سندھ کی مضطرب سیاست اور انتخابات

اسد احمد  جمعرات 28 مارچ 2013

قیام پاکستان کے بعد سے سندھ کی سیاست میں روایتی طور پر جی ایم سید، پیر پگاڑا، بااثر وڈیرے اور دینی جماعتیں اہم کردار ادا کرتی آئی ہیں۔ 60 کی دہائی کے اواخر میں پیپلزپارٹی سندھ کی سیاست میں ایک نیا انقلابی اضافہ تھی جب کہ اسی عرصے میں مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں جمعیت علمائے پاکستان بھی شہری علاقوں میں متحرک ہوئی۔ اس سے پہلے شہری سندھ کی سیاست جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے گرد گھوم رہی تھی۔

70 کے عام انتخابات کے نتائج آئے تو پیپلزپارٹی، جے یو پی، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ صوبے کی نمایندہ جماعتوں کے طور پر سامنے آئیں اور پھر اگلے 15 سال تک صوبائی سیاست انھی جماعتوں کے گرد گھومتی رہی۔ 80 کی دہائی کے وسط میں شہر ی سندھ میں ایک نئی جماعت ایم کیو ایم کی صورت میں ابھری، یہ جماعت اردو بولنے والوں کی نمایندہ کہلائی۔

2002 کے عام انتخابات کے بعد صوبے میں مسلم لیگ ق، فنکشنل اور ایم کیو ایم نے مل کر حکومت بنائی جب کہ 2008 کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی، ایم کیوایم اور فنکشنل لیگ نے اتحادی حکومت تشکیل دی۔ سندھ میں ووٹرز قومی اسمبلی کے لیے 61، جب کہ صوبائی اسمبلی کے لیے 132 ارکان براہ راست ووٹ کے ذریعے منتخب کرتے ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد گزشتہ 25 سال سے ایم کیو ایم کے زیر اثر ہیں، جب کہ دینی جماعتیں بھی شہری علاقوں میں ہی اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ دیہی سندھ کی سیاست پیپلزپارٹی، مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ہم خیال اور قوم پرست جماعتوں کے گرد گھومتی ہے۔ گزشتہ دنوں یہ علاقے مسلم لیگ ن کی توجہ کا خاص مرکز رہے ہیں اور میاں نواز شریف نے نہ صرف مختلف مواقعوں پر یہاں کا دورہ کیا بلکہ بڑے جلسوں سے خطاب بھی کیا ہے۔

انتخابات 2013 میں میدان کس کے نام رہے گا؟ یہ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ صوبے میں گزشتہ دنوں ہونے والی پیشرفت پر ایک نظر ڈالی جائے۔ ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ صوبائی سطح پر سیاسی جماعتیں عموماً اپنے ہی پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیتی ہیں مگر اس بار ایک بڑی پیشرفت پیر پگاڑا کی زیر قیادت متحرک دس جماعتی اتحاد ہے۔

یہ اتحاد جو مسلم لیگ فنکشنل، این پی پی، ہم خیال، جے یوآئی ف، جماعت اسلامی اور قوم پرستوں سمیت دیگر جماعتوں پر مشتمل ہے، صوبائی اور قومی اسمبلی کی تمام نشستوں پر سابقہ حکمران اتحاد یعنی  پی پی پی اور ایم کیوایم کے مقابلے میں متفقہ امیدوار کھڑے کرنے پر غور کررہا ہے۔ اتحاد میں شامل جماعتوں کا موقف ہے کہ تمام جماعتیں جلد ہی کسی فارمولے پر متفق ہوجائیں گی۔اس اتفاق رائے کی بنیاد سندھ اور خاص طور پر کراچی میں رونما ہونے والے واقعات اور معاشی ،نسلی، سماجی اور مذہبی رجحانات و تضادات کی شدت کے بعد عوام میں پیدا ہونے والی مضطرب سائیکی اور وقت کو للارنے والا عزم ہے۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے درمیان اتحاد کا کوئی آپشن زیر غور نہیں ہے، ویسے بھی دونوں جماعتوں کے زیر اثر حلقے مختلف ہیں۔ پیپلزپارٹی کے اثرات دیہی سندھ اور کراچی میں لیاری تک محدود ہیں جب کہ ایم کیوایم کراچی اور حیدرآباد میں اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ اس لیے دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کوئی بہت زیادہ فائدہ نہیں ہے۔ ایم کیوایم الیکشن کمیشن کی جانب سے حالیہ دنوں قومی اسمبلی کے 3 اور صوبائی اسمبلی کے 8 حلقوں کی نئی حد بندیوں پر بھی خاصی برہم ہے۔

ان حلقوں میں یا تو بعض نئے علاقے شامل کیے گئے یا پھر کچھ علاقے کاٹ کر ( یا واپس لے کر ) دیگر حلقوں میں شامل کردیے گئے ہیں۔ اہل لیاری کا شکوہ یہ ہے کہ نئی حلقہ بندیوں میں لیاری کا دھڑ کاٹ لیا گیا تھا اور لی مارکیٹ حتیٰ کہ لیاری ڈگری کالج تک صدر ٹائون میں ڈال دیا گیا ۔ متحدہ قومی موومنٹ کی ناراضگی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی کے 3 حلقوں میں سے دو پر اس کے امیدوار 2008 میں کامیاب ہوئے تھے، اسی طرح صوبائی اسمبلی کے 8 میں سے 7 حلقوں پر بھی ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے امیدوار جیتے تھے۔

سندھ بالخصوص کراچی میں عوام بڑھتی ہوئی بدامنی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے سے سخت پریشان ہیں۔ تاجروں کا موقف ہے کہ گزشتہ سال میں انھوں نے ٹیکس کم دیا ہے اور بھتہ زیادہ اداکیا ہے۔ اندرون سندھ قوم پرست جماعتیں پیپلزپارٹی کو، پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سندھ کی تقسیم کا الزام دیتی رہی ہیں، اور یہی  شعلہ زار نعرہ اس بار اندرون سند ھ پیپلزپارٹی مخالف مہم کا مرکزی موضوع ہوگا۔

صوبہ سندھ میں انتخابات سے قبل سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کی صورتحال ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگاڑا انتخابات میں خونریزی کا خدشہ بارہا ظاہر کرچکے ہیں۔ کراچی میں اپوزیشن جماعتیں انتخابی فہرستوں کو مسترد کرچکی ہیں اور 11 مئی کو پولنگ اسٹیشنز پر فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کررہی ہیں، اس کی بڑی وجہ وہ 12 مئی 2004 کو قومی اسمبلی کے 3 حلقوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں درجن بھر افراد کے بہیمانہ قتل کو قرار دیتی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں سندھ میں بننے والی نگراں حکومت کو بھی پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان مک مکا حکومت قرار دے کر مسترد کرچکی ہیں اور دو ٹوک الفاظ میں یہ اندیشہ ظاہر کررہی ہیں کہ اس حکومت کی موجودگی میں شفاف انتخابات کا انعقاد تقریباً ناممکن ہے۔

شہری سندھ یا کراچی اور حیدرآباد کی سیاست میں اس بار مزید دو نئے کرداروں کا اضافہ ہوگیا ہے، ایک عمران خان کی تحریک انصاف اور دوسری سابق صدر پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ۔ تحریک انصاف کو ماضی میں ان علاقوں میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی مگر 2011 کے اواخر میں کراچی جلسے کے بعد اس جماعت کا گراف ماضی کے مقابلے میں اوپر گیا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف بھی وطن واپسی کے بعد عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اردو بولنے والوں کی ایک قابل ذکر تعداد اب بھی ان کی حمایت کرتی ہے اور ایم کیو ایم کے ساتھ ان کے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکانات بھی موجود ہیں۔

یوں عام انتخابات میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم عوام کے سامنے اپنی 5 سالہ کارکردگی کی بنا پر ووٹ مانگیں گے جب کہ 10 جماعتی اتحاد کراچی میں بدامنی، سنگ دلانہ قتل و غارت ، بلدیاتی آرڈیننس، سیلاب کے نقصانات جیسے مسائل کو بنیاد بنا کر مہم چلائے گا۔ ایسے میں نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کے لیے سب سے بڑا چیلنج صوبے میں پرامن اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہوگا تاکہ حقیقی عوامی رائے سامنے آسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔