پی ایس ایل کا تیسرا میلہ سجانے کی تیاریاں

عباس رضا  اتوار 11 فروری 2018
کراچی کے شائقین فائنل کی میزبانی کے لیے بیتاب۔ فوٹو: فائل

کراچی کے شائقین فائنل کی میزبانی کے لیے بیتاب۔ فوٹو: فائل

پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن کی تیاریاں شروع ہوئیں تو کئی سوال ذہنوں میں تھے،دیگر تمام ملکوں کی ٹی ٹوئنٹی لیگز اپنی سرزمین پر ہوتی ہیں۔

پی سی بی ایونٹ کے یو اے ای میں انعقاد کا ایک نیا اور منفرد تجربہ کرنے جارہا تھا، ملکی وسائل اور سپانسرز کی کمی آڑے آنے کے ساتھ میڈیا رائٹس کی فروخت جیسے مسائل بھی تھے،غیر ملکی کرکٹرز کا اعتماد حاصل کرنا بھی ایک چیلنج تھا، بہرحال مسلسل کوشش کے بعد اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ کرلیا گیا، ابتدائی ایڈیشن میں 5ٹیمیں شریک ہوئیں،اس ایونٹ کو مالی لحاظ سے تو زیادہ کامیاب نہیں کہا جاسکتا لیکن کم از کم ایک برانڈ کے طور ایک پہچان ضرور حاصل ہوگئی۔

گزشتہ برس دوسرے ایڈیشن میں غیر ملکی کرکٹرز نے زیادہ دلچسپی دکھائی، پہلے کی نسبت زیادہ بہتر ٹیمیں تشکیل پائیں اور سب سے اہم پیش رفت یہ بھی ہوئی کہ فائنل لاہور میں کروانے کا ایک مشکل فیصلہ کیا گیا،قذافی سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچ میں گرچہ فائنلسٹ ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے چند غیرملکی کرکٹرز تو پاکستان نہیں آئے لیکن ڈیرن سیمی سمیت دیگر نے پاکستان کی میزبانی کا بھرپور لطف اٹھایا اور خوشگوار یادیں لئے یہاں سے واپس گئے۔

ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے حوالے سے اہم سمجھے جانے والے اس میچ کا ایک انتہائی حساس پہلو سکیورٹی انتظامات تھے،فوج، رینجرز اور پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کے آہنی عزم نے تمام خدشات کو شکست دے دی، میچ انتہائی پر امن ماحول اور منظم انداز میں ہوا۔

دنیا میں پاکستان کا مثبت تاثر ابھرا اور دیگر غیر ملکی کرکٹرز کو بھی آنے کا اعتماد ملا،بعد ازاں ٹی ٹوئنٹی سیریز کی میزبانی نے پی سی بی کو مزید ایک قدم اٹھانے کا حوصلہ دیا، بالآخر 2009ء میں دہشت گردوں کے حملے کی زد میں آنے والی سری لنکن ٹیم نے ہی لاہور میں دوبارہ میچ کھیل کر ماضی کی تلخ یادیں کھرچ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا،آئی لینڈرز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سمیت ایک عرصہ بعد سجائے جانے والے تمام کرکٹ میلوں میں عوام کی بھرپور دلچسپی نے دنیا بھر کو ایک پیغام دیا کہ پاکستانی دہشت گردوں سے نفرت اور کھیلوں سے پیار کرنے والی قوم ہیں۔

رواں ماہ 22 تاریخ کو شروع ہونے والے پی ایس ایل کے تیسرے ایڈیشن کی تیاریاں عروج پر پہنچ چکی ہیں،اس بار ایونٹ طویل اور رونقوں میں مزید اضافہ ہوگا، پہلے دونوں ایونٹس میں 5ٹیمیں اسلام آباد یونائیٹڈ، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز،پشاور زلمی،کراچی کنگز اور لاہور قلندرز شریک تھیں،اس بار نئی فرنچائز ملتان سلطانز کا بھی اضافہ ہوچکا جو شعیب ملک کی قیادت میں میدان اترے گی،گزشتہ سال ایونٹ کے آغاز پر ہی سامنے آنے والے سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی وجہ سے اہم کرکٹرز سے محروم ہونے والی اسلام آباد یونائیٹڈ نے بھی متوازن سکواڈ تشکیل دیا ہے،پہلے ایڈیشن کی چیمپئن ٹیم رواں سال دوبارہ ٹائٹل پر قبضہ جمانے کے لیے پر عزم ہے،دیگر ٹیمیں بھی اپنی پلاننگ جاری رکھتے ہوئے گزشتہ ایونٹس میں سامنے آنے والے مسائل کا حل تلاش کے لیے سرگرم ہیں۔

پی ایس ایل تھری کی دبئی میں ہونے والی افتتاحی تقریب کو رنگارنگ بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرلی گئی ہے، امریکی پاپ سنگر جیسن ڈرولو، پاکستان گلوکارہ عابدہ پروین،علی ظفر اور شہزاد رائے بھی آواز کا جادو جگائیں گے،آتش بازی بھی شائقین کی توجہ حاصل کرے گی،اسی روز ایونٹ کا پہلا میچ پشاور زلمی اور ملتان سلطانز کے مابین ہوگا،ایونٹ میں مجموعی طور پر34 میچ کھیلے جائیں گے،بیٹ اور بال کی جنگ میں باجے گاجے اور ہلہ گلہ بھی ہوگا۔

پاکستانی شائقین کے لیے دلچسپی اور خوشی کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان میں سے 3پاکستان میں بھی ہوں گے،اس فیصلے کا اہم ترین پہلو کراچی میں فائنل کا انعقاد ہے،پلے آف میچز کا میزبان لاہور اس سے قبل دوسرے ایڈیشن کے فائنل،ورلڈ الیون کے خلاف سیریز اور پھر سری لنکا کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی میچ کے دوران سکیورٹی اور دیگر انتظامات کے امتحان میں سرخرو ہوچکا، گرچہ ان میچز نے سکیورٹی اداروں کے اعتماد اور عزم میں بھی اضافہ کیا ہے لیکن نئے چیلنج کے لیے نئے سرے سے تیاری اور ذمہ داری کی ضرورت ہوگی۔

ایک عرصہ سے انٹرنیشنل کرکٹرز کو اپنی نظروں کے سامنے نہ دیکھ پانے والے کراچی کے شائقین 25مارچ کو شیڈول فائنل کے انعقاد کے لیے بیتاب ہیں لیکن سکیورٹی اداروں کے لیے شہر میں اس نوعیت کا میگا ایونٹ کروانے کا پہلا تجربہ ہے، لاہور کی طرح شہر قائد میں بھی حکومت پاک فوج، رینجرز،پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے یکجان ہوکر پلاننگ اور کام کریں گے تو جیت پاکستانی عوام کی ہوگی۔

سکیورٹی اداروں کے ساتھ پی سی بی کے لیے بھی ایک بڑا اور مشکل چیلنج ہے،اس بار میچز زیادہ اور 3کے بجائے 4شہروں میں ہیں، کسی ایک ملک کے ایک یا دو وینیوز ہوں تو کافی آسانی رہتی اور اخراجات بھی کم ہوتے ہیں، پاکستان ابھی اعتماد کی بحالی کا سفر طے کررہا ہے، پورے ایونٹ کی میزبانی کا فیصلہ ممکن نہیں تھا،تاہم دبئی اور شارجہ کے بعد لاہور اور پھر کراچی تک انتظامی امور کی نگرانی ایک مشکل مہم کے طور پر دیکھی جارہی ہے،ایونٹ کی طوالت بعض اوقات شائقین کی دلچسپی کم کردیتی ہے۔

تیسرے ایڈیشن میں بھی ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک میچز ہوں گے،پچز سپورٹنگ ہوں جس میں رنز بھی بنیں اور اچھی بولنگ کرنے والوں کو وکٹیں بھی ملیں تو طوالت کے باوجود شائقین کی دلچسپی برقرار رہے گی،پاکستان میں کھیلے جانے والے تینوں میچز کے مقاصد بہتر انداز میں تبھی پورے ہوں گے کہ لاہور اور کراچی میں کھیلنے والی ٹیموں میں سٹارکرکٹرز بھی شامل ہوں،گزشتہ ایڈیشن میں اہم کھلاڑیوں کے پاکستان آنے سے انکار کی وجہ سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم کمزور پڑ گئیں اور فائنل میں دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو نہیں مل سکا۔

پاکستانی کرکٹرز اور فرنچائز مالکان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے ملک کا مثبت چہرہ غیر ملکی کھلاڑیوں کو دکھانے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انہیں لاہور اور کراچی میں کھیلنے کے لیے قائل کریں،فی الحال چند فرنچائزز کے مالکان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے سکواڈز میں شامل بیشتر غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آنے کو تیار ہیں لیکن ایونٹ کے دوران بھی ان کو اعتماد دلاتے رہنے کی ضرورت ہے، لاہور میں کامیاب ایونٹس کے بعد شاید انہیں قائل کرنا آسان ہوگا لیکن کراچی میں ایک عرصہ بعد پہلا تجربہ ہورہا ہے،اس لئے زیادہ محنت کرنا ہوگی۔

غیر ملکی سکیورٹی ایکسپرٹس کا دورہ اور اتوار کو ہونے والی انتظامات کی فل ڈریس ریہرسل ایک اچھا قدم ہے، آئی سی سی اور فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن (فیکا) کے ساتھ منسلک ریگ ڈکسن کی رپورٹ غیر ملکی کرکٹرز کو قائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی،گزشتہ سال ورلڈ الیون کے دورہ لاہور کے موقع پر سکیورٹی انتظامات کے سلسلے میں بھی ریگ ڈکسن کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔دبئی اور شارجہ میں میچز کو سکینڈلز سے پاک جبکہ لاہور اور کراچی میں مقابلوں کا پر امن انعقاد دونوں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، پی سی بی اور پی ایس ایل تھری کی مینجمنٹ کو ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔