پاکستان اور پاکستانی

شاہین رحمن  منگل 13 فروری 2018

ہم سب جانتے ہیں کہ مالی اعتبار سے پاکستان کا شمارکم آمدنی والے ممالک میں ہوتا ہے ۔ چودہ کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل پاکستانی قوم کو بنیادی مسائل درپیش ہیں ۔ تعلیم کی کمی ہے، صحت کی سہولیات نہایت درجہ کم ہیں، صاف میٹھا پانی میسر نہیں ، سرکاری اور نجی اداروں میں ڈسپلن اور عوام کی خدمت کے جذبوں کا فقدان ہے، مگر ان سب دشواریوں اور رکاوٹوں کے باوجود پاکستانی قوم بے شمار باہمت افراد نے دنیا میں نہایت اعلیٰ مقام حاصل کیا۔

ہمارے ملک میں زندگی کے کسی بھی شعبے کی تعلیم و تربیت کے لیے وافر وسائل میسر نہیں ہیں۔ اس کے باوجود کون سا میدان ایسا ہے جس میں ہمارے لوگوں نے نہایت اعلیٰ کامیابیاں حاصل نہیں کیں۔ کھیلوں کے شعبے کو لیجیے، گلی محلے میں ٹوٹے بلوں اور کھردری گیند سے کھیل کا آغاز کرنے والے جب پاکستان کی نمایندگی کرنے آئے تو دنیا سے اپنی عظمت تسلیم کروائی۔ ہم نے ہاکی کھیلی تو Asian Champion عالمی Champion اور اولمپک چیمپئن بنے۔ کرکٹ کھیلی تو World Champion بنے، اسکواش کھیلی تو عالمی Champion بننے کی تاریخ رقم کر ڈالی۔

اسنوکر کھیلنے گئے تو بی عالمی Championکا اعزاز لے کر وطن واپس آئے۔ وطن کو دفاع کے لیے ضرورت پڑی تو ایک غریب قوم نے ایٹمی قوت بن کر دشمن کے عزائم کو لگام دے ڈالی۔ فنون لطیفہ کے شعبے میں آئے تو مہدی حسن، نور جہاں، نصرت فتح علی خان جیسے ہیرے دنیا کو دیے۔ خدمتِ خلق کے شعبے میں آئے تو عبدالستار ایدھی اور عمران خان جیسے لوگوں کے کارناموں پر دنیا بھر سے ستائش وصول کی۔ تعلیم کے شعبے میں آئے تو حکیم محمد سعید، ملک معراج خالد، ڈاکٹر عطا الرحمن جیسے جواہر سے دنیا بھر کو فیضیاب کیا۔

آیئے ایک تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔

اسلامی اُمہ میں عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات وغیرہ ۔کھیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ان تمام ممالک میں فٹ بال سے جنون کی حد تک لگاؤ پایاجاتا ہے ۔ ان ممالک کی اپنی فٹ بال سے جنون کی حد تک لگاؤ پایاجاتا ہے۔ ان ممالک کی اپنی فٹ بال ٹیمیں بھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان ٹیموں کی تربیت کے لیے بے تحاشا وسائل بھی فراہم کیے گئے ہوںگے۔ لیکن ان قوموں نے زبردست وسائل ہونے کے باوجود آج تک عالمی سطح پر فٹ بال کا کوئی نامور کھلاڑی پیدا نہیں کیا۔

جب کہ ہماری قوم نے نہایت محدود وسائل سے تربیت فراہم کرکے دنیا کو ظہیر عباس، جاوید میانداد، عمران خان، وسیم اکرم، اصلاح الدین، سمیع اﷲ، محمد یوسف، جہانگیر خان، جان شیر خان جیسے عظیم کھلاڑی دیے۔ ہم پاکستانیوں کی اپنے وطن سے محبت کا حال بھی عجیب ہے ہماری حب الوطنی کے شاندار مظاہرے دیکھنے کے لیے ایک موقع کھیلوں کے مقابلے بھی ہیں۔ خاص طور پر جب ہماری ٹیم کا مقابلہ بھارت کی ٹیم کے ساتھ ہورہا ہو۔ اگر پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ ہورہا ہو تو ہمارا جذبہ حب الوطنی نہایت اعلیٰ درجوں پر ہوتا ہے۔ ایسے موقعے پر ہی پاکستانی اپنی ٹیم کو جیتتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔

پاکستانی ٹیم بھارت سے جیت جائے تو ہماری خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ ہم فتح کا جشن مناتے ہیں۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، خوشی میں ریلیاں نکالتے ہیں۔ مٹھائیاں بانٹتے ہیں، مگرکھیل آخر کھیل ہے اگر کبھی پاکستانی ٹیم بھارتی ٹیم سے ہار جائے تو ہمارے ملک کے ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر گاؤں میں اداسی چھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس معاملے میں پوری قوم ایک ہی طرح سوچتی ہے۔ طالب علم، پاکستان، تاجر، صنعت کار، گھریلو خواتین، مرد و عورت غرض ہر پاکستانی بھارتی ٹیم سے مقابلے کے وقت جذبہ حب الوطنی سے پوری طرح سرشار ہوتا ہے۔

لیکن بڑی عجیب بات یہ ہے کہ زندگی کے دوسرے کئی شعبوں میں اس شدت سے جذبہ حب الوطنی کی موجودگی محسوس نہیں ہوئی جس شدت سے کھیلوں کے وقت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک پاکستانی تاجر جو اپنی کرکٹ ٹیم کی کامیابی کے لیے بے حد جذباتی نظر آتا ہے اپنی عملی زندگی میں اس شدت کی حب الوطنی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ کھیل کے میدان میں تو اس کا رول محض ایک تماشائی کا ہے جب کہ عملی زندگی میں وہ خود ایک ایسا کھلاڑی ہے جس کی پر فارمنس پر قوم کی کامیابی کا انحصار ہے۔

کچھ تاجر جب بیرونِ ملک ایکسپورٹ کرتے ہیں تو کبھی مال دکھائے گئے سیمپل سے کم معیار کا ہوتا ہے یا کبھی مقدار میں کم ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنے چھوٹے سے منافعے کے لیے دوسری قوم سے بد عہدی کرتے وقت اس تاجر کا جذبہ حب الوطنی کہاں جاکر سوجاتا ہے؟ ہم اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کے بارے میں تو یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں گراؤنڈ میں اور گراؤنڈ سے باہر ہمیشہ اپنی قومی ذمے داریوں کا احساس رہنا چاہیے، لیکن ہم میں سے کئی لوگ خود اپنی انفرادی زندگی میں قومی ذمے داریوں اور جوابدہی سے خود کو بالاتر سمجھتے ہیں۔

وطن کی تعمیر و ترقی اور ایک بہتر و منظم معاشرے کی تشکیل ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے اس حوالے سے زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے۔ یہ جد وجہد نہ صرف اپنی روٹی روزی کمانے کے لیے ہے بلکہ بہتر رویوں اور پاکستانی معاشرے میں اعلیٰ اقدار کی تشکیل اور فروغ کے لیے بھی ہونی چاہیے۔ معاشرتی زندگی میں بھی پاکستانی قوم کے متنوع مزاج اور صفات کا مظاہرہ جگہ جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک طرف ہماری قوم کے چند افراد نے دوسروں کا خیال رکھنے اور خدمتِ خلق کے حوالے سے بے مثال کارنامے سرانجام دیے۔ عبدالستار ایدھی نے بے سہارا لوگوں کا خیال رکھنے اور خدمت خلق کے حوالے سے بے مثال کارنامے سرانجام دیے۔

عبدالستار ایدھی نے بے سہارا لوگوں کے لیے پاکستان میں خدمتِ خلق کا ایسا نیٹ ورک قائم کردیا جس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔ عمران خان غریب لوگوں کو کینسر کے علاج کے لیے، جنرل جہانداد خان نے آنکھوں کے امراض کے لیے اور کئی دوسرے درد مند پاکستانیوں نے دیگر شعبوں میں وطن کے لیے شاندار خدمات سرانجام دیے تو دوسری طرف بھی ہمارا مشاہدہ ہے کوئی شخص سڑک پر زخمی پڑا ہوا ہوتا ہے اور وہاں سے گاڑیوں میں گزرنے والے اسے نذر انداز کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ ہم میں سے بعض لوگ بزرگوں کے مزارات پر تو بڑی بڑی رقموں کے لنگر تقسیم کروادیتے ہیں لیکن اپنے قریبی عزیزوں اور پڑوسیوں کی مدد کو نہیں آتے۔ ایک غور طلب امر یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ خیرات و عطیات کرنے والی قوموں میں بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں غربت کے سفاکانہ مظاہرے عام ہیں۔ یہ بڑا عجیب تضاد ہے جس کا مظاہرہ ہمارے معاشرے میں آئے دن ہوتا ہے۔

ہمارے قومی مسائل کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر محض زبان سے اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام لیتے ہیں لیکن ہم نے اپنی عملی زندگی میں قرآنی احکامات کے عملی تصور سے لا تعلقی اختیار کر رکھی ہے۔

پاکستان مملکت خداداد ہے۔ اس ملک کو اﷲ تعالیٰ نے بے شمار وسائل سے نوازا ہے۔ پاکستانی قوم دنیا کی ایک نہایت با صلاحیت قوم ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قوم کی صلاحیتوں سے ٹھیک طرح کام لیا جائے۔ پاکستانی قوم کی اعلیٰ تربیت اور اصلاح کے لیے جس قسم کا پروگرام درکار ہے وہ ہمیں صرف اور صرف قرآن پاک اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات سے مل سکتا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اور اصلاح احوال کے لیے قرآن پاک کی آیات کو اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن پر عمل انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو آسان، خوشحال اور محفوظ بناتا ہے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔

ترجمہ : لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔ اب جو لوگ اﷲ کی بات مان لیںگے اور اس کی پناہ ڈھونڈیںگے ان کو اﷲ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھادے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔