کھڑ پینچ

شکیل صدیقی  منگل 13 فروری 2018

کھچا کھچ تے ڈزا ڈز ، میں ٹنڈا بدمعاش آپ سے مخاطب ہوں ۔آپ یقینا مجھ سے پہلے ہی واقف ہوں گے، میری تصویریں اخبارات میں شایع ہوتی رہتی ہیں اور تھانے کی فائلوں میں بھی محفوظ ہیں ۔ قانون کے محافظوں سے میرے دیرینہ تعلقات ہیں ۔ وہ جب آہنی سلاخوں کے پیچھے مجھے نہیں پاتے ہیں تو ملول و اداس ہوتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ کوئی بھی واردات کرکے مجھے وہاں آجانا چاہیے۔

لڑائی دنگا ، فساد ، دھینگا مشتی اورخون خرابہ میرے اوصاف حمیدہ ہیں۔ میں گرفتار ہوتا ہوں، لیکن چھوٹ جاتا ہوں ۔ اس لیے کہ میری لائن بنی ہوئی ہے۔ نہیں سمجھے؟ پشت پناہی تو سمجھتے ہوں گے ؟مجھے بڑے لوگوں کی پشت پناہی اور آشیر واد حاصل ہے۔

کوئی گڑ بڑ کرانا ہو،کسی کو اس دنیا سے چلتا کرانا ہو یا سیاسی جلسہ خراب کرنا ہو میری خدمات حاصل کریں۔ ہر نیک کام کے ریٹس علیحدہ ہیں ۔ جلدی نہ کیجیے۔ پہلے آئیے ، پہلے پائیے۔

من کہ مسمی خادم حسین ۔ تھرڈ پارٹی بزنس مین، لوگ مجھے ’’جوگاڑو‘‘ بھی کہتے ہیں۔کام کو التوا میں ڈالنا،اس وقت تک گند گھولنا جبتک کہ لین دین نہ ہوجائے اور فریقین کی جیب میں کچھ اِدھر سے اُدھر نہ ہوجائے ، میںکھن کھجورے کی طرح جان نہیں چھوڑتا ۔ رشوت لینا دینا حرام ہے،لہٰذا میں اس سے گریزکرتا ہوں اورکمیشن پرگزارا کرتا ہوں۔ بڑے لوگ چھوٹے کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالتے ،ایسے معاملات وہ ہم جیسے لوگوں پر ڈال دیتے ہیں۔ جنھیں ہم خوش اسلوبی سے حل کر دیتے ہیں ۔ ان کی جیب بھی گرم ہوجاتی ہے اور اپنا کمیشن بھی نکل آتا ہے،کیونکہ میں نہایت مہارت سے فریقین کو نچوڑ لیتا ہوں ۔ میرا گزارا افواہوں سے ہوتا ہے۔

یہ نہ پھیلائی جائیں تو لوگ براہ راست بڑے صاحب تک پہنچ جائیں ۔افواہ یہ ہوتی ہے کہ صاحب لوگ بے حد مصروف ہیں ۔چنانچہ فائلیں نیچے دبا دیتے ہیں۔میں آپ کا خادم ہوں اس لیے مجھ کو یاد کیجیے۔جب کوئی ضرورت مند میرے پاس آتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں لیتا دیتا ، مگر بڑے صاحب نہیں مانتے، لہٰذا ان کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔یہ سوچ کر کہ پارٹی کچھ دیے بغیر نہ چل دے پیشگی کہہ دیتا ہوں کہ جوکچھ سمجھ میں آئے،کام ختم ہونے کے بعد مجھے دے دینا۔دنیا بامروت افراد سے بھری ہوئی ہے۔ لوگ کام ہوجانے کے بعد میری جیب میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتے ہیں۔وہ بھی خوش ،میں بھی خوش ۔ اپنا اُلو سیدھا رہتا ہے۔

گوٹ کہیں پھنس رہی ہو، معاملہ کہیں اٹک رہا ہویا آپ ذہنی الجھاوے میں مبتلا ہوں تو خادموں کے خادم یعنی خادم حسین جوگاڑوکو یاد رکھیے۔آپ کی فائلوں میں پہیے لگ جائیں گے۔الجھنوں کی سلجھنیں میرے پاس ہیں۔

من کہ مسمی گڑ بڑ گھٹالا۔قسم آپ کے سرکی میں ملاوٹ فروشی بالکل نہیں کرتا ،اس لیے کہ اصلی چیزوں میں اصلی چیزیں ملاتا ہوں،یعنی اصلی مرچ میں اصلی برادہ ۔اصلی دودھ میں نلکے کا اصلی پانی یا سنگھاڑے کا سفوف،گھی میں ابلے آلو، (جس سے وہ وٹامن اے اور ڈی سے بھرپور نظر آتا ہے) بادام میں خوبانی کے بیج اور بعض تنگ نظر افراد میرے اس طرز سلوک سے نالاں اور بد ظن رہتے ہیں ۔انھوں نے کئی بار فتویٰ دیا ہے کہ میں جہنم واصل کیا جاؤں گا ۔ میں پوچھتا ہوں کیا محبت میں عداوت، رفاقت میں خباثت ، سیاست میں منافقت اور خلوص میں ریاکاری ملانے والوں کو جنت واصل کیا جائے گا؟

آج کل میں ایک گوشت فروش کے ساتھ کام کررہا ہوں اور بکرے کے گوشت میں گدھے کا گوشت ملا رہا ہوں۔دونوں حلال ہیں ،اس لیے سب ذوق و شوق سے کھارہے ہیں اورکسی نے اخباری کالم پڑھ کر اپنے کان پر جوں نہیں رینگنے دی۔ حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ پانچ ستاروں والے ہوٹلوں میں بھی اب گدھا پراڈکٹس فروخت ہورہی ہیں۔ لوگ بغیرکسی تردد کے نوش جان کر رہے ہیں (اور بیماریوں میں کماحقہ، اضافہ کررہے ہیں۔ آزمائش شرط ہے)

بچے یا بچوں جیسی ذہنیت رکھنے والے مجھے ٹلّا، ماموں ، پوپٹ یا گمبٹ کہتے ہیں۔ جتنے زبانیں اتنے ہی خرافات ۔ مگر میں نے کبھی ان خرافات پر کان نہیں دھرا اور دل جمعی سے اپنے فرائض منصبی پورے کرتا ہوں۔لوگ مجھے تحقیر آمیز نظروں سے دیکھتے ، مگر جب گوٹ پھنس جاتی ہے تو ’’مک مکا‘‘کرجان چھڑا لیتے ہیں۔ میں قانون کی کوئی دفعہ ان کے حلق میں ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں ’’دفع کرو جی ‘‘اور میری جیب میں کچھ نہ کچھ ٹھونس کر معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔میں کچھ دیتا نہیں ، لیکن لیتاضرور ہوں۔اس لیے کہ میرے ساتھ پیٹ لگا ہوا ہے اور شیطان سر پہ سوارہے۔

سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ میں ملانا میری صفات میں شامل ہے۔ اس طرح سے (کوئی بھی) ’’کیس‘‘ بگڑتا چلاجاتا ہے(میری کوششوں سے) اور پوہ بارہ ہوجاتے ہیں (سب کے)اس لیے کہ ہم مل بیٹھ کرکھاتے ہیں ۔لائن اوپر تک جوبنی ہوتی ہے)لائن پر یاد آیا کہ سب لائنیں ہماری ہی لائن سے جڑی ہوتی ہیں۔گویا ہم مین لائن پرکام کرتے ہیں اور سب سے زیادہ لعن طعن کا نشانہ بھی ہم ہی بنتے ہیں ۔ سیاست ہو، ریاست ہو یا عدالت ، ہر جگہ اور ہر مقام پر ہماری ہی ضرورت پڑتی ہے۔یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ضرورت ایجاد کی اماں اور ابا ہے ،اس لیے میں اپنا حصہ ہر جگہ سے نچوڑ لیتا ہوں (انکم آفیسرکی طرح)

بات سے بات نکلی چلی جا رہی ہے۔ حفاظت اور تحفظ ۔جوہماری حفاظت کرتا ہے ہم اس کا تحفظ کرتے ہیں۔اس معاملے میں وہ عناصر پیش پیش رہتے ہیں جنھیں سماج دشمن یا شوریدہ سرکہا جاتا ہے۔ وہ ہماری حفاظت کرتے اور ہم انھیں تحفظ فراہم کرتے ہیں(تو کیا برا کرتے ہیں؟)آپ نے دیکھاکہ کوئی شخص قتل کرکے گرفتار ہوا ؟جب کوئی خرد بردکرتا ہے توکیا گرفتار ہوجاتا ہے؟ اخبارات میں چند ہفتوں تک کالم آرائی ہوتی رہتی ہے ،تصویریں شایع ہوتی رہتی ، ٹیلی وژن کے چینل جاگ پڑتے ہیں ، مبصر قائیں قائیں کر کے ٹائم پاس کرتے اور اس کے بعد معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوجاتا ہے۔ نہ لینا ایک نہ دینا دو۔سب گند ہماری طرف ہی اچھالی جاتی ہے، ہم دم سادھ لیتے ہیں ۔ صبر تحمل بھی توکوئی چیز ہے نا آخر؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔