بھارتیوں پاکستان سے کچھ سبق سیکھو

سلیم خالق  منگل 13 فروری 2018
’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ سے خاصا فائدہ ہوا، اب بھی ایسا کرنا چاہیے، مگر افسوس بھارت کا انداز منفی ہی ہے۔ فوٹو: ٹوئٹر

’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ سے خاصا فائدہ ہوا، اب بھی ایسا کرنا چاہیے، مگر افسوس بھارت کا انداز منفی ہی ہے۔ فوٹو: ٹوئٹر

سوئٹزر لینڈ کی برف کے بیچوں بیچ منجمد جھیل پر کرکٹ میچ کا شاید ہی کسی نے کچھ عرصے قبل تصور کیا ہو، مگر گذشتہ دنوں ایسا ہوا اور مقابلے میں پاکستان اور بھارت کے کئی سابق اسٹارز نے بھی شرکت کی،ایونٹ کون جیتا کون ہارا یہ بات اہم نہیں مگر اس دوران کچھ ایسا ہوا جو دونوں روایتی حریف ممالک کی سوچ میں فرق نمایاں کر گیا۔

شاہد آفریدی کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے مداحوں کو ہمیشہ عزت دیتے ہیں، اس بار بھی ایسا ہی ہوا، میچ کے بعد وہ باؤنڈری پر پہنچ گئے اور آٹوگراف اور سیلفیز کی فرمائشیں پوری کرتے رہے، ایسے میں ایک بھارتی خاتون نے بھی ان کے ساتھ سیلفی کی خواہش ظاہر کی مگر اس دوران وہ ازخود یہ سوچ چکی تھیں کہ بھارت کا پرچم لپیٹ لینا چاہیے ورنہ پاکستانی کرکٹر کو برا لگے گا، آفریدی نے یہ نوٹ کر لیا۔

انھوں نے خاتون کے ساتھ تصویر بنوانے سے قبل صرف ایک جملہ کہا کہ ’’فلیگ سیدھا کرو نہ اپنا‘‘ یہ سن کر مذکورہ خاتون نے بھارتی ترنگا کھول لیا جس کے ساتھ آفریدی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی، پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے والا بھارتی میڈیا بھی برف کے درمیان ایک پاکستانی کے اس طرز عمل سے پگھل گیا اور تعریفوں کے پل باندھ دیے۔

اخبارات نے بھی نمایاں طور پر یہ تصویر شائع کی، ہمارے شائقین اور میڈیا نے بھی آفریدی کے انداز کو سراہا، اب اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے، اگر ہم سوچیں کہ شاہد آفریدی کی جگہ وہاں موجود وریندر سہواگ یا کوئی دوسرا بھارتی کرکٹر ہوتا تو کیا وہ اپنے پرستار سے کہتا کہ ’’فلیگ سیدھا کرو نہ اپنا‘‘ ہر گزنہیں کیونکہ اسے پتا تھا کہ ایسا ہونے سے اسے بھارت میں خوب لعن طعن کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اگر غلطی سے محمد کیف جیسا کوئی کرکٹر ایسا کرتا تو اس پر تو پکا پکا پاکستانی کا لیبل لگ جاتا اور غدار تک قرار دیا جا چکا ہوتا، اسی ایونٹ کے دوران وہاں موجود بھارتی صحافیوں نے سابق پاکستانی کرکٹرز کے انٹرویوز لیے سب نے دونوں ممالک میں کرکٹ کی بحالی کیلیے آواز اٹھائی، البتہ انھوں نے اپنے ملک کے کھلاڑیوں سے ایسا کوئی سوال نہ پوچھا کیونکہ پتا تھا ایسا کرنے سے نہ صرف وہ کھلاڑی بلکہ اپنے آپ کو بھی مشکل میں ڈال دے گا۔

ویسے بھی آپ دیکھ لیں کہ سوائے بشن سنگھ بیدی مجھے نہیں یاد کہ کوئی بھارتی سابق یا موجودہ کرکٹر کبھی کہتا ہوکہ ’’پاکستان کے ساتھ کھیلنا چاہیے‘‘، اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ سب ڈرتے ہیں کہ ہم نے ایسا کہا تو انتہا پسند پیچھے پڑ جائیں گے، یہ ہے بھارت کا اصل چہرہ جہاں عام لوگ تو کیا سیلیبریٹیز بھی کچھ کہتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں اور اگر وہ مسلمان ہیں پھر تو ان کیلیے چپ رہنا ہی بہتر ہوتا ہے، جب سے مودی حکومت آئی ہے نفرت مزید بڑھ گئی۔

آپ کو پاکستان کے بارے میں بھارتیوں کے خیالات جاننے ہیں تو ہمارے حوالے سے کسی بھی بھارتی ویب سائٹ میں کوئی خبر پڑھ لیں زیادہ تر افراد منفی کمنٹس ہی کر رہے ہوتے ہیں، البتہ جھنڈے والی حالیہ تصویر کے بعد مثبت تبصرے آئے۔

میں کرکٹ ایونٹس کی کوریج کیلیے کئی بار بھارت جا چکا، گوکہ خفیہ نگرانی کا احساس ہوتا تھا مگر عام لوگ اچھے انداز سے ملتے، مگر ممبئی حملوں کے بعد بھارتی میڈیا نے اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ اب بیشتر عام بھارتی بھی پاکستانیوں سے نفرت کرنے لگے ہیں، اس کا ثبوت چوتھے ون ڈے میں بھی سامنے آیا، عمران طاہر اب جنوبی افریقی بن چکے مگر پاکستان سے تعلق کی وجہ سے بھارتی شرٹ پہنے شخص نے انھیں نسلی تعصب کا نشانہ بنایا، دونوں ممالک میں سوشل میڈیا پر بھی ہر وقت جنگ چھڑی رہتی ہے، ماضی میں کرکٹ کے ذریعے عام لوگوں کا تعلق برقرار تھا جسے ختم کر دیا گیا۔

شاہد آفریدی کی ایک تصویر دیکھ کر بھارتیوں کو اندازہ لگا لینا چاہیے کہ ہم پاکستانی کتنے کھلے دل کے مالک ہیں، آفریدی نے بغیر کسی خوف کے بھارتی پرچم کے ساتھ تصویر بنوائی، انھیں یہ ڈر نہیں تھا کہ سوشل میڈیا پر پاکستانی منفی تبصرے کریں گے، اخبارات و ٹی وی چینلز تنقید کریں گے، غدار قرار دے کر پتلے بھی جلائے جا سکتے ہیں ، مگر بھارتیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہے، وہ خوف کی وجہ سے دل کی بات بھی نہیں کر سکتے۔

ویرات کوہلی سمیت بیشتر بھارتی کرکٹرز کی پاکستانی کھلاڑیوں سے دوستی ہے، یقیناً وہ بھی چاہتے ہوں گے کہ باہمی تعلقات بحال ہوں مگر حکومتی پالیسی کی وجہ سے خاموش رہنا پڑتا ہو گا، جب ورلڈکپ،ورلڈٹی ٹوئنٹی، چیمپئنز ٹرافی یا ایشیا کپ کے دوران دونوں ممالک کا میچ ہوتا ہے تو کروڑوں لوگ اسے دیکھتے ہیں، آئی سی سی اور اے سی سی کو بھی بڑی آمدنی ہوتی ہے،یہاں بھی دہرا معیار ہے،اگر ہم دشمن ہیں تو آئی سی ایونٹس میں کیوں کھیلتے ہو؟

ادھر بھی نہ کھیلو، مجھے نہیں یاد کہ کبھی پاکستانی حکومت نے پی سی بی سے کہا ہو کہ بھارت سے نہ کھیلو، حقیقت میں ہمارے ملک نے کھیلوں کو سیاست سے دور رکھا ہوا ہے لیکن بھارتی حکومت ایسا نہیں کرتی، اگر دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانا ہیں تو کھیل اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لوگ ایک دوسرے کے ملک آئیں گے تو منفی سوچ ختم اور دوستی بڑھے گی، ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان شدید ترین کشیدگی کے ماحول میں بھی کرکٹ کھیلی گئی۔

’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ سے خاصا فائدہ ہوا، اب بھی ایسا کرنا چاہیے، مگر افسوس بھارت کا انداز منفی ہی ہے،پاکستانی اداکاروں پر بھی وہاں کام کرنے پر پابندی لگائی جا چکی، آئی پی ایل میں بھی ہمارے کھلاڑی شامل نہیں ہوتے، گذشتہ دنوں ایک ویب سائٹ نے سروے کیا تو واضح ہوگیا کہ پاکستانی کرکٹرز پر اگر پابندی نہ ہوتی تو وہ کتنی بڑی رقوم میں معاہدے کرتے۔

اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہاں ہمارے کھلاڑیوں کی کتنی ڈیمانڈ موجود ہے، افسوس بی سی سی آئی حکام بھی دوستانہ رویے کے حامل نہیں،بگ تھری کی حمایت پر نجم سیٹھی کو سبز باغ دکھائے گئے مگر ایک بھی سیریز نہ کھیلی، اب تو قانونی جنگ بھی شروع ہو چکی ہے، معاملات اس وقت ہی بہتر ہو سکتے ہیں جب بھارت حقیقی معنوں میں کھیل کو سیاست سے دور رکھے،مگر افسوس مودی سرکار کے ہوتے ہوئے ایسی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔