ڈاک خانوں کی تعمیر نو کیلیے1 ارب روپے کی ڈیمانڈ

حسیب حنیف  اتوار 11 فروری 2018
حکومت کو485 پوسٹ آفسز کی ری برانڈنگ کیلیے 82 کروڑکا پی سی ون بھی ارسال۔ فوٹو: فائل

حکومت کو485 پوسٹ آفسز کی ری برانڈنگ کیلیے 82 کروڑکا پی سی ون بھی ارسال۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: پاکستان پوسٹ نے ملک بھر میں ڈاک خانوں کی تعمیرنو اور مرمت کے لیے 1 ارب روپے لاگت کی سمری وزیر اعظم کو ارسال کر دی جبکہ 485 پوسٹ آفسز کی ری برانڈنگ کے لیے 82 کروڑ روپے کا پی سی ون بھی منظوری کے لیے وفاقی حکومت کو ارسال کر دیا گیا ہے۔

’’ایکسپریس‘‘ کو موصول دستاویز کے مطابق وفاقی وزارت پوسٹل سروسز کی جانب سے ملک بھر میں خستہ حال اور پرانے ڈاک خانوں کی تعمیر نو اور مرمت کا فیصلہ کیا گیا ہے، ملک بھر میں پاکستان پوسٹ کے 11ہزار 499ڈاک خانے ہیں جس میں پاکستان پوسٹ کی 4ہزار 153 ڈپارٹمنٹل عمارتیں ہیں، گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان پوسٹ کی عمارتوں کے مرمتی کام نہیں کیے جا سکے جس کے باعث متعدد ڈاک خانوں کی حالت خراب ہو چکی ہے۔

پاکستان پوسٹ کو درپیش خسارے کے باعث سابق وزیر اعظم نے فروری 2016 میں اصلاحی ایجنڈے کی منظوری دی تھی جس کے تحت پاکستان پوسٹ کی ری برانڈنگ، پوسٹل لاجسٹک کمپنی اور موبائل منی سالوشن کا قیام عمل میںلایا جانا تھا تاکہ محکمے کے ریونیو میں اضافہ اور خسارے پر قابو پایا جاسکے تاہم ابھی تک اصلاحات متعارف نہیں کرائی جاسکیں، پاکستان پوسٹ کا خسارہ 10ارب سے بھی تجاوز کر گیاہے۔

واضح رہے کہ پاکستان پوسٹ کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے، پاکستان پوسٹ کے اخراجات ریونیو کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں جبکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ڈاک خانوں کی حالت بھی خراب ہوتی جا رہی ہے جس پر وفاقی وزیر پوسٹل سروسز مولانا امیر زمان نے خراب حالت والے ڈاک خانوں کی تعمیر اور پرانے ڈاک خانوں کی مرمت کے لیے پی سی ون تیار کرنے کی ہدایت کی اور محکمے نے 1 ارب روپے سے زائد کا پی سی ون تیار کر کے وزیر اعظم آفس کو ارسال کر دیا ہے جس پر پاکستان پوسٹ کو وزیراعظم آفس سے جواب کا انتظار ہے۔

دوسری جانب پاکستان پوسٹ کی جانب سے 2 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد اپنے ہی ذرائع سے ملک بھر میں 485 ڈاک خانوں کی ری برانڈنگ کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جس پر 82 کروڑ روپے سے زائد لاگت کا تخمینہ ہے ، ری برانڈنگ کے منصوبے کوپاکستان پوسٹ کی جانب سے آئندہ مالی سال کی بجٹ تجاویز میں شامل کیا گیا ہے اور وفاقی حکومت سے اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے فنڈز مانگ لیے گئے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔