ریاست اور بیانیہ

جاوید قاضی  ہفتہ 10 فروری 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

بات اگر ایک اینکر کی ہوتی تو زخم بھر بھی جاتے مگر یہ داستان طویل اور بہت دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایک کونے سے پکڑو تو دوسرا کونا ہاتھ سے پھسل جائے۔

اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے
لب پر لاؤں تو میرے ہونٹ سیاہ ہوجائیں

مشال کیس کا فیصلہ آیا، خوش آیند بات ہے مگر جن مجرمان کو رہا کردیا گیا، ان کے استقبال کے لیے یار لوگ پہنچ گئے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مشال پر جو الزام تھا وہ قطعا حقیقت سے دور اور جھوٹ پر مبنی تھا۔ میں جس بات کا ذکرکررہا ہوں وہ یہ ہے کہ اس سلسلے کو اب کون روکے گا۔ جہاں DNA  ٹیسٹ حرام ہے، لڑکیوں کو تعلیم دلوانا گناہ ،غداری اور تہمتوں کے فتوے دینا آسان اور وہ اس طرح بازار میں بکتے ہوں جیسے کہ جعلی ڈگریاں۔ سب اینکرز وہاں پہنچ گئے تھے۔ ایسے کئی افراد ہونگے، چھوٹے موٹے ادارے ہونگے جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں۔ راؤ انوار بھی انھیں میں سے تھے اور ایسے راؤ انوار اور بھی ہونگے جو ابھی بھی آزادی سے گھوم رہے ہیں۔

ہوا کیا؟ ہم اب بھی اسی جگہ پر کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ ارتقاء کی مسافتیں ہیں کہ آگے بڑھ نہیں پا رہیں۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ سب کچھ ساکت ہے اور وہیں رکا ہوا ہے۔ یہ جمہوریت کے رکھوالے تھے جن کو راؤ انوار چاہیے تھا اور یہ ہماری میڈیا کی ریٹنگ کا سوال تھا کہ ہمیں ڈاکٹر شاہد مسعود چاہیے تھے۔ بھلا ہو سپریم کورٹ کا کہ اس نے کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا۔ یہ کام سپریم کورٹ سر انجام نہ دیتی توکیا مقننہ کرتی۔ جوڈیشل ایکٹوزم کتنا ہی برا کیوں نہ ہو مگر وہ آتا اپنے مخصوص حالات میں ہے اور یہی بات ہمارے چیف جسٹس نے کہی تھی کہ حکومت کی نا اہلی نے ہمارا کام دگنا کردیا ہے۔ NAB کے چیئرمن کل لاہور میں کیا کہہ رہے تھے۔’’چوراسی ارب ڈالرکا مقروض ملک، یہ پیسے کہاں خرچ ہوئے۔‘‘

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

یہ سال الیکشن کا سال ہے ہم بہت سی مسافتیں طے بھی کر آئے، آگے نکل بھی آئے مگر جمہوریت ہے کہ پنپ نہیں رہی اس کے باوجود بھی یہی ہے کہ، یہی جمہوریت ہے اور جو ہے اس کے سواء کچھ بھی نہیں مگر دیکھیں کہ یہ کتنی پسماندہ ماہیت میں ہے۔

جمہوریت اورکچھ بھی نہیں ہماری ہی جھلک ہے یہ اینکر بھی ہے، یہی افسران اعلیٰ بھی، حکمران بھی اور سیاستدان بھی یہ سب ہمارا ہی عکس ہے۔ اب معاملہ درست ہو توکیسے؟ کہاں سے اورکہاں سے کوئی راہ نجات ملے۔ کافکا نے ایک چھوٹی سی کہانی میں ایک چھوٹے سے چوہے کا ذکرکیا ہے جو شروع شروع میں بڑی اچھل کود کرتا ہے کہ جہاں چاہے نکل پڑے کھلا آسمان،کھلی فضائیں اورکھلا میدان جو چاہے وہ کرے۔ پھر ایک دن یہ کھلی فضائیں اورکھلا میدان اس پر تنگ ہونا شروع ہوگیا اور پھر اپنے آپ کو وہ بند گلی میں تنہا پاتا ہے۔ چوراسی ارب ڈالرکا مقروض یہ ملک بھی ایک بند گلی کے مانند ہے، ایک بے گناہ مشال کا قتل جس پر رتی برابر الزام ثابت نہ ہوسکا، اس کے مجرموں کا رہا ہونا اور پھر ان کا والہانہ استقبال یہ اندھیر نگری ہی تو ہے۔

خادم حسین رضوی کو پنڈی کی راہوں پر کون لایا اور وہ جو پارلیمنٹ کو لعنت ملامت کر رہے تھے وہ کیا تھا۔ DNA  ٹیسٹ کے لیے اگر Lab  نہ ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ زینب اور عاصمہ کے قاتلوں تک پہنچا جا سکتا۔

کراچی میں جسٹس مسلم امیرہانی کی سربراہی میں واٹرکمیشن کے سلسلے میں تمام اسپتالوں کے سپریٹنڈیٹ تبدیل کر دیے گئے، وہ اگر ایسا نہ کرتے تو کیا کرتے یہاں خون سستا اور پانی مہنگا ہے۔ نوے فیصد پاکستانیوں کو صاف پانی میسر نہیں۔ پاکستان کے تین صوبوں کا حال تو خستہ ہی ہے مگر خادم اعلیٰ کے پنجاب کے اسپتالوں کے حال بھی دیکھیے۔ سسٹم پر ایک جمود طاری ہے۔ تو بتایے کہ اس سسٹم میں ایک چھوٹا سا سوموٹو ایکشن بھی کیا کرسکتا ہے۔

قلم تیزی سے چل پڑا کہا کہ 72 گھنٹے میں راؤ انوارکو حاضرکیا جائے۔ راؤ انوار ہو تو ملے اور پھر کچھ یوں ہوا کہ دس دن کی Extension  دی گئی۔ میں نے قانون کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ State is An Abstract Entity  (ریاست ایک تجریدی اکائی ہے) کوئی اس کا سینٹرل ترجمان نہیں ہوتا۔ یہ مختلف اداروں اور آئین کے مطابق بولتی ہے، کہتی ہے، عمل در آمد کرواتی ہے اور فیصلے صادرکرتی ہے، مگر یہاں ماجرا کچھ اور ہے کل مشال کے مجرم جب رہا ہوئے اور جو لوگ ان کا استقبال کرنے آئے تھے کیا وہ ریاست کے تجریدی اکائی کے مؤقف پر پورے اترتے تھے۔ کیا وہاں ریاست کا وجود تھا ان کو روکنے کے لیے۔ بس وہ ہی خود ریاست تھے، خود ہی عدالت، فیصلہ صادرکیا اور چل دیے۔ مشال اس قوم کا بیٹا تھا۔ اس کا قصور کیا تھا کبھی اس حقیقت کو پرکھا گیا۔ یہ ہواکہ صرف الزام لگا اور جان سے ماردیا گیا اور مارنے والا جب بری ہوجائے تو اس کا والہانہ استقبال ہوا ۔کہاں تھی ریاست اس وقت، کہاں تھی عدالت اورکہاں تھا قانون۔

’’ روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں ۔‘‘

ہمارا معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ ہمارا بیانیہ ہماری ریاست کا لاشعور بن چکا ہے۔ جس میں گیارہ اگست کی تقریر منہدم ہے اور ضیاء الحق کی تقاریر حاوی ہیں، یہ بیانیہ ہم سب نے مل کر بگاڑا ہے۔ میں نے آپ نے سب نے، اور یہ ہمیں ڈس رہا ہے۔ ہم جو اسمارٹ فون لے کر گھومتے ہیں، جس سوشل میڈیا کے عادی ہیں جو ٹی وی میرے کمرے میں لگا ہوا ہے اس سے بار بار، بار بار یہ بیانیہ مجھ میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ بھی شکرکا مقام ہے کہ ہم نے DNA Test  کو آزاد کروایا اور یہ بھی شکر ہے کہ پوری دنیا میں ایک سلسلہ چل پڑاہے Sexual Harassment  کے خلاف۔ چلیں آج بھی مان لیں کہ ہم لاشعوری طور پر عورت کو فقط ایک جنس ہی سمجھتے ہیں۔

کیا ہمیں اس بات کا علم ہے کہ پوری دنیا میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے سب سے پسماندہ ملک پاکستان ہے اور یہ رویہ بھی ہمارے بیانیے کا ہی عکس ہے۔ DNA پر ہمارا مؤقف State is An Abstract Entity  واضح ہے مگر پولیو کے ڈراپس ہو ں یا DNA یہ سب ہمارا بیانیہ ہے جو ہمیں ہر بار ڈستا ہے۔ اس بیانیے میں بگاڑ پیدا کرنے والے بھی جنرل ضیاء الحق تھے۔ ہمارا مؤقف state is an abstract entity بہت مختلف ہے جس کے بانی جناح ہیں، جو پاکستان کے 1973 ء کے آئین پر منحصر ہے جس میں پاکستان کی تمام اقلیتوں کو مساوی حقوق ملتے ہیں لیکن جو بیانیہ جنرل ضیاء نے دیا وہ بالکل جدا ہے۔

یہ بیانیہ تفرق اور بنیاد پرستی کا حامی ہے۔ آئیے کہ اب ہم سچ بولیں،اس عہد کا سچ کیونکہ یہ جو سب کچھ ہورہا ہے وہ آپ کی اور ہماری طویل خاموشی کا نتیجہ ہے۔اس سے پہلے کہ یہ خاموشی وجہ بن جائے کسی عدم یقینی اور عدم تحفظ کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔