خطرناک آدمی

جاوید چوہدری  جمعرات 28 مارچ 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

میں نے کل جسٹس شاکراللہ جان کو فون کیا‘ جسٹس صاحب نئی عدلیہ کے معزز ترین ججوں میں شمار ہوتے ہیں‘ یہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے‘ یہ سپریم کورٹ کے جج بھی بنے‘ یہ سپریم کورٹ کے اس نو رکنی بینچ میں بھی شامل تھے جس نے 2007ء میں جنرل مشرف کو وردی میں الیکشن لڑنے کی اجازت دی مگر جسٹس شاکر اور ان کے دو ساتھی ججوں نے اس فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا۔

بینچ کے چھ جج اس فیصلے کے حق میں تھے چنانچہ جنرل مشرف کو دوسری صدارتی مدت مل گئی اور یہ اس سات رکنی بینچ میں بھی شامل تھے جس نے 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دیا اور یہ عدلیہ کی بحالی کے بعد ملک کے نوے فیصد بڑے عدالتی فیصلوں میں بھی شریک تھے‘ ہمیں یہ ماننا پڑے گا پاکستان میں عدلیہ کے موجودہ وقار میں جسٹس شاکر اللہ جان کا بڑا ہاتھ ہے‘ یہ 24 مارچ 2012ء سے 23 جولائی 2012ء تک چیف الیکشن کمشنر بھی رہے‘ جسٹس صاحب 17 اگست 2012ء کو ریٹائر ہوئے اور اسی دن ان کا نام نگراں وزیراعظم کے لیے بھی سامنے آ گیا‘ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی پہلے انھیں چیف الیکشن کمشنر بنوانا چاہتے تھے اور بعد ازاں نگراں وزیراعظم۔

چوہدری نثار علی نے 6 مارچ 2013ء کو باقاعدہ ان کا نام نگراں وزیراعظم کے لیے تجویز کر دیا‘ یہ اپوزیشن کی طرف سے پیش ہونے والے تین ناموں میں شامل تھے‘ یہ نام پیش ہونے کے بعد اسلام آباد میں خبر گردش کرنے لگی جسٹس شاکر اللہ جان نگراں وزیراعظم ہوں گے‘ اس خبر کی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ اپوزیشن تھی‘ یہ نام اپوزیشن کی طرف سے آیا تھا چنانچہ اگر حکومت اس نام پر اتفاق کر لیتی تو نگراں وزیراعظم کا مسئلہ ایک دن میں حل ہو جاتا‘ دوسری وجہ صدر آصف علی زرداری تھے‘ صدر کو بھی جسٹس شاکر اللہ جان پر کوئی اعتراض نہیںتھا‘ یہ سمجھتے تھے جسٹس صاحب ایک نیوٹرل شخص ہیں۔

یہ سپریم کورٹ سے تازہ تازہ ریٹائر ہوئے ہیں اور یہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عدلیہ کے درمیان غلط فہمیاں ختم کرانے میں اہم کردار ادا کریں گے‘ یہ معاملہ ٹھیک چل رہا تھا اور کسی بھی وقت ان کے نام کا اعلان متوقع تھا مگر پھر ایک عجیب واقعہ ہوا اور اس واقعے کی تحقیق نے مجھے کل جسٹس شاکر اللہ جان سے رابطے پر مجبور کر دیا‘ میں نے جسٹس صاحب کو فون کیا اور ان سے ملاقات کا وقت مانگا‘ جسٹس صاحب نے جواب میں فرمایا ’’ آپ ایک خطرناک آدمی سے کیوں ملنا چاہتے ہیں‘‘ ان کے جواب میں دکھ بھی تھا‘ افسردگی بھی اور شکستگی بھی‘ میرے دل پر چوٹ لگی اور میں نے ان سے عرض کیا ’’ میں آپ سے اسی لیے ملنا چاہتا ہوں‘‘ جسٹس صاحب نے مجھے رات کا وقت دے دیا۔

میں ملاقات سے پہلے آپ کو وہ واقعہ بتاتا چلوں جس کی وجہ سے جسٹس شاکر اللہ جان کا نام ڈراپ ہوا‘ جسٹس شاکر اللہ اس تین رکنی بینچ کے سربراہ تھے جس نے 14 جون 2012ء کو بحریہ ٹائون کے سابق چیئرمین ملک ریاض کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی‘ اس کیس کی سماعت کے دوران ملک ریاض کو وکیل نہیں مل رہا تھا‘ سپریم کورٹ کے تمام وکلاء کی خواہش تھی بینچ پہلی سماعت پر ملک ریاض کے خلاف فیصلہ دے دے لیکن جسٹس شاکر اللہ جان نے ریمارکس دیے‘ عدالت بڑے سے بڑے مجرم کو بھی صفائی کا موقع دیتی ہے‘ ہم ملک ریاض کو بھی موقع دیں گے‘ بینچ نے ملک ریاض کو وکیل کرنے کے تین مواقع دیے مگر کوئی وکیل ملک ریاض کا کیس لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔

جسٹس شاکر نے اس دوران پنجاب کے ایک سابق لاء آفیسر کا بندوبست کر لیا ‘ جسٹس صاحب کا خیال تھا اگر ملک ریاض کو وکیل نہیں ملتا تو سپریم کورٹ انھیں اپنی طرف سے وکیل فراہم کر دے گی‘ ڈاکٹر باسط نے اس دوران ملک ریاض کا کیس لے لیا اور یوں ملک ریاض کو عدالت میں صفائی پیش کرنے کا موقع مل گیا‘ ملک ریاض جسٹس شاکر اللہ جان کی اس انصاف پسندی کو نیکی سمجھتے ہیں اور یہ ہر جگہ اس کا کھل کر اظہار کرتے ہیں‘ جسٹس شاکر اللہ جان کا نام جب نگراں وزیراعظم کے لیے سامنے آیا تو ملک ریاض نے صدر کے سامنے اس واقعے کا حوالہ دیا اور جسٹس شاکر کی تعریف کی اور یہ تعریف بعد ازاں جسٹس شاکر کا نام ڈراپ ہونے کی وجہ بن گئی‘ صدر کی میٹنگ میں موجود ایک سینئر وزیر نے یہ واقعہ ایک صحافی کو سنا دیا۔

صحافی نے دوسرے صحافی کو بتایا‘ اس صحافی نے یہ واقعہ ٹویٹر پر شیئر کر دیا اور یوں یہ واقعہ چوہدری نثار اور پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت تک پہنچ گیا‘ چوہدری نثار نے جسٹس شاکر کو ملک ریاض کا ’’ حمایتی‘‘ سمجھ لیا اور ان کا نام فوری طور پر واپس لے لیا‘یہ خبر جب عام ہوئی تو مولانا فضل الرحمن نے چوہدری نثار سے رابطہ کیا‘ چوہدری صاحب نے جواب دیا ’’ جسٹس شاکر اللہ جان کے ایک خطرناک آدمی سے رابطے تھے‘‘ مولانا سے یہ جواب میڈیا تک آ گیا اور یوں جسٹس شاکر اللہ جان شروع میں خطرناک لوگوں کے ساتھی مشہور ہوئے اور بعد ازاں خود خطرناک آدمی بن گئے‘ میں پشاور ہائی کورٹ کی تاریخ کے بہترین چیف جسٹس سے خطرناک آدمی بننے تک کی کہانی سننے کے لیے ان کے پاس حاضر ہوا اور میں یہ سننے کے لیے جسٹس صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔

جسٹس شاکر اللہ جان افسردہ تھے‘ یہ بار بار کہتے ہیں‘ میں چیف الیکشن کمشنر نہیں بننا چاہتا تھا‘ میں نگراں وزیراعظم بھی نہیں بننا چاہتا تھا‘ میری کبھی میاں صاحبان یا چوہدری نثار سے ملاقات نہیں ہوئی‘ میں کبھی صدر زرداری اور ملک ریاض سے نہیں ملا‘ ملک ریاض تین بار میرے بینچ کے سامنے پیش ہوئے اور میں نے انھیں صرف وہ حق دیا جو پاکستان کا آئین ملک کے تمام شہریوں کو دیتا ہے‘ کیا ہم ان کے وکیل کو سنے بغیر انھیں سزا دے دیتے ؟اور وہ اگر اس کے بعد میرے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں تو پھر میرا کیا قصور ہے؟ میں نے مولانا فضل الرحمن کے حسبہ بل کے خلاف فیصلہ دیا تھا لیکن یہ اس کے باوجود میری تعریف کرتے ہیں‘ لوگ اگر اس تعریف پر مجھے مولانا فضل الرحمن کا ساتھی قرار دے دیں تو کیا یہ زیادتی نہیں ہو گی؟

جسٹس شاکر اللہ جان کا کہنا تھا ’’میں نے کسی سے نگراں وزیراعظم بننے کی خواہش نہیں کی ‘ میرا نام اپوزیشن لیڈر نے خود شامل کیا لیکن مجھے ڈراپ کرنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا یہ زیادتی ہے‘ آپ کسی وجہ کے بغیر بھی میرا نام ڈراپ کر سکتے تھے‘ آپ مجھ سے کہہ دیتے‘ میں عاصمہ جہانگیر کی طرح خود معذرت کر لیتا یا آپ یہ بھی کہہ سکتے تھے جسٹس شاکر اللہ جان کی ریٹائرمنٹ کے دو سال پورے نہیں ہوئے چنانچہ ہم ان کا نام واپس لے رہے ہیں لیکن مجھے بلاوجہ خطرناک آدمی کا ساتھی یا خطرناک آدمی ڈکلیئر کردیا گیا اور یہ زیادتی ہے؟

یہ توہین ہے‘ مجھے اس پر افسوس ہے کیونکہ میں اب خطرناک آدمی مشہور ہو چکا ہوں اور میں زندگی میں اب کس کس کو صفائی دوں گا‘‘ جسٹس صاحب کی بات سو فیصد درست تھی‘ ان کی بیگم یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں‘ ان کی تین صاحبزادیاں زیر تعلیم ہیں‘ یہ بھی روز اس الزام کا سامنا کرتی ہیں‘ جسٹس شاکر اللہ جان کی صاحبزادیوں سے ان کی سہیلیاں پوچھتی ہیں آپ خطرناک آدمی کی بیٹیاں ہو اور ان کی بیگم سے بھی پوچھا جاتا ہے ’’ آپ کے شوہر کیا خطرناک کام کرتے ہیں؟‘‘ اور انصاف اور نیک نامی کے طویل کیریئر کے بعد جسٹس شاکر اللہ جیسے انسان اس سلوک کو ڈیزرو نہیں کرتے‘ میرا خیال ہے چوہدری نثار علی اور میاں نواز شریف کو جسٹس شاکر اللہ جان سے معذرت کرنی چاہیے۔

یہ حقیقتاً معزز‘ ایماندار اور نیک نام شخص ہیں‘ یہ واحد جج ہیں جنھیں ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور اور پشاور کی ہائی کورٹ بارنے اعزازی ممبر شپ دی اور انصاف کے عالمی اداروں نے ان کی مہارت اور ایمانداری کی تعریف کی اور صرف سیاست بازی کی وجہ سے ایسے شخص کو خطرناک قرار دے دینا ظلم ہے‘ میاں صاحب اور چوہدری صاحب کو جسٹس شاکر اللہ جان سے معذرت بھی کرنی چاہیے اور میڈیا کے ذریعے ان کا نام ڈراپ کرنے  کی وضاحت بھی بیان کرنی چاہیے کیونکہ اچھے اور نیک لوگوں کا دل توڑنا گناہ ہوتا ہے اور ن لیگ سے یہ گناہ سرزد ہواہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔