پاگل بنا کے رکھ دیا

رئیس فاطمہ  اتوار 11 فروری 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کبھی جب خبر اور تفریح کا ذریعہ صرف ریڈیو ہوا کرتا تھا، اس وقت خبر اور انٹر ٹینمنٹ تک سب پر متعلقہ شعبوں کے افسران اور پروڈیوسر کی نظر ہوتی تھی، حتیٰ کہ تلفظ  کی ادائیگی تک کو نوٹ کیا جاتا تھا، لوگ ریڈیو کے پروگراموں سے اپنا تلفظ درست کرتے تھے، خبروں میں سچائی ہوتی تھی، خاصی چھان پھٹک کے بعد خبر نشر کی جاتی تھی۔

ڈائریکٹر نیوز کی جان سولی پہ لٹکی ہوتی تھی، اس لیے وہ اپنے ذرائع سے بھی خبرکی تصدیق کے بعد نیوز ریڈرکو بھجواتا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ موسیقی کے پروگراموں میں بھی اشعار کی درستگی، انداز بیان اور تلفظ کی بڑی اہمیت تھی، زیڈ۔اے بخاری اس معاملے میں بہت سخت تھے، ایک بار ایک مغنیہ غالبؔ کی غزل کچھ یوں اضافتوں کے ساتھ گارہی تھیں۔

قید و ِحیات و بند و غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

بخاری صاحب غزل سن رہے تھے۔ پروگرام لائیو تھا، اس لیے کچھ نہ بولے، البتہ پروگرام ختم ہونے کے بعد مغنیہ کو بلوایا اور بولے ’’بی بی آپ کو تو پہلا مصرعہ یوں گانا چاہیے تھا:

قید و حیات و بند غم اصل میں ’’چاروں‘‘ ایک ہیں پھر سرزنش کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ جب لوگوں نے پہلا مصرعہ اضافتوں کے ساتھ سنا ہوگا تو میوزک انچارج اور مغنیہ کے بارے میں کیا سوچا ہوگا کہ غالبؔ کی غزل بھی صحیح طور سے گائی نہ گئی اور کوئی شعر کی تصدیق کرنے والا نہ تھا۔ یہ کہہ کر خود بخاری صاحب نے نہ صرف مغنیہ کی کلاس لی بلکہ انھیں صحیح مصرعے کی ادائیگی بھی بتائی کہ اصل مصرعہ یہ ہے:

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

پھر PTV آیا تو وہاں بھی ابتدا میں بخاری صاحب اور اسلم اظہر جیسے مستند اور کھرے لوگ موجود تھے۔ لہٰذا وہاں بھی تلفظ اور خبر کی حرمت کا خیال رکھا جاتا تھا۔ باقاعدہ تجربہ کار لوگ اس بات پہ نظر رکھتے تھے کہ کوئی خبر غلط نہ ہو اور بغیر تصدیق کے نشر نہ ہو۔ پھر پہلا دھچکا ٹی وی اور ریڈیو کی خبروں پہ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے وقت لگاکہ ایک طرف B.B.C خبریں دے رہا ہے کہ بھارتی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئی ہیں لیکن عین اسی وقت ہمارا PTV مزاحیہ پروگرام ’’میں نہ مانوں‘‘ پیش کررہاہے اور بتا رہا ہے کہ پاکستانی فوج بڑی بہادری سے لڑرہی ہے۔ اس دن سے ریڈیو اور پی ٹی وی نے اپنا اعتبار کھو دیا۔ لوگ جب تک بی بی سی کی خبریں نہ سن لیتے خبر پہ یقین نہ کرتے۔ یہ سلسلہ آج تک برقرار ہے۔

اور اب تو حد ہوگئی۔ ڈاکٹر شاہد مسعود پر لوگ اعتبار کرتے تھے۔ انھوں نے مختلف میڈیا ہاؤسز میں طبع آزمائی کی، لیکن مجھ سمیت بیشتر لوگ ان کی داستانی الف لیلیٰ کی سچائی کا انتظار کرتے تھے لیکن نتیجے میں کچھ بھی برآمد نہ ہوتا تھا، ان کے سنسنی خیز انکشافات سن کر لوگ ان کے سچ ہونے کا انتظارکرتے، خاص کر ماڈل ایان علی، ڈاکٹر عاصم اور آصف زرداری کے حوالے سے جب وہ جنرل راحیل شریف کے دور اقتدار میں نت نئی کہانیاں سناتے تھے تو لوگوں کے دلوں میں ایک امید جاگ جاتی تھی کہ ’’سب کا حساب ہوگا، کوئی نہیں بچ پائے گا‘‘ لیکن ہوا کیا؟ کسی کو سزا ہوئی؟

دراصل اب صحافی بننے کے لیے کوئی پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے، ڈاکٹر، انجینئر، استاد کو تو چھوڑیے۔ جس کے پاس سفارش ہے وہ تجزیہ کار بن بیٹھا، تمام میڈیا ہاؤسز نے اپنے اپنے گروپ بنالیے ہیں۔ شام سات بجے سے گیارہ بجے تک وہ دھما چوکڑی ہوتی ہے کہ اﷲ دے اور بندہ لے۔ صحافت اب بچوں کا کھیل ہے، خبریں پڑھنے کے لیے نوخیز اداکارائیں تمام جلوؤں کے ساتھ دستیاب ہیں۔ پیسے نہ بھی ملیں تو ’’رونمائی‘‘ کا اپنا ہی ایک نشہ ہوتا ہے۔

خبرنامہ پہلے صاف ستھرا  اور صرف خبرنامہ ہوا کرتا تھا لیکن اب خبر نامہ چوں چوں کا مُربہ ہے۔ اس میں وزیروں کے بیانات بھی ہیں، گالم گلوچ کی پذیرائی بھی ہے، طلاقوں کی خبریں بھی ہیں، شادیوں اور ولیموں کی کوریج بھی، خبرنامے میں خبر ہوتی ہی نہیں۔ میوزیک ہوتا ہے، اشتہاروں کی بھرمار ہوتی ہے وہ بھی بے ہنگم اور گونج دار میوزک کے ساتھ۔ ہر خبر (جوکہ خبر نہیں ہوتی) کے ساتھ دھماکے ہوتے ہیں جیسے نقارے پر چوٹ لگائی جارہی ہو۔

سات بجے سے گیارہ بجے رات تک ٹاک شوزکی جو دھماچوکڑی لگی رہتی ہے وہ انسانی ذہن پر بہت منفی اثرات ڈالتی ہے۔ ریٹنگ کا بھوت الگ پریشان کرتا ہے۔ آخر ہم کیا کریں؟ اپنا سر پھوڑلیں یا ماتھا پیٹیں، خبر سنائی بھی جارہی ہے، دکھائی بھی جارہی ہے اور ساتھ ساتھ نیچے یا اسکرین پر پٹیاں بھی چل رہی ہیں۔ پاگل بناکے رکھ دیا ہے۔ خبر سنیں، دیکھیں یا پڑھیں ساتھ ساتھ ہر خبرکی تکرار کے ساتھ ہتھوڑے بھی برسائے جارہے ہیں۔ بے شمار چینلز میں لیکن آپ کوئی معقول پروگرام دیکھنا چاہیں تو ریموٹ گھماتے جایئے کہیں آپ کو ذہنی تفریح کا کوئی معیاری پروگرام نہیں ملے گا۔

ٹاک شوز کو لیجیے تو لگتا ہے اس ملک میں صرف ’’چند دانشور‘‘ ہیں جو ہر معاملے پر ماہرانہ رائے دینے کے اہل ہیں۔ خواہ وہ باکسنگ کا میچ ہو یا کرکٹ کا، سیاست دانوں کی لڑائیاں ہوں یا اسمبلی والوں کے جھگڑے، اغوا کی وارداتیں ہوں یا فحش فلموں اور فحش مواد کی تفصیل۔ یہ ’’طوطے‘‘ ہر موضوع پر بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ طوطوں کی زبان صاف کروانے کے لیے انھیں ہری مرچیں کھلائی جاتی ہیں تاکہ وہ فر فر بولیں۔ پتہ نہیں ٹاک شوزکے دانشور کیا کھاتے ہیں جو تھکتے نہیں۔ سب سے زیادہ قابل اعتراض بات یہ ہے کہ ہر چینل کے ٹاک شو کا اینکر خود کو ارسطو کا استاد سمجھتا ہے۔ ’’آبروئے شیوۂ اہل نظر‘‘ مدتیں ہوئیں خاک میں مل گئی۔

دوسری طرف ڈراموں کا حال دیکھئے وہی روایتی ساس بہو، نند بھاوج، دیورانی جیٹھانی کے جھگڑے اور گھریلو سازشیں۔ عورتیں کوئی پازیٹو کام نہیں کرسکتیں، صرف سازشیں کرتی ہیں اور شوہروں کو اُلو بناتی ہیں۔ سکون اور تفریح کے لیے کوئی ڈراما دیکھنے کی کوشش کیجیے تو ہر جگہ آنسو، دھوکا، رومان، لڑائی، رشتوں کا تقدس پامال جس ڈرامے میں جتنے زیادہ آنسو، تھپڑ اور سازشیں ہوںگی اسے اتنے ہی زیادہ اشتہار ملیں گے۔

دروغ برگردن راوی کہ ایک چینل اسی حوالے سے خاص شہرت رکھتا ہے اور اسے غیر ملکی NGO سے فنڈز بھی اسی لیے زیادہ ملتے ہیں کہ وہ پاکستانی عورت کو روتا بلکتا دھاڑیں مار کر روتا، شوہر اور سسرال والوں کی جوتیاں کھاتا دکھائے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سول سوسائٹی کا پڑھا لکھا مرد زیادہ مظلوم ہے، وہ ملازمت بھی کرتا ہے، بیوی کے نخرے بھی اٹھاتا ہے، سسرال والوں سے دبتا بھی ہے، بچوں کو آؤٹنگ پہ اور بیگم کو ڈنر پہ بھی لے کر جاتا ہے، لیکن پھر بھی ظالم کہلاتا ہے۔

البتہ کم تعلیم یافتہ طبقہ خصوصاً جن کا تعلق پسماندہ علاقوں اور دیہاتوں سے ہے وہاں واقعی عورت مظلوم ہے۔ ڈراموں میں فحاشی اور کم لباسی کو بھی فروغ دیا جاتا ہے۔ڈرامہ نگاروں میں اکثریت کا تعلق ڈائجسٹ رائٹرز سے ہے جہاں رومانس اور شادی بنیادی مسئلہ ہے۔ برسوں سے موسیقی کا کوئی بھی اچھا پروگرام پیش نہیں کیا جاتا۔ ایک اکیلا پی ٹی وی سرساگر، نکھار، محفل موسیقی اور دیگر دوسرے ناموں سے موسیقی کے بہترین پروگرام نشر کرتا تھا۔

مہناز، ناہید، اختر، طاہرہ سید، رونا لیلیٰ، نگہت سیما، ملکہ پکھراج، نور جہاں، ترنم ناز، نسیم بیگم، ایس بی جون، ایم کلیم اور بہت سے دوسرے گلوکاروں کو پی ٹی وی ہی نے روشناس کرایا گو کہ یہ سب پہلے ریڈیو کے فنکار تھے، ریڈیو پاکستان کا موسیقی کا شعبہ بہت مضبوط تھا۔ ریڈیو ہر لحاظ سے پی ٹی وی کا استاد تھا۔

کیا گانے والے، کیا ڈرامہ آرٹسٹ، کیا خبریں پڑھنے والے سب ہی ریڈیو سے ٹی وی پر آئے لیکن آج ٹیلی ویژن محض ایک کباڑ خانہ ہے اور کچھ نہیں، خبر کی حرمت حد درجہ مجروح ہوچکی ہے ایسے میں میاں صاحب کا یہ بیان سونے پہ سہاگہ ہے کہ ’’فیصلہ نہ آتا تو بیروزگاری ختم کردیتا، سب کے پاس مکان ہوتا، لوگوں کو فوری اور سستا انصاف ملتا، بڑے پروگرام تھے جن پر پانی پھر گیا‘‘ یا اﷲ الٰہ دین کا چراغ میاں صاحب کے پاس تھا، بالکل ویسا ہی جیسا کہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے اعلان کے وقت تھا۔

دو سال کے بجائے پانچ سال ہوگئے، کراچی میں بد ترین لوڈ شیڈنگ آج بھی جاری ہے، مجھے حیرت ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ والا عرصہ بہت تھوڑا ہے، آئندہ انتخابات قریب ہیں۔ ان کے پاس اگر کوئی ایسا جناتی فارمولا موجود ہے تو وہ موجودہ وزیراعظم کے ذریعے اسے پورا کرسکتے ہیں کیونکہ حکومت تو اب بھی ن لیگ ہی کی ہے اور جوکچھ ہورہاہے اس کے پس پردہ بھی ان ہی کی ذات شریف ہے، سیاست میں شخصیات اتنی اہم نہیں ہوتیں جتنی پالیسیاں۔ آخر وہ کیوں واویلا مچارہے ہیں۔

وہ ایک دبنگ شخصیت ہیں اگر انھیں عوام سے اتنی ہی محبت ہے تو وہ اپنے منصوبے بخوبی پورے کرسکتے ہیں۔ حکومت تو بہر حال ان ہی کی ہے۔ چلیے اورکچھ نہیں تو ذرا سندھ حکومت کی گوشمالی ہی کردیجیے کہ انھوں نے کراچی کوکچرا کنڈی بنادیا ہے۔ آخرکیوں بدبخت کراچی پاکستان کا پہلا دارالحکومت بھی تو رہا ہے، تعصب کے بجائے محبت سے کام لیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔