

شاہ محمد جتوئی
(صدر بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ، وکیل سپریم کورٹ )
بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سپریم کورٹ کے وکیل ، ممبر بلوچستان بار کونسل شاہ محمد جتوئی کہتے ہیں کہ بلوچستان سے متعلق ہی بات کروں گا۔ یہاں پر لائر جوڈیشری جج کم ہیں۔ ان کی تعداد کو بڑھایا جائے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت سے قوانین برٹش دور 1860ء کے ہیں جو اب تک چل رہے ہیں۔ ہمارے عدالتی قوانین میں اصلاحات اور ترمیم کی ضرورت ہے۔ نئے قوانین نئے حالات کے تحت نہیں بنائے جائیں گے تو یہ مسئلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ پوری دُنیا میں حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق قوانین میں تبدیلی کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ انگلینڈ سمیت تمام ممالک میں ہے۔

ہمارے قوانین اب تک وہیں ہیں۔ پرانے وقتوں میں جرائم کی شرح اور نوعیت کچھ اور تھی۔ 1857ء میں ہیروئن سمیت دوسری منشیات نہیں تھیں۔ اب آبادی بڑھ گئی ہے۔ سائنسی دور ہے۔ آج کے حالات میں عدالتی قوانین میں تبدیلی ضروری ہے۔ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے، عدلیہ اس پر عمل درآمد کراتی ہے۔ اب ٹرائل کیس کو ہی لے لیں جب ٹرائیل کورٹ سے ملزم کو سزا ہوتی ہے تو اس کی اپیل پر عمل درآمد نہیں ہوتا جب کہ سپریم کورٹ فوری طور پر اس کی اپیل سنتا ہے تو وہ بری ہوجاتا ہے۔ ہمیں ایسی اصلاحات لانی چاہئیں کہ لوگوں کو فوری انصاف مل جائے اگر کسی کے خلاف جھوٹا کیس چل رہا ہے تو کیس کرنے والے کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ مقدمات میں تاخیر کے ذمہ دار پولیس، عدالت اور وکلاء ہیں۔ یہاں سسٹم ایسا بنا ہوا ہے جس میں لوگوں کو فوری انصاف نہیں مل پاتا۔ مقدمات میں تاخیر دور کرنے کیے لئے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس میں وقت کا تعین ضروری ہے کہ آپ نے اتنے عرصے میں کیس کا فیصلہ کرنا ہے۔ اگر نہیں کرسکتے تو ملزم کو بیل آؤٹ کردیں تاکہ وہ بلاوجہ جیل میں نہ رہے۔  اسی تاخیر کی وجہ سے بہت سے لوگ جیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔

جہاں تک پولیس کی جانب سے تاخیری حربے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ کرپشن ہے، جب تک آپ پولیس کے ساتھ گٹھ جوڑ نہیں کرتے معاملہ سست روی  کا شکار رہے گا، پولیس پر بھی چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے۔ پولیس 15 دن میں بھی چالان پیش نہیں کرتی۔ یہ لوگ کسی نہ کسی بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ملزم کو سزا کا اختیار عدالت کے پاس ہے۔ پولیس اور عدالت دونوں کو ایک ہی قانون کے تحت نظام میں تبدیلی لانے کے لئے کاربند کیا جاسکتا ہے۔ مقدمات جلد نمٹانے کے لئے بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ عدالتوں میں دفتری اور کاغذی کارروائی کے حوالے سے شاہ محمد جتوئی کہتے ہیں کہ ہمارا تمام سسٹم بگڑ چکا ہے۔ کاغذی کارروائی ہوتی کچھ نہیں صرف کرپشن کے لئے اس کو طول دیا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ہی غلط ہے۔ اس کے لئے تجویز کیا دوں۔ اس کے لئے تو انقلاب کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کاغذی کارروائی اور دفتری اُمور پر بھی نظر رکھے اور اس میں بہتری لائے تاکہ عام سائل کو اس کا فائدہ ہو۔

آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے تمام عدالتوں میں کمپیوٹرائزڈ سسٹم چل رہا ہے۔ اس میں ہم باقی دُنیا کے مقابلے میں صرف20 سے25 فیصد ہیں۔ دُنیا بہت آگے اور ہم پیچھے ہیں۔ ہمارے یہاں تمام عدالتی ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ ہونا چاہیے۔ اب فائلیں بوریوں میں بند نہیں رکھنی چاہئیں۔

جہاں تک ویڈیو کو شہادت ماننے کی بات ہے تو کسی حد تک درست ہے لیکن اس کے لئے خود شہادت کی ضرورت پڑتی ہے کہ ویڈیو اصلی ہے یا کسی اور مقصد کے لئے بنوائی گئی ہے۔ یہاں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ویڈیو کو بطور شہادت لیا گیا ہو عام طور پر اس کو نہیں لیا جاتا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج جینئن ہیں۔ ان کیمروں کی قانونی حیثیت ہے۔ آج کل جیسے خودکش دھماکے ہورہے ہیں یا اسی طرح دوسرے جرائم ہیں، سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے بہت سے ملزموں تک پہنچا جاسکتا ہے۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کے دو تین بڑے واقعات میں انہی کیمروں کے ذریعے ملزموں تک پہنچے ہیں۔ ڈی این اے ٹیسٹ بھی جدید ٹیکنالوجی ہے پوری دُنیا اور پاکستان میں بھی بہت سے واقعات ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے حل ہوئے ہیں۔

٭ججز کے متنازعہ ریمارکس اور تقاریر
ججز کو متنازع بات نہیں کرنی چاہیے۔ ججز کی بات صرف اس کے فیصلے میں ہو، پبلک میں ان کی بات نہیں آنی چاہیے، چاہے سول کیس ہو یا کریمنل کیس ہو یا سیاسی کیس۔ میرے خیال میں سیاسی کیسز کے بجائے زیادہ وقت پبلک کیسز کو دینا چاہیے۔ لوگ جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے کر لئے گئے ہیں۔ یہ کیسز انتہائی ضروری ہوتے ہیں، اس پر توجہ سے عام آدمی کو زیادہ ریلیف مل سکتا ہے۔دوسرے ممالک میں عدالت کے فیصلوں کے لئے قانونی راستے اختیار کئے جاتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں کو بھی پبلک مقامات پر نہیں لانا چاہیے۔ آپ عدالتی فیصلے سے اختلاف رکھ سکتے ہیں لیکن اس کو ماننا بھی چاہیے۔

بلوچستان میں ججز کی تعداد حال ہی میں بڑھائی گئی ہے لیکن اس کے باوجود ججز کی تعداد بہت کم ہے۔ اعلیٰ عدالتوں سے لے کر ماتحت عدالتوں تک ججز کی تعداد بڑھانی چاہئے۔ ڈسٹرکٹس سے لے کر ماتحت عدالتوں اور تحصیل کی سطح پر بھی عدالتیں قائم ہونی چاہئیں تاکہ لوگوں کو فوری اور سستا انصاف مل سکے۔

ججز کی تقرری اور انہیں ہٹانے کے لئے بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہائر عدالتوں سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔ ججمنٹ کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانا چاہیے تاکہ سپریم جوڈیشل کونسل زیادہ فعال کردار ادا کرسکے۔

مقدمات میں تاخیر کے وکلاء پولیس اور عدلیہ برابر کے شریک ہیں یہ اگر چاہیں تو مقدمات میں تاخیر ختم ہوسکتی ہے۔ اس کے لئے بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

عدالتی فیصلوں پر تنقید کیے لئے فورم ہونا چاہیے۔ اعلیٰ عدلیہ کے چیک اینڈ بیلنس کو دیکھنا چاہیے۔ اس کے لئے بھی قانون سازی ہونی چاہیے۔ بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں پولیس پارٹی بنی ہوتی ہے۔ حکومت اور انتظامیہ بھی فریق ہوتی ہیں۔ ایسے کیسز کا از خود نوٹس لینا چاہیے۔ اگر نقیب اﷲ کیس میں سپریم کورٹ نے از خود نوٹس نہ لیا ہوتا تو راؤ انوار سامنے نہیں آتا۔ کراچی میں سادہ کپڑوں والا کیس ہے تو از خود نوٹس لینے سے عام آدمی کی داد رسی ہوتی اور بڑے چہرے بھی بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ ہمارے یہاں زیر التواء مقدمات ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ ججز اور عدالتوں کی کمی کی وجہ سے فیصلوں میں بڑا وقت لگ جاتا ہے۔ یہاں اگر ایک دو سال میں کسی کیس کا فیصلہ ہوجائے تو وہ بندہ خوش ہوجاتا ہے۔

 منیر احمد کاکڑ
(ممبر جوڈیشل کمیشن پاکستان)
ہمارے ملک میں پرانا عدالتی نظام چل رہا ہے۔ دُنیا میں قوانین کی تبدیلی کے لئے قانون سازی ہوتی رہتی ہے، جب کہ یہاں تبدیلی کچھ بھی نہیں۔ یہاں ججز کی تعداد کم ہے۔ عدالتیں کم ہیں ریفارمز کے حوالے سے چیف جسٹس(ر) افتخار محمد چوہدری  کے دور میں جوڈیشل پالیسی بنائی گئی، اس پر مکمل عملدرآمد کیا جائے۔ اسے عارضی طور پر چلایا گیا۔ عدالتی نظام عارضی اصلاحات کی بنیاد پر نہیں چلایا جاسکتا۔ اس کے لئے باقاعدہ قانون سازی ہونی چاہیے۔ بلوچستان میں ججز اور عدالتوں کی تعداد ہر سطح پر بڑھائی جانی چاہیے۔ اس صوبے میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں عدالتیں نہیں ہیں۔ جوڈیشل مجسٹریٹ، سول فیملی ججز، ایڈیشنل سیشن ججز کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ہمارے یہاں ٹیکنالوجی کو عدالت کا مکمل حصہ نہیں بنایا گیا۔ دُنیا کے مقابلے میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ ویڈیو کی شہادت کو قانونی حیثیت دینی چاہیے۔ قانون شہادت ایکٹ کے تحت اگر کوئی دوسرے علاقے سے شہادت کے لئے نہیں آسکتا تو ویڈیو کے ذریعے اسے لینا چاہیے۔ دُنیا میں ٹیکنالوجی بہت آگے جاچکی ہے۔

٭ججز کے متنازع ریمارکس
اول تو ججز کو متنازع ریمارکس ہی نہیں دینے چاہئیں، ان کے ریمارکس صرف ججمنٹ میں ہوں۔ سارک کانفرنس کے دوران انڈیا کے جج سے پوچھا گیا کہ کیسے فیصلے کرتے ہیں تو اُنہوں نے بتایا کہ ہم بولتے نہیں صرف فیصلے کرتے ہیں۔ اس لئے ججز کو صرف فیصلے میں ہی ریمارکس دینے چاہئیں۔ جہاں تک فیصلوں پر تنقید کی بات ہے تو اخلاقی طور پر تنقید کرسکتے ہیں لیکن قانون کے دائرے میں ہو ایڈوانس ممالک میں ایسی پالیسیز موجود ہیں۔ ہمیں وہ چیزیں اپنانی چاہئیں۔ حال ہی میں انڈیا کے4 ججز نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی اگرکوئی جج ریمارکس دیتا ہے تو اس پر بات ہونی چاہئے۔ لیکن توہین عدالت اور آزادی رائے کی تضحیک نہیں ہونی چاہئے۔ اگر ججز کی تعیناتی پر اعتراض ہے تو آئین کے آرٹیکل175A کے تحت پاکستان کی تمام بار کونسلز نے اکثریتی رائے ترمیم دی تھی کہ جوڈیشل رولز کو لاگو کیا جائے کیوںکہ جوڈیشل کمیشن میں ججز کی تعداد زیادہ ہے وہ فیصلہ کردیتے ہیں، لیکن بارکونسلز کی رائے رہ جاتی ہے۔

اسی طرح ہمارا کہنا ہے کہ ججز کی نام زدگی کے لئے جو نام بھجوائے جائیں اس میں ایک پوسٹ کے لئے تین نام ہونے چاہئیں، تاکہ تقرری میرٹ پر ہو۔ اسی طرح ججز کو ہٹانے کا طریقہ بھی جوڈیشری کے اندر ہے، لیکن آج تک کسی جج کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے خلاف54 کے قریب ریفرنسز دائر ہیں۔ 4ججز کے خلاف کیسز پر کارروائی میں2سال لگے، سابق چیف جسٹس اقبال حمید الرحمان کے خلاف جب ریفرنس آیا تو وہ مستعفی ہوگئے تھے۔ ججز کے خلاف کیسز کو نمٹانا چاہئے۔ اصلاحات کاغذوں میں نہیں عملی طور پر ہونی چاہئیں۔ اگر کوئی اپنے ڈیپارٹمنٹ کے اندر رولز کی خلاف ورزی کرے گا تو تنقید ہوگی۔ ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کو آرٹیکل184-3 کے تحت اختیار حاصل ہے جس کے تحت از خود نوٹس لیا جاسکتا ہے لیکن سوموٹو کا رزلٹ آنا چاہئے۔ اس میں بعض ایسے کیسز بھی ہیں جن  پر خاموشی اختیار کرلی گئی۔ کیس کی طوالت کی ایک وجہ کبھی ایک وکیل کا نہ ہونا کبھی دوسرے کا نہ ہونا ہے۔ کبھی کوئی وکیل کیس چھوڑ دیتا ہے۔ ہمیں تو قبائلی سسٹم کے تحت فیصلے اچھے لگتے ہیں کیوں کہ اس میں وقت کا ضیاع نہیں ہوتا اور جلد فیصلہ آجاتا ہے۔

حمید اللہ دستی
(پولیس انوسٹی گیشن لیگل ڈی ایس پی)
کیس میں تاخیر اس وجہ سے ہوتی ہے کہ مدعی مقدمہ میں 100فی صد بیان نہیں دیتا۔ شواہد اکٹھے کرنے کے لئے وقت چاہیے ہوتا ہے۔ کوئی جرم ہوتو لوگ اطلاع دیتے ہیں اور نہ ہی گواہی۔ بااثر لوگ اثرانداز ہوتے ہیں۔ زیادہ تر ان کا زور راضی نامے پر ہوتا ہے۔ بلوچستان پولیس کے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ ڈیٹا اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ دوسری چیزوں کے حصول میں وقت لگتا ہے۔ دیگر صوبوں کی طرح جدید سہولیات ملنی چاہیئں۔ 14دن ہسپتال کی رپورٹس میں صرف ہوتے ہیں۔ 2010ء میںبلوچستان حکومت نے اپنا پولیس ایکٹ بنالیا۔ 18ویں ترمیم کے تحت اختیار جوڈیشل مجسٹریٹ کی بجائے اے سی کو دے دیئے۔ پہلے 20ہزار کی آبادی کے لئے 100کانسٹیبل، 25حوالدار، 13آفیسر، ایک انسپکٹر، ایک پولیس اسٹیشن ہوتا تھا۔ اب 450افراد پر صرف ایک کانسٹیبل ہے۔ دہشت گردی سمیت دوسرے بڑے کیسز کی تحقیقات کے لئے سوائے ایک کمرے کے کوئی سہولت نہیں ہے۔ ہمیں پروٹیکشن نہیں۔ ہم رسک لے کر کام کرتے ہیں۔ پراسیکیوشن کو الگ کرنے سے بھی تاخیر ہوجاتی ہے۔ جوڈیشری سے شناخت پریڈ کرانی ہوتی ہے۔ یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو مرحلہ وار طے کی جاتی ہیں۔ لیکن ایک ضروری چیز ہے وہ ہے جدید ٹیکنالوجی، اس کے بغیر بھی معاملات سست روی کا شکار ہوتے ہیں۔

 

تاریخی تشبیہات اور افسانوی حوالے
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس سے متعلق 20 اپریل 2017ء کو اپنا فیصلہ سنایا، جس میں بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا اختلافی نوٹ میں 1969ء میں شایع ہونے والے ماریو پوزو(Mario Puzo) کے مشہور زمانہ ناول ’’گاڈ فادر‘‘ کے اس مشہور فقرے سے کی گئی کہ ’’ہر عظیم کام یابی کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے۔‘‘ حکم راں جماعت کے سینیٹر نہال ہاشمی کی طرف سے اداروں کی تضحیک پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا، تو اس کی سماعت کے دوران عدالت کافی جارحانہ موڈ میں نظر آئی اور سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس عظمت سعید نے اس معاملے پر حکومت کو سسیلیئن مافیا سے تشبیہہ دی۔

سسیلیئن مافیا کا تعلق اٹلی سے تھا، جو مجرمانہ سرگرمیوں کے سبب دنیا بھر میں ایک خوف کی علامت تھی۔ معروف قانون داں اعتزاز احسن اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ججوں کو صرف فیصلے لکھنے چاہئیں اور اس طرح کے ریمارکس فضا کو آلودہ کرتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر طارق محمود جہانگیری کہتے ہیں کہ اگر کسی کو ججز کے ریمارکس پر اعتراض ہے تو اس کی دادرسی کا طریقہ بھی موجود ہے۔ اس بارے میں ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی جا سکتی ہے، جس میں کسی بھی جج کے ریمارکس کو عدالتی کارروائی سے حذف کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کا ججوں کے لیے ضابطۂ اخلاق
ضابطہ اخلاق میں ججوں کو ماسوائے مجبوری عام لوگوں سے ملنے، ہوٹلوں بازاروں اور گلیوں میں بے مقصد گھومنے پھرنے سے گریز کرنے کو کہا گیا ہے۔ انہیں یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ غصہ کرنے اور غصے میں فیصلہ کرنے سے احتراز کریں۔

جج کو خدا ترس، قانون کا احترام کرنے والا، قول کا سچا، ذہین، محتاط اور الزام سے پاک ہونا چاہیے۔ جج پر کسی لالچ کا اثر نہیں ہونا چاہیے۔ اور اسے اپنے فیصلے یا رویے میں کسی بھی فریق یا اس کے وکیل سے جانب داری نہیں دکھانی چاہیے۔ جج کو فیصلے میں مستقل مزاج ہونا چاہیے۔ اسے ہمیشہ مقدمے جلد نمٹانے اور فوری انصاف کی کوشش کرنی چاہیے۔ جج کو یونیفارم پہن کر مودبانہ طریقے سے کرسی پر بیٹھنا چاہیے۔ لیکن اس سے غرور کا تاثر نہیں ملنا چاہیے۔ ججوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ چیمبر میں مقدمات کی کارروائی نہیں چلائیں اور نہ ہی وہاں دوستوں اور مہمانوں سے ملیں، ماسوائے مجبوری کے بار بار کمرہ استعمال نہ کریں اور دوسرے فریق کی عدم موجودگی میں مقدمہ کی کارروائی نہ چلائیں۔

جج ایسے مقدمات بھی نہ چلائیں جس میں ان کے کسی عزیز رشتہ دار یا دوست کا مفاد ہو۔ کسی بھی فریق کو ذاتی حیثیت میں کوئی ایسا مشورہ نہ دیں جو کہ دوسرے فریق کے لئے نقصان دہ ہو۔

جج کو فیصلے دیتے وقت کھردرے رویے کے بغیر مضبوط اور کم زور ہوئے بغیر شائستہ ہونا چاہیے، جج کو بارعب اور اپنے الفاظ سے وفادار ہونا چاہیے۔ اسے متوازن اور ہر چیز سے بالاتر مکمل غیرجذباتی ہو کر قانون کے مطابق فیصلے دینے چاہییں۔

جج کا مقدمے کے کسی فریق سے کوئی تعلق ہو تو وہ اس کی سماعت سے خود کو علیحدہ کرلے۔ فیصلوں سے صرف انصاف نہ ہو، بلکہ انصاف ہوتا ہوا دکھائی بھی دے۔ کوئی جج بالواسطہ یا بالواسطہ کوئی ذاتی رائے یا حکم نہ دے۔ کسی عوامی تنازعے کا حصہ نہ بنے۔ کسی بھی قسم کی انتخاب میں امیدوار بننے سے گریز کرے۔ تحائف بھی صرف بہت قریبی رشتے داروں اور دوستوں سے لے سکتے ہیں۔ غیررسمی تحفوں کے ذریعے ان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کو مسترد کردیں۔

پیشہ ورانہ امور میں دیگر ججوں سے تعلقات عدالتی کام سے مطابقت رکھتے ہوں اور عدالت کی مضبوطی کے لیے ہوں۔ جج کو اپنے حلف کی پاس داری کرنی چاہیے اور کم سے کم وقت میں مقدمہ نمٹانے کے لیے اقدام کرنے چاہییں۔ کوئی جج غیرآئینی طریقے سے اقتدار حاصل کرنے والے شخص کو تحفظ فراہم نہیں کرے گا اور نہ ہی آئین میں دیے گئے حلف کے سوا کوئی حلف اٹھائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عدلیہ کے دو حیرت انگیز واقعات!
جسٹس کارنیلئس مشہور زمانہ مولوی تمیز الدین کیس میں اختلافی نوٹ لکھنے والے واحد جج تھے، لیکن حیرت انگیز امر ہے کہ جنرل ایوب خان نے انہیں چیف جسٹس بنایا اور وہ 13 مئی 1960تا 29 فروری 1968ء ملک کے چیف جسٹس رہے۔ اسی طرح جنرل ضیاالحق نے عدالت عظمیٰ میں بھٹو کو بری کرنے کا اختلافی نوٹ لکھنے والے جسٹس محمد حلیم کو چیف جسٹس بنایا اور وہ 23 مارچ 1981ء تا 31 دسمبر 1989ء اس عہدے پر رہے۔ دونوں فوجی آمروں کا یہ اقدام بہ ظاہر اُن کی ’قانون پسندی‘ کا پتا دیتا ہے۔

کچھ تذکرہ ’ریمارکس‘ کا
گذشتہ برس جب ہم نے سابق چیف جسٹس (ر) اجمل میاں سے انٹرویو کے لیے اصرار کیا، تو وہ ریٹائرمنٹ کے 18 برس بعد بھی اسی اصول پر کاربند نظر آئے کہ جج کو فیصلوں سے بولنا چاہیے۔ دوٹوک انداز میں انٹرویو دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کچھ جاننا ہے تو میرے فیصلے پڑھ لیجیے، لیکن بہت سے جج عدالتی فیصلوں کے علاوہ سماعت کے دوران ریمارکس کے ذریعے بھی بولتے ہیں۔ یوں تو ریمارکس کا موجودہ سلسلہ 1990ء کی دہائی سے شروع ہوا اور کسی نہ کسی طور چلتا رہا، لیکن جسٹس افتخار محمد چوہدری کے زمانے میں یہ زیادہ زور پکڑ گیا۔ مختلف مقدمات کے دوران ریمارکس کے سبب لوگ ممکنہ فیصلوں کے اندازے لگانے لگتے ہیں۔

بعض اوقات ریمارکس کا یہ سلسلہ خاصا غیرمناسب لگنے لگتا ہے، جس سے ایک مقدس ایوان کی سنجیدگی پامال ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ ججوں کے ان ریمارکس کو اخبارات میں ہی نہیں، چینلوں کے خبرناموں میں بھی یہ ریمارکس چسکیاں لے لے کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان ریمارکس پر تبصروں کے ذریعے ججوں پر جانب داری یا ان پر تنقید وتوصیف کے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں، جیسے یہ کہ ’’ایسا فیصلہ دیں گے جو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔‘‘ اسی طرح ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’اس خطے میں دو قومیں تھیں، ایک مسلمان اور دوسری کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا۔‘‘ ایک اور جگہ یہ کہا گیا کہ ’’تقریر کو کسی عورت کے اسکرٹ جیسا ہونا چاہیے، جو زیادہ لمبی ہو تو دل چسپی ختم ہو جاتی ہے اور بہت مختصر ہو تو اصل مدعا ہی حل نہیں ہوتا۔‘‘ جس کے بعد اس پر معذرت بھی کی اور کہا کہ انہوں نے ونسٹن چرچل کی بات سے مثال دی تھی۔

۔۔۔۔

عدلیہ کی تاریخ کے اہم واقعات ومقدمات
پہلے چیف جسٹس کی اصول پسندی
جسٹس سر عبدالرشید نے قائداعظم محمد علی جناح سے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف لیا۔ وہ متحد ہندوستان کے سینیر ترین مسلمان جج تھے۔ 1949ء میں ’فیڈرل کورٹ آف پاکستان‘ قائم ہوئی، تو جسٹس سر عبدالرشید اس کے پہلے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ حکومت کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اُن سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ، مگر جسٹس سرعبدالرشید نے انہیں اپنے گھر آنے سے منع کر کے اصول پسندی کی ایک قابل تقلید نظیر قائم کی، لیکن بدقسمتی سے ان کے بعد چیف جسٹس بننے والے جسٹس محمد منیر نے عدلیہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا لگا گئے۔

جسٹس محمد منیر کا ’نظریۂ ضرورت‘
24اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل غلام محمد نے ملک کی پہلی قانون ساز اسمبلی تحلیل کر دی، جس پر اسپیکر مولوی تمیز الدین نے چیف کورٹ آف سندھ میں درخواست دی، چیف جسٹس سندھ جسٹس کانسٹنٹائن کی عدالت نے اس اقدام کو غیرقانونی قرار دے دیا، جس پر گورنر جنرل غلام محمد نے فیڈرل کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی، جہاں جسٹس محمد منیر نے نظریۂ ضرورت کے تحت اسمبلی کی تحلیل کو جائز قرار دے دیا۔ اس فیصلے کو آج بھی ہماری عدلیہ کی تاریخ کا سیاہ ترین باب کہا جاتا ہے۔ 1958میں ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف ایک مقدمے میں حکومت کا تختہ الٹنے کے اصول کو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قرار دیا گیا، اور اسی اصول کو بنیاد بناتے ہوئے، ملک میں نافذ مارشل لا کو جائز قرار دے دیا گیا۔ جسٹس اے آر کارنیلئس، مولوی تمیز الدین کیس میں اختلافی نوٹ لکھنے والے واحد جج تھے۔ 13 مئی 1960ء کو جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئس نے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا۔ وہ اب تک پاکستان کی تاریخ کے واحد غیرمسلم چیف جسٹس ہیں۔ ان کے علاوہ، جسٹس بھگوان داس 2007 میں قائم مقام چیف جسٹس تعینات ہوئے تھے۔

جنرل یحییٰ خان کی حکومت غاصب
جسٹس حمود الرحمان 18 نومبر 1968کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے۔ یحییٰ خان کی اقتدار سے رخصتی کے بعد جسٹس حمودالرحمان کی سربراہی میںقائم ایک بینچ نے عاصمہ جیلانی کیس میں جنرل یحییٰ خان کے اقتدار کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے انہیں غاصب قرار دیا، مگر یہ فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سنایا گیا۔

جسٹس محمد یعقوب علی کی سبک دوشی!
جسٹس محمد یعقوب علی اْس بنچ کا حصہ تھے، جس نے جنرل یحییٰ خان کے اقتدار کو غیرقانونی قرار دیا۔ 1975ء میں وہ ملک کے آٹھویں چیف جسٹس بنے۔ 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کردیا۔ اس کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے مارشل لا قوانین کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کو سپریم کورٹ میں چیلینج کیا اور یہ درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی گئی، جنرل ضیا الحق نے نہایت چستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے روز ہی ذوالفقار علی بھٹو دور میں عدلیہ اور ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کے حوالے سے کی گئی آئینی ترامیم کو منسوخ کردیا، جس کے نتیجے میں جسٹس یعقوب علی کو 22 نومبر 1977ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے سے سبک دوش کردیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سزا
جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد معزول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد قصوری کے قتل کے مقدمے میں انہیں سزائے موت سنائی گئی۔ اس مقدمے کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل جسٹس نسیم حسن شاہ نے بعد میں متعدد مرتبہ اس کی سماعت اور فیصلے کے دوران دباؤ کا اعتراف کیا۔ اس کے بعد وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر بھی فائز ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں کرکٹ بورڈ کی سربراہی بھی سونپی گئی۔ اس اعتراف کے باوجود جسٹس نسیم حسن شاہ کسی بھی قسم کی قانونی گرفت سے آّزاد رہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس لرزہ خیز انکشاف کے بعد آخر انہیں کٹہرے میں کیوں نہیں بلایا گیا، ان سے کیوں نہ پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنے عہدے سے بددیانتی کیوں کی اور کیوں عدلیہ کے مقدس ایوان کا وقار مجروح کیا۔

جسٹس انوار الحق کا ’’نظریۂ ضرورت ‘‘
جسٹس محمد منیر کے پہلے نظریۂ ضرورت کے بعد ایک اور چیف جسٹس انوار الحق نے بھٹو حکومت کی برطرفی اور جنرل ضیا کے اقتدار کو نظریۂ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا اور بھٹو کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے سنائی جانے والی پھانسی کی سزا برقرار رکھی۔ یوں ایک عشرے کی فوجی حکومت اور ملک دو لخت ہونے کے بعد دھرتی کے سینے پر ایک اور مارشل لا کے گھاؤ پر ’قانون‘ کی مہر ثبت کردی گئی، یہ سیاہ دور 17 اگست 1988ء کو ضیاالحق کی فضائی حادثے میں موت تک جاری رہا۔ اس آئینی خلاف ورزی پر کوئی مقدمہ درج ہوا اور نہ ہی کسی کمیشن کے ذریعے اس آئین شکنی کے ذمے داروں اور ان کے سہولت کاروں کا تعین کیا گیا۔

جسٹس محمد حلیم ’پی سی او‘ پر چیف جسٹس بنے
24مارچ 1981ء کو جنرل ضیا نے عبوری آئین نفاذ کیا، جس کے تحت 1977ء کے بعد کیے گئے، تمام فیصلوں کو قانونی قرار دے دیا گیا۔ جسٹس محمد حلیم نے جنرل ضیا الحق کے پی سی او کے تحت 1981میں چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا، قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ وہی جسٹس محمد حلیم تھے، جنہوں نے عدالت عظمیٰ میں بھٹو کی سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت کی اور تین ججوں کے ساتھ یہ اقلیتی فیصلہ دیا تھا کہ ذوالفقار بھٹو کو بری کردیا جائے، جب کہ چار ججوں نے سزا برقرار رکھی جن میں جسٹس ایس انوارالحق، جسٹس محمد اکرم، جسٹس نسیم حسن شاہ اور جسٹس کرم الٰہی چوہان شامل تھے، بری کرنے کا نوٹ لکھنے والے دیگر دو جج جسٹس دوراب پٹیل اور جسٹس غلام صفدر شاہ تھے۔ ذوالفقار بھٹو کو بری کرنے کی سوچ رکھنے والے جسٹس محمد حلیم، جنرل ضیا الحق کے دور میں طویل ترین مدت کے لیے چیف جسٹس رہے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کے خاتمے کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر جسٹس حلیم کی سربراہی میں قائم بنچ نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا، مگر طے شدہ انتخابات بھی کرانے کا حکم دیا۔

۔۔۔۔

نواز حکومت کی بحالی 1993ء
1993ء میں صدر اسحق خان نے وزیراعظم نوازشریف کی حکومت برطرف کی ، تو وہ عدالت عظمیٰ چلے گئے، جہاں جسٹس نسیم حسن شاہ نے ان کی حکومت کی برخاستگی کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں وزارت عظمیٰ پر بحال کردیا۔ یہ ملکی عدلیہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے، جس میں ایک معزول وزیراعظم عدالت سے بحال ہوا۔ اگرچہ اس بحالی کے بعد آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے مداخلت کرکے وزیراعظم نوازشریف ہی نہیں، صدر اسحاق خان سے بھی استعفا لے لیا اور نئے عام انتخابات کرائے گئے۔

سجاد علی شاہ کی چیف جسٹس کے عہدے پر ترقی
5جون 1994ء کو جسٹس سجاد علی شاہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا، انہیں بے نظیر حکومت نے آؤٹ آف ٹرن ترقی دیتے ہوئے، چیف جسٹس مقرر کیا، اختلافی نوٹ تھا، جس میں جسٹس سجاد علی شاہ نے لکھا تھا کہ سندھ کے وزرائے اعظم کی حکومتیں بحال نہیں کی گئیں، تو پنجابی وزیراعظم کے معاملے میں تعصب کیوں برتا جا رہا ہے۔ وہ 1996ء میں ہونے والے مشہور ججز کیس کا فیصلہ سنانے والی بنچ کے سربراہ تھے، جس کے مطابق ججوں کی تقرری میں سنیارٹی کے اصول کو بنیاد بنایا گیا۔

1997ء کا عدالتی بحران
عدالت عظمیٰ میں نواز حکومت کی بحالی کے اس فیصلے سے اختلاف کرنے والے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں 27 نومبر 1997ء کو وزیرِاعظم نوازشریف کی ایک مقدمے میں چیف جسٹس کی تین رکنی عدالت میں پیشی تھی، مگر نواز لیگی کارکنوں کی جانب سے شدید ہنگامے کی بنا پر سماعت مکمل نہ ہوسکی، چیف جسٹس نے تیرہویں آئینی ترمیم معطل کر کے صدر کا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار بحال کر ڈالا، مگر دوسرے کمرے میں عدالت عظمیٰ کے دس رکنی بینچ نے جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں اس تین رکنی بینچ کے حکم کو معطل کردیا۔ یوں ایک بڑا عدالتی بحران پیدا ہوا، جس کا نتیجہ جسٹس سجاد علی شاہ کی معزولی کی صورت میں برآمد ہوا اور جسٹس اجمل میاں نئے چیف جسٹس بنے۔ یوں دسمبر 1997ء میں یہ عدالتی بحران ختم ہوا۔

شہباز شریف اور جسٹس قیوم کا کال اسکینڈل
سابق وزیراعظم نواز شریف کے دوسرے دور حکومت (1997-1999) کے دوران نیب کے چیئرمین سیف الرحمن اور شہباز شریف کی لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس قیوم کو کالیں کی گئیں، ایک فون کال کی ریکارڈنگ منظر عام پر آئی، جس کے بعد جسٹس قیوم کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ اس کال میں شہبازشریف، نوازشریف کا پیغام جسٹس قیوم کو پہنچاتے ہیں اور جسٹس قیوم اْس میں اِن کی مرضی کا فیصلہ دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ عدلیہ پر حکومتی دباؤ اور فیصلوں میں جانب داری کے حوالے سے یہ ہماری تاریخ کا ایک اور سیاہ باب ہے۔لیکن اس پر جسٹس قیوم کا کوئی مواخذہ نہیں ہوا۔

جسٹس ارشاد حسن کا ’نظریۂ ضرورت‘
1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف کی حکومت ختم کی، پھر جب اس بر طرفی کے خلاف درخواستیں عدالت میں آئیں، تو ججوں کو پابند کر دیا گیا کہ وہ عبوری آئین (پی سی او) کے تحت حلف اٹھائیں۔ چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے انکار کردیا، یوں 26 جنوری 2000ء کو جسٹس ارشاد حسن خان پی سی او کے تحت نئے چیف جسٹس مقرر ہو گئے، اور حکومت کی برطرفی کو جائز قرار دے دیا، ساتھ ہی جنرل پرویزمشرف کی فوجی حکومت کو تین برس میں انتخابات کرانے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کو آئین میں مرضی کی ترمیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ یہ امر ’نظریہ ضرورت‘ سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر تھا۔

مختاراں مائی کیس
2002ء میں صوبہ پنجاب میں پنچایت کے حکم پر خاتون مختاراں مائی کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے چھے ملزمان کو سزائے موت سنائی۔ لاہور ہائی کورٹ نے پانچ ملزمان کو بری کر دیا، جب کہ ایک ملزم کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا، جو اپریل 2017ء میں سزا کاٹ کر رہا ہو گیا۔ مختاراں مائی نے کہا سب سے بڑی اللہ کی عدالت ہے، مجھے وہاں سے انصاف ملے گا۔ یہ وہی مقدمہ ہے، جس کی بابت جنرل پرویز مشرف نے شرم ناک انداز میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ خواتین بیرون ملک کا ویزہ لینے کے لیے اس عمل کا ارتکاب کرتی ہیں۔

’اصغر خان کیس‘ کا طویل التوا
تحریک استقلال کے سربراہ ائیر مارشل (ر) اصغر خان نے سپریم کورٹ میں 1990ء کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے رقوم تقسیم کرنے کے معاملے پر ایک عرضی داخل کی، یہ مقدمہ عدالت عظمیٰ میں سماعت کے لیے منظور تو ہوگیا، لیکن 15 برس تک زیرالتوا رہا۔ بالآخر 2012ء میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی، مختلف فریقین پیش ہوئے اور پھر اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا، جس کے مطابق 1990ء میں بے نظیر بھٹو کے خلاف انتخابی اتحاد میں نواز شریف، شہباز شریف، جاوید ہاشمی، پیر پگارا، مصطفیٰ جتوئی، محمدخان جونیجو، جام صادق، جام یوسف، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کو رقوم بانٹی جانے کی تصدیق ہو گئی۔

جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ
2013ء میں حکومت نے نومبر 2007ء میں ہنگامی حالت کے نفاذ پر جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کیا۔ اس سے قبل کسی آمر پر ایسے کسی بھی مقدمے کی نظیر موجود نہیں۔ مقدمے کی سماعت کے دوران پرویزمشرف نے کمر درد کو جواز بنا کر ملک سے باہر جانے کی اجازت حاصل کرلی اور 18 مارچ 2016ء کو وہ دبئی روانہ ہوگئے۔ جاتے ہوئے وہ چند مہینوں میں وطن واپس آکر مقدمات کا سامنا کرنے اور سیاست میں متحرک کردار ادا کرنے کا اعلان کر گئے، لیکن تاحال واپس نہیں لوٹے۔ بیرون ملک روانگی کے بعد ان کی ایک تقریب کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں وہ شاداں وفرحاں محو رقص دکھائی دیتے تھے، اس ویڈیو کے سامنے آنے بعد ان کے ’کمر درد‘ کے بارے میں چہ می گوئیاں بڑھ گئیں کہ کمردرد تو ویسے بھی کوئی ایسا مہلک عارضہ تو نہیں، جس کا علاج اندرون ملک ممکن ہی نہ ہو اور ملزم معمولی بیماری کو جواز بنا کر عدالت میں پیش نہ ہو اور ملک سے باہر چلا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ان کی سفارش کی تھی۔

100سال پرانے مقدمے کا فیصلہ
30جنوری 2018ء کو عدالت عظمیٰ میں جائیداد کی تقسیم کا ایک صدی پرانے مقدمے کا فیصلہ سنایا، جو 1918ء سے زیرسماعت تھا۔ صوبہ پنجاب کے جنوب میں واقع شہر بہاول پور کے علاقے خیر پور ٹامے والی کے رہائشی محمد نصراللہ کی پڑدادی روشنائی بیگم نے جو اس وقت انڈین صوبے راجستھان میں رہائش پذیر تھیں، جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے اپنے بھائی شہاب الدین کے خلاف ایک درخواست 1918ء میں سول عدالت میں دائر کی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اس جائیداد کے بدلے میں پاکستان میں ضلع بہاولپور اور ضلع مظفر گڑھ میں زرعی اراضی کے 36 ہزار یونٹ فراہم کیے گئے جو کہ 56 مربع بنتے ہیں۔ اس وقت اس جائیداد کے قانونی ورثا کی تعداد 500 سے تجاوز کرچکی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق ان قانونی ورثا میں جائیداد کی مساوی تقسیم ایک مشکل عمل ہوگا۔

۔۔۔۔۔

نواز شریف کا کیس سننے کے لیے چیف جسٹس ڈس کوالیفائی ہوچکے ہیں، جسٹس وجیہہ الدین احمد
عدالتی ضابطۂ اخلاق کے تحت جج کو جذباتی نہیں ہونا چاہیے، متلون مزاج نہیں ہونا چاہیے اور سب سے بڑی چیز یہ کہ عدالتوں کے کام میں شفافیت ہونی چاہیے۔ اب میں آپ کو اس کی ایک مثال بتاتا ہوں۔ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت کچھ لوگوں کو نااہل قرار دیا گیا۔ اور عدالت میں یہ تبصرے کیے جا رہے ہیں کہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت جو بندہ صادق و امین نہیں رہا اس کی سزا کی کوئی میعاد ہے یا نہیں ہے۔ اب پہلی چیز یہ کہ ہمارے چیف جسٹس صاحب نے پانچ رکنی بینچ بنادیا وہ کیس تیس تاریخ کو لگنے والا تھا لیکن انہوں نے اس سے پہلے ہی بھری عدالت میں کہا کہ ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ یہ سزا ایک سال کی ہے۔

تین سال کی ہے، یا پانچ سال کی ہے۔ اب یہ بتائیے کہ آپ نے اس معاملے کو اوپن کرنے پہلے ہی اس بات کا اظہار کردیا کہ سزا کی میعاد ایک سال ہے، تین سال ہے یا پانچ سال ہے، جب کہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف تو کسی مدت کی بات ہی نہیں کر رہا۔ 2013 میں سپریم کورٹ کے کم از کم دو فیصلے ایسے ہیں جس میں انہوں کہا کہ باسٹھ ون ایف کے تحت ملنے والی سزا لامتناہی ہے، اس میں مدت کی کوئی قید نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد آپ نے نوازشریف کے بارے میں فیصلہ سنانے والے کیس میں شامل دو سنیئر ترین ججز آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار کو اس بینچ میں شامل نہیں کیا۔ اس پانچ رکنی بینچ میں معاملہ احتساب عدالت میں بھیجنے والے صرف دو ججوں کو رکھا گیا۔

آپ نے سنیئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل کیوں نہیں کیا؟ ایک جج صاحب جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے ہیں، عمر عطا بندیال، انہیں آپ نے بینچ میں شامل کرلیا۔ پھر آپ نے جو پانچواں جج رکھا ہے وہ سپریم کورٹ کا موسٹ جونیئر جج ہے، تو بھئی آپ یہ کر کیا رہے ہیں، یہ ہو کیا رہا ہے؟ اگر آپ نے پہلے سے ایک کیس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کردیا تو اپ نے خود کو ڈس کوالیفائی کردیا۔ ویسے بھی نوازشریف کا کیس سننے کے لیے پہلے ہی ڈس کوالیفائی ہیں، کیوں کہ نوازشریف کے پچھلے دور حکومت میں تو آپ وفاقی سیکریٹری قانون تھے۔ جب عدالتوں میں شفافیت نہیں ہوگی تو ظاہر ہے لوگ کہیں گے کہ ووٹ کا تقدس پامال کردیا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جب یہ کیس احتساب عدالت میں زیرالتوا ہے اور مہینے کے اندر اندر فیصلہ آجانا ہے، تو آپ کو اس وقت یہ کیس لینے کی ضرورت کیا تھی؟ آپ پہلے سے ہی اس بات کا تعین کیوں کرنا چاہتے ہیں کہ مدت سال بھر کی ہے دو سال کی ہے یا تین سال کی ہے، آپ تو اسے چار ماہ کی بھی کرسکتے ہیں، تاکہ نوازشریف اگلے انتخابات میں حصہ لے لیں، یہ کیا مذاق چل رہا ہے بھئی؟n
(س ۔ ب ۔ ع)

۔۔۔۔۔

دورانِ مقدمہ ججز کو اخبار نہیں پڑھنا چاہیے، ناصر اسلم زاہد
انگلینڈ میں جیوری ارکان فیصلے سے قبل نہ ٹی وی ریڈیو سن سکتے ہیں ، نہ کسی سے بات یا ملاقات کرسکتے ہیں۔
حکومت کے ساتھ ساتھ عدالتی عملے کو بھی صحیح ہونا چاہیے انہیں راہ نمائی کرنی چاہیے۔ آپ کبھی کورٹ جائیں تو پتا چلتا ہے کہ پچاس کیس لگے ہوئے ہیں، سب جاکر ریڈر کے پیچھے لگے ہوتے ہیں، وہاں رشوت بھی چلتی ہے، جان پہچان بھی چلتی ہے وہ (ریڈر) آپ کو کہتا ہے کہ آدھے گھنٹے بعد آئو تاریخ لگ جائے گی۔ تاریخ دینے کا ایک منظم طریقہ کار ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدالتی فیصلے پر تنقید ضرور ہونی چاہیے لیکن یہاں ججمنٹ کا سوال ہے اگر آپ دوران سماعت کسی کیس پر تنقید کرتے ہیں تو اس کے کیس پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ ججز اخبار نہیں پڑھتے غلط ہے، حالاںکہ کیس چلنے کے دوران انہیں اخبار نہیں پڑھنا چاہیے۔

انگلینڈ کا مجھے معلوم ہے وہاں جیوری بیٹھتی ہے جو حقائق پر اور قانون پر فیصلہ جج کرتا ہے، یعنی اس آدمی نے یہ قتل کیا ہے یا نہیں یہ فیصلہ جیوری اور سزا کیا ملنی چاہیے اس بات کا فیصلہ جج کرتا ہے۔ بارہ افراد پر مشتمل جیوری سے صبح آنے کے بعد حلف لیا جاتا ہے، اس کے بعد جیوری کے ارکان کسی سے بات نہیں کرسکتے، کسی سے مل نہیں سکتے، ٹی وی، ریڈیو نہیں سن سکتے، اخبار نہیں پڑھ سکتے۔ اس کے بعد سب مل کر حقائق پر فیصلہ کر دیتے ہیں اور جج صاحب فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ لیکن ہم یہاں یہ نظام نہیں چلا سکتے کیوں کہ ایک تو یہ منہگا بہت ہے، دوسرا یہاں عام آدمی پر کوئی بڑا آدمی، جاگیردار حاوی ہوجائے گا۔
(س ۔ ب ۔ ع)

۔۔۔

شاہ کار عدالتی کارروائیاں
٭ 52سال سے زیر التواکیس
کراچی کے علاقے بنارس چوک کے رہائشی ’’ن‘‘ (مدعی کی درخواست پر نام نہیں دیا گیا) کے دادا کی زمینوں پر ایک دوسرے فریق نے قبضہ کرلیا، جس پر ان کے دادا نے 1966میں سندھ ہائی کورٹ میں اپنی زمین واگزار کرانے کے لیے مقدمہ درج کرایا۔ زمین پر ملکیت کے دعوے دارفریقین زمین پر اپنی ملکیت کا خواب دیکھتے دیکھتے رزق زمین ہوگئے۔ یہ کیس ہائی کورٹ اپیل میں بھی گیا، سپریم کورٹ میں بھی گیا اس کے بعد ریمانڈ ہوگیا اور سپریم کورٹ نے اس کیس کو واپس ہائی کورٹ بھیج دیا کہ جی اس کی دوبارہ سماعت کرکے دوبارہ فیصلہ دیں۔

پھر 51سال بعد 15 اگست 2017 کو سندھ ہائی کورٹ نے اس کیس پر فیصلہ دے دیا۔ لیکن اب ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف مخالف فریق نے پھر اپیل دائر کردی ہے۔ اب یہ کیس دوبارہ سے چلے گا۔ ہمیں اپنی ہی زمین پر ملکیت کا حق ثابت کرنے میں نصٖف صدی لگ گئی ہے اور یہ بھی نہیں پتا کہ اپیل پر فیصلہ ہونے میں ایک سال لگے، دو سال لگے، ہوسکتا ہے کہ اس اپیل پر فیصلہ ہونے کے بعد دوسرا فریق بھی اپیل دائر کردے، اس طرح اس کیس کے فیصلے میں ساٹھ سال بھی لگ سکتے ہیں۔

یہ ایک کیس تو محض’ مشتے نمونے ازخر وارے‘ کے طور پر دیاگیا ورنہ ایسے ہزاروں مقدمات ہیں، جو پچاس، پچاس ساٹھ، ساٹھ سالوں سے زیر التوا ہیں۔ دادا کی جانب سے دائر کیے گئے کیس کی پیروی میںاب پوتا پڑپوتا اپنے جوتے گھسیٹ رہا ہے۔ کتنے ہی سائلین نظام عدل سے انصاف کی امید لیے اس جہان فانی سے رخصت ہوچکے ہیں، لیکن انصاف ابھی تک ان کے لیے شجرِ ممنوعہ بنا ہوا ہے۔ عدالتوں نے حالیہ برسوں میں ایسے کئی فیصلے سنائے جس میں سزائے موت کے ملزم کو بے گناہ قرار دیا گیا لیکن ہمارا جیل کا ’ فرض شناس‘ عملہ اسے فیصلے سے دو سال قبل ہی تختہ دار پر لٹکا چکا تھا۔

مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کتنے ہی نوجوانوں کا مستقبل تاریک کرچکی ہے۔ دس ، پندرہ سال جیل میں رکھنے کے بعد آپ اسی نوجوان کو بے گناہ قرار دے دیتے ہیں جو اپنی زندگی کے قیمتی سال آہنی سلاخوں کے پیچھے گذار دیتا ہے۔ پنجاب کے ایک گائوں میں مختاراں مائی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور بعدازاں ایک ملزم کو سزائے قید دے کر باقیوں کو چھوڑ دیا گیا۔ بلوچستان میں مریضوں کی مسیحائی کرنے والی ڈاکٹر شازیہ کو درجنوں محافظوں میں گھرے قدرتی گیس کے پلانٹ میں اس کے اپنے ہی گھر میں جنسی اور جسمانی تشدد نشانہ بنایا گیا، لیکن وہ آج تک انصاف کی منتظر ہے اور عدالت نے بھی شاید کچھ نا گزیر وجوہات کی بنا پر ملزمان کے خلاف سوموٹو ایکشن نہیں لیا! آخر انصاف کے لیے دوہرا معیار کب تک!

ایک دھرنے میں چیف جسٹس آف پاکستان کو درجنوں میڈیا کیمروں کے سامنے گالیاں دی جاتی ہیں، لیکن اسے توہین عدالت کا مرتکب قرار نہیں دیا جاتا! بڑے کیسز میں ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا! سرے محل سے رائے ونڈ تک، حسین حقانی، سیف الرحمان سے واجد شمس الحسن تک بدعنوانیوں، اقربا پروری اور عوامی حقوق کی پامالی کی ایک طویل فہرست ہے۔ایک عام آدمی کے ذہن میں آج بھی یہی سوال گردش کرتا ہے کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر ان طاقت ور افراد کے خلاف سو موٹو ایکشن نہیں لیا گیا؟ کیا ازخود نوٹس لینے کی حد، زیادتی ، قتل کے مقدمات تک محدود ہے؟ کیا ہمارا طبقئہ اشرافیہ قانون سے ماورا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ملک کی دولت لوٹنے والے کرپٹ عناصر کے خلاف بھی ایک ازخود نوٹس لیا جانا چاہیے۔
(س ۔ ب ۔ ع)

۔۔۔

مختلف عدالتوں زیرالتوا مقدمات
زیرسماعت مقدمات کے بارے میں سائلین شکایت کرتے ہیں کہ مبینہ طور پر تاریخ بڑھوا کر وکیل دیگر مقدمات میں مصروف رہتے ہیں۔ اسلام آّباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر طارق محمود جہانگیر مقدمات کی سست روی میں وکلا کو برابر کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان (Law and Justice Commission of Pakistan) کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیرالتوا ہیں۔ جن میں عدالت عظمیٰ میں 38 ہزار 539 اور ملک کی پانچ ہائی کورٹوں میں 2 لاکھ 93 ہزار 947 مقدمات زیر التوا ہیں، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے: لاہور ہائی کورٹ میں 1 لاکھ 47 ہزار 542، سندھ ہائی کورٹ میں 93 ہزار 335 ، پشاور ہائی کورٹ میں 30ہزار 764، بلوچستان ہائی کورٹ میں 6 ہزار 30 اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں 16 ہزار 278 مقدمات زیرالتوا ہیں۔ اسی طرح ملک کی ضلعی عدالتوں میں زیرالتوا مقدمات کا شمار کچھ اس طرح ہے۔ پنجاب میں 11 لاکھ 84 ہزار 551، سندھ میں 97 ہزار 673 ، خیبر پختونخوا میں 2لاکھ 4 ہزار 30، بلوچستان میں 12ہزار 826 اور اسلام آباد میں 37ہزار 753 مقدمات زیرالتوا ہیں۔

ریٹائرمنٹ کے بعد عہدے
عدلیہ کے ناقدین کہتے ہیں کہ اہل اقتدار اور سیاست دان ججوں سے من مانے فیصلے کرانے کے بدلے انہیں مبینہ طور پر بعد از ریٹائرمنٹ اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرنے کا لالچ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں سبک دوش ججوں کی مختلف عہدوں پر تعینات کی مثالیں موجود ہیں، تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد عہدے کی صورت میں کسی جانب داری کا ہی صلہ دیا گیا ہو، بہت سے معزز ججوں کی تعیناتی اُن کے احترام اور بلند کردار کے سبب بھی ہوئی۔

1997ء میں جب صدر فاروق احمد لغاری مستعفی ہوئے، تو مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کو صدرمملکت بنایا، رفیق تارڑیکم نومبر 1994ء کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ اس سے قبل ساتویں چیف جسٹس حمود الرحمان ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل ضیا الحق کے مشیر برائے قانونی امور رہے۔ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے۔ چیف جسٹس ارشاد حسن خان 6 جنوری 2002ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے سے ریٹائر ہوگئے، جس کے بعد وہ چیف الیکشن کمشنر بن گئے۔ سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کو 2008ء میں نواز لیگ نے اپنا صدارتی امیدوار نام زَد کیا، لیکن وہ سرخرو نہ ہوسکے، پھر 2016ء میں انہیں گورنر سندھ بنایا گیا۔ 2013ء میں پاکستان تحریک انصاف نے سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کو بھی امیدوار نام نام زَد کیا، لیکن ان کے مقابل ممنون حسین کام یاب ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔