چینی پولیس نے مجرم شناخت کرنے والی عینک پہننا شروع کردی

ویب ڈیسک  پير 12 فروری 2018
ایک خاتون پولیس اہلکار کیمرے والی عینک پہنے ہوئی ہے۔ فوٹو: بشکریہ پاپولر سائنس

ایک خاتون پولیس اہلکار کیمرے والی عینک پہنے ہوئی ہے۔ فوٹو: بشکریہ پاپولر سائنس

بیجنگ: چینی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چہرہ شناخت (فیس ریکگنیشن) ٹیکنالوجی کو ایک اور درجے تک بڑھاتے ہوئے اسے اب عادی مجرموں کی شناخت کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔

کسی سائنس فکشن فلم کی طرح اب چینی پولیس اہلکارایسے دھوپ کے چشمے پہنے ہوئے ہیں جن میں اعلیٰ معیار کا کیمرا نصب ہے جو خطرناک مجرموں کی تصاویر کے ایک ڈیٹا بیس سے منسلک ہے۔ اس طرح پولیس اہلکار کسی مشتبہ شخص کو دیکھتے ہوئے اس کے عادی مجرم ہونے اور اسے گرفتار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

سن گلاس ایک موبائل آلے سے جڑے ہیں جس میں آف لائن فیس ڈیٹا موجود ہے جو کسی انٹرنیٹ کے بغیر فوری عمل کرتا ہے۔ ابتدائی طور پر ایک ہی جگہ پر 7 ایسے مجرم پکڑے گئے جو واردات کرکے ریلوے اسٹیشن سے فرار ہورہے تھے۔

اس عینک میں مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل ٹیکنالوجی) کو استعمال کیا گیا ہے لیکن اس میں غلطی سے معصوم لوگوں کے پکڑے جانے کا بھی امکان ہے اور اسی لیے پولیس اہلکار مشکوک افراد کی اچھی طرح تصدیق کرتے ہیں۔

یہ عمل دو اہم مراحل میں ہوتا ہے، پہلے عینک چہروں کو مختلف اشیا مثلاً گاڑی وغیرہ سے الگ کرکے انہیں شناخت کرتی ہے۔ اس کے بعد چہرے کے ہونٹ، آنکھیں، ناک اور دیگر خدوخال تلاش کیے جاتےہیں جو ڈیٹا بیس میں موجود مجرموں یا ملزموں کے چہرے کے نقوش سے ملائے جاتے ہیں اور اس میں الگورتھم اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جاتا ہے۔

چینی ماہرین کہتے ہیں کہ گزشتہ ایک عشرے سے چہرہ شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی میں بہت زبردست ترقیاں ہوئی ہیں۔ اسی بنا پر انہوں نے یہ اسمارٹ گلاسز بنائے ہیں تاہم یہ الیکٹرانک اور کمپیوٹر نظام ہے جو کئی لحاظ سے غلطی بھی کرسکتا ہے۔

چینی حکام کہتے ہیں کہ آئی فون جیسا جدید ترین نظام بھی کبھی کبھی اپنے مالک کو نہیں پہچانتا تھا بصورت دیگر اسے پاس ورڈ سے کھولنا پڑتا ہے۔ چینی حکام نے اسے پہلے ایئرپورٹ اور ٹرین اسٹیشن پر استعمال کیا ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس چینی عمل پر اعتراض کیا ہے۔

چینی ماہرین نے اس پورے نظام کی تفصیلات ظاہر نہیں کی ہیں ممکن ہے کہ اس نظام کی دیگر تفصیلات منظر عام پر آنے یا سسٹم مزید اپ گریڈ ہونے پر مزید بہتری کی صورت میں کسی خامی کا امکان ہی نہ رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔