ایمرجنسی ترقیاتی کام

ظہیر اختر بیدری  منگل 13 فروری 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

آج کل مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو یاد آگیا ہے کہ ترقیاتی کام کرنا بھی ان کی ذمے داری ہے اور وہ تیزی سے ایک کے بعد ایک ترقیاتی کام انجام دینے میں مصروف ہیں لیکن زمین پر جتنے ترقیاتی کام ہورہے ہیں، ان سے پچاس گنا زیادہ کام اخبارات کے صفحات اور چینلوں کی اسکرین پر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور میڈیا میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اخبارات کے صفحات اور میڈیا کی اسکرینوں پر حکمران خاندانوں کی تصاویر اس طرح سجائی جاتی ہیں کہ دیکھنے والوں پر یہ نفسیاتی اثر پڑتا ہے کہ یہ سارے ترقیاتی کام حکمران خاندانوں کے بڑے بچے کر رہے ہیں، دوسرے ملکوں میں اس قسم کی پبلسٹی کو نہ پسند کیا جاتا ہے نہ اسے اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں ہی میں نہیں بلکہ پسماندہ ملکوں میں بھی اس بے ہودہ کلچر کا رواج نہیں کیونکہ ان ملکوں میں جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا گیا ہے جو شخصی اور خاندانی شہرت کو رواج دیتا ہے۔

حکمران طبقات بڑی چالاکی سے اس کلچر سے دو بڑے فائدے اٹھا رہے ہیں ایک یہ کہ عوام پر اس کا نفسیاتی اثر ڈالتے ہیں کہ سارے ترقیاتی کام یہی حکمران خاندان کر رہے ہیں ۔ دوسرا فائدہ بلکہ بہت بڑا فائدہ یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ میڈیا کوکروڑوں بلکہ اربوں روپے ان اشتہاروں کے معاوضے کے طور پر ادا کرکے میڈیا کو ممنون ومشکور بتارہے ہیں اور ان کی بالواسطہ اور بلاواسطہ ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش بلکہ کامیاب کوشش بھی کر رہے ہیں، لیکن اب میڈیا ہی کی کوششوں سے اس ملک کے اکیس کروڑ عوام حکمران اشرافیہ کی ان چالوں کو سمجھ رہے ہیں اور ان حربوں سے متاثر ہونے کے بجائے ان پر ہنس رہے ہیں۔

ان ایمرجنسی ترقیاتی کاموں کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے اس پرغورکرنے سے پہلے ہم ہماری مقدس پارلیمنٹ اور اس کے اراکین سے یہ سوال کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ عوام کی محنت کی کمائی کا اربوں روپیہ حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کی بلاجواز پبلسٹی پر خرچ کرنا جمہوری اور پارلیمانی اخلاقیات کے مطابق ہے یا خلاف ہے؟ جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ ایک قابل احترام ادارہ ہوتی ہے اور ہمارے ملک کے سیاسی اور اشرافیائی حلقے پارلیمنٹ پر اٹھنے والی انگلی کوکاٹنے کے لیے استرا ہر وقت تیار رکھتے ہیں۔کیا ان کی یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ حکمران خاندانوں کی اربوں روپے کی پبلسٹی کا نوٹس لیں اور عوام کی محنت کی اس کمائی کو حکمران اشرافیہ کے خاندانوں کی پرفریب پبلسٹی پر ضایع ہونے سے بچائیں؟

اب آئیے ذرا اس بات پر غور کریں کہ آخر انتخابات سے تھوڑے عرصے قبل حکمرانوں پر ترقیاتی کام کرنے کا دورہ کیوں پڑ رہا ہے اور ساڑھے چار سال تک ہمارا  حکمران طبقہ اس قدر گہری نیند میں کیوں مگن تھا؟ اس کا ایک روایتی جواب یہ ہے کہ چار ساڑھے چار سال تک لوٹ مارکی مصروفیت میں ہمارے حکمرانوں کو یہ ہوش ہی نہیں رہتا کہ ملک میں ترقیاتی کام انجام دینا اور اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنا ان کی اخلاقی اور جمہوری ذمے داری ہے اور انتخابات سے چار چھ مہینے قبل ترقیاتی کام کرنا عوام کو دھوکا دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔

اس حوالے سے ایک خاص بات یہ ہے کہ اس بار بعض رقیب روسیاہ یعنی سیاسی دشمن ان عوام دوستوں کے پیچھے حزب اختلاف کا ڈنڈا اٹھا کر اس طرح آج کھڑے ہوگئے ہیں کہ آنے والے الیکشن روایتی حربوں سے جیتنا اب مشکل ہوگیا ہے اور لوٹ مار کی داستانیں بھی اس قدر عام ہوگئی ہیں کہ اب حکمرانوں کا عوام کے سامنے آنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس شرمندگی کو چھپانے کا واحد طریقہ یہی رہ گیا ہے کہ عوام کو ترقیاتی کاموں کی چکا چوند سے اندھا کردیا جائے اگر کوئی حکمران کسی بھی وجہ سے ملک میں ترقیاتی کام کرتا ہے تو اس کی مخالفت نہیں کی جاسکتی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چار ساڑھے چار سال نیند میں رہ کر الیکشن سے محض کچھ عرصہ قبل نیند سے بیدار ہونا کیا جمہوری قدروں کے مطابق ہے؟

اس حوالے سے عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اس ملک کی 70 سالہ تاریخ میں حکمران طبقات عوامی مسائل سے لاتعلق کیوں رہے؟ ہمارے حکمرانوں کی طرف سے آج کل یہ پروپیگنڈا زوروں پر ہے کہ ہم نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل کردیا ہے۔ اول تو ملک کے مختلف شہروں میں جن میں کراچی بھی شامل ہے مختلف علاقوں میں مختلف دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ کوئی تازہ سلسلہ ہے جسے حل کرلیا گیا ہے؟ جی نہیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ عشروں پرانا ہے اس دوران موجودہ حکومت بھی بار بار برسر اقتدار آتی رہی پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عشروں پر پھیلے ہوئے اس دور اور دو بار کے اقتدار کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ کیوں حل نہیں کیا گیا؟ اب اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں اور پچاس گنا زیادہ پروپیگنڈا کیوں کیا جا رہا ہے؟

اصل حقیقت یہ ہے کہ الیکشن سر پر کھڑے ہوئے ہیں اور حکمران طبقات کی کرپشن کی داستانیں ملک کے چپے چپے تک پھیل گئی ہیں اور عوام حکومتوں سے ناراض ہی نہیں بلکہ سخت شقی ہیں ایسی صورتحال میں ایک راستہ یہی رہ جاتا ہے کہ ترقیاتی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹ کر عوام کی ناراضگی کو حمایت میں بدلا جائے اسی مقصد کے لیے ترقیاتی کاموں کا خوب دھوم دھام سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے یہ حکمرانوں کی ضرورت ہے احساس فرض نہیں۔

ہمارا سیاستدان طبقہ جس میں بڑے بڑے نیک نام سیاستدان بھی شامل ہیں آج کل دن رات اٹھتے بیٹھتے جمہوریت کی ضرورت کا عوام کو کیوں احساس دلا رہے ہیں؟ اس لیے کہ حکمرانوں کی بداعمالیوں کی وجہ عوام میں سخت اضطراب ہے اور سیاسی اہلکاروں کو اندازہ ہے کہ جب عوام میں اضطراب کا گراف خطرے کی حدوں کو چھوتا ہے تو ’’عزیز ہم وطنو! السلام علیکم‘‘ کی آواز صور اسرافیل کی طرح کانوں میں رس گھولنے لگتی ہے اور اس آواز سے اہل سیاست کا خون خشک ہوجاتا ہے۔ سیاست اور جمہوریت ماڈرن دنیا کی ضرورت ہے لیکن جب تک سیاست جمہوریت اور اقتدار پر اشرافیہ قابض ہے عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ہاں انتخابات سے کچھ پہلے ترقیاتی کاموں کا پروپیگنڈا زوروشور سے کرکے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش ضرورکی جاتی ہے لیکن اب یہ حربہ بھی ناکام ہوتا نظر آرہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔