شفاف انتخابات کے لیے سیکیورٹی پلان

 جمعرات 28 مارچ 2013
اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ آج پاکستان اتنا محفوظ نہیں ہے جتنا الیکشن 2008 میں تھا۔ فوٹو: فائل

اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ آج پاکستان اتنا محفوظ نہیں ہے جتنا الیکشن 2008 میں تھا۔ فوٹو: فائل

انتخابات 2013 کے شفاف انعقاد کے لیے ملک بھر میں پیش رفت جاری ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے محکمہ داخلہ سندھ نے انتخابی مہم کے لیے مرتب کردہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرانے اور سیکیورٹی کے لیے پلان مرتب کرلیا گیا ہے جس کے مطابق انتخابی جلوں، ریلیوں اور کارنر میٹنگز کے لیے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا۔

انتخابی مہم کے دوران صوبے بھرمیں اسلحہ کی نمائش یا اسلحہ ساتھ لے کر چلنے پر مکمل پابندی ہوگی، کسی جماعت کا رہنما یا امیدوار انتخابی مہم کے دوران اپنی حفاظت کے لیے رکھے گئے سیکیورٹی گارڈز کی باقاعدہ اجازت محکمہ داخلہ سے حاصل کرے گا، انتخابی مہم کے دوران سیاسی رہنماؤں اور امیدواروں کو اشتعال انگیز اور مذہبی منافرت پھیلانے والی تقاریر کرنے پر پابندی عائد ہوگی، تمام جماعتیں انتخابی پوسٹرز، بینرز اور پمفلٹس الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق آویزاں کریں گی جب کہ لاؤڈ اسپیکر کااستعمال بھی الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے مطابق کیا جائے گا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک بھر میں تقریباً 4ہزار حساس ترین پولنگ اسٹیشنوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں 50 ہزار کے قریب فوجی اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔ سیکیورٹی ذرایع کے مطابق حساس مقامات والے پولنگ اسٹیشن خیبر پختونخواہ، بلوچستان، کراچی اور حیدرآباد میں ہیں جن کی نشان دہی کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے 11 مئی کو پولنگ کے دن کراچی کو سیکیورٹی کے لحاظ سے3 زونز میں تقسیم کیا جائے گا، پہلے زون میں انتہائی حساس ترین، دوسرے زون میں حساس اور تیسرے زون میں نارمل پولنگ اسٹیشنز کے لحاظ سے سیکیورٹی  پلان کو مرتب کیا جائے گا۔

سیکیورٹی خدشات کے نظریے پر تقریباً تمام ہی پارٹیاں متفق ہیں، اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ آج پاکستان اتنا محفوظ نہیں ہے جتنا الیکشن 2008 میں تھا، پرتشدد واقعات کا گراف انتہائی بلند ہوچکا ہے، مذہبی انتہاپسندی اور عدم برداشت کی صورتحال 5 سال کے دوران مزید خراب ہوچکی ہے، طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں کی تعداد بھی بڑھ چکی ہے اور پاکستانی طالبان 5 سال اقتدار میں رہنے والی ملک کی 3 بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو کھلی دھمکی دے چکے ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن سندھ نے  انتخابی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے مانیٹرنگ ٹیمیں بھی تشکیل دے دی ہیں جو امیدوار کی انتخابی مہم کی نگرانی کریں گی۔

اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ ایک خبر ایجنسی کے مطابق الیکشن 2013 پر مہیب خطرات کے بادل چھائے ہیں۔ گزشتہ روز لیاری کے علاقے میں رینجرز کی کارروائی اور قبر سے اسلحہ ملنے کے بعد دہشت گردی کے خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں کراچی میں انتخابی حلقوں میں تبدیلی اور نئی حلقہ بندیوں پر متحدہ قومی موومنٹ کے تحفظات جاری ہیں لیکن الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ کراچی میں انتخابی حلقوں میں قانون کے مطابق رد و بدل کیا گیا ہے، سندھ ہائیکورٹ میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس مرحلے پرکوئی تبدیلی کی گئی تو پورا انتخابی عمل متاثرہوگا، مزید تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ ضلع نوشہروفیروز کی حلقہ بندی کے لیے قائم کردہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کردی ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے کوئٹہ پہنچنے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں حلقہ بندیوں کے لیے کوئی درخواست نہیں کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر صورت حال اطمینان بخش ہے، محکمہ داخلہ سندھ کی طرح دیگر صوبوں میں بھی انتخابی مہم کے لیے مرتب کردہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرانے اور سیکیورٹی کے لیے پلان  مرتب کیا جانا چاہیے۔ اگر یہ سسٹم اسی طرح چلتا رہا تھا تو بلاشبہ ہم کہہ سکیں کہ 1970ء کے بعد 2013ء  کے انتخابات پاکستان کی تاریخ میں دوسرا شفاف ترین الیکشن ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔