محبت کا نشہ اور نوجوان نسل

روبینہ شاہین  منگل 13 فروری 2018
 انسان کا انسان کو ایڈکشن دوہری بیماری ہے۔
فوٹو: انٹرنیٹ

انسان کا انسان کو ایڈکشن دوہری بیماری ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ہماری نسل کے حصے میں ایک ایسا جنون اور پاگل پن آیا ہے جسے محبت کہا جاتا ہے۔ اس جنونی جذبے نے ہماری ساری صلاحیتیں، غیرت اور عزت چھین لی ہے۔ آخر یہ ہے کیا؟ محبت جو جینا سکھاتی ہے، ایک ایسی ضد جو کچھ بھی کر گزرنے پر مجبور کرتی ہے۔ جنون جو پاگل کر دیتا ہے۔ اور پاگل کو کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا۔ نہ رشتے نہ ان کا احترام، نا حیا اور نا اس کے تقاضے۔ کیا دل کی بات ماننا اتنا ضروری ہے کہ اللہ کی بات بھی پیچھے رہ جائے؟ خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیچھے بالعموم یہی جذبہ ہے جسے محبت کہا جاتا ہے۔ کم و بیش ہر گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا کیس پایا جاتا ہے جس نے سب جینا حرام کر رکھا ہو۔ آخر اس بیماری اور نشے کا کوئی تو علاج ہوگا!…

ڈاکٹر صداقت کہتے ہیں کہ ایڈکشن یعنی نشہ ایک قابل علاج بیماری ہے، مگر انسان کا انسان کو ایڈکشن دوہری بیماری ہے۔ کیونکہ اس میں ایک شخص اگر جان چھڑواتا ہے تو دوسرا کھینچ لیتا ہے۔ یہ بھی قابل علاج ہے اگر مریض کو سمجھایا جائے کہ آپ کسی بیماری کا شکار ہیں، آپ کاعلاج ہو سکتا ہے؛ تو نتائج بہت حد تک مثبت ہو سکتے ہیں۔

کچھ تجاویزہیں جن پر عمل کرکے ہم نئی نسل کو اس جنون سے بچا کر مقصدیت کی طرف لا سکتے ہیں۔

بچوں کو اوائل عمری میں ہی آگاہی دی جائے کہ آپ کی زندگی میں اس طرح کے حادثات ہو سکتے ہیں پر آپ کو انہیں سنجیدہ نہیں لینا، کیونکہ آپ کی زندگی سب سے زیادہ اہم ہے۔ آپ کی ذات اصل سرمایہ ہے، باقی ساری چیزیں، جذبے اور لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔

بچوں کو سمجھایا جائے کہ زندگی بے مقصد نہیں ہے۔ اللہ نے ہر انسان کو کسی مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔ لہذا اپنی زندگی کا کوئی مقصد بنایئے اور پھر اس میں جُت جایئے۔ جب زندگی میں بڑے مقصد ہوتے ہیں تو پھر باقی چیزوں کے لیے وقت نہیں بچتا۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے پاس کوئی بڑا مقصد نہیں ہے، جبھی وہ لایعنی چیزوں کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔

پاکستان کے معروف مصنف اور موٹیویشنل اسپیکر اختر عباس کہتے ہیں کہ بچوں کو محبت کی ترتیب سمجھائی جائے۔ اگر درست ترتیب ان کے دماغ میں بیٹھ جائے تو ایسے حادثات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

وہ ترتیب کچھ یوں ہے:

سب سے پہلے محبت کا حق اللہ کی ذات کےلیے ہے۔ اس کے بعد نبی اکرمﷺ اور اس کے بعد والدین۔ اس کی حکمت بتاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ک محبت کی ترجیحات کی عدم درستی کے معاملات سے مجھے بارہا واسطہ پڑا، کہیں سمجھانے سے بات بنی تو کہیں ڈرانے سے۔ انسانی رشتوں سے محبت مستقل ہو نہیں پاتی۔ والدین سے محبت چند ہی سالوں بعد کسی لڑکے اور لڑکی کی محبت تلے دب کر کچلی جاتی ہے۔

ہر سال گھروں سے بھاگنے والی ہزاروں لڑکیوں نے بھی تو کبھی اپنے والدین سے محبت کا دم بھرا ہوگا۔ بھاگ کر شادی کرنے والوں کی محبت کی سوئی کب کہیں اور جا کر اٹک گئی، یہ وہ خود بھی نہیں بتا سکتے۔ نوکری، عمدہ تنخواہ، اعلیٰ منصب، بااختیار پوزیشن، امیر رشتہ دار، خوبصورت دوست، اپنی اولاد، اپنا گھر، اپنی جائیداد، اپنی دنیا اور اپنی آخرت۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ محبت کے مراکز اس تیزی سے بدلتے ہیں کہ خود حیرت ہونے لگتی ہے۔ کیونکہ بظاہر ہر محبت اس وقت سچی، بے لوث، غیر مشروط اور پائیدار لگتی ہے، مگر اپنی اصل سے ہٹ کر کوئی تعلق اور محبت کیسے مستقل اور پائیدار ہوسکتی ہے۔

محبت ضرور کرو مگر اس کی ترتیب ٹھیک رکھو ورنہ یہ بےترتیبی تمہیں کبھی ٹھیک نہ رہنے دے گی۔

اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت مقصدیت دیتی ہے اور یہ وہ لذت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ دنیا کی ہر لذت وقتی ہے، جب پیٹ بھر جائے تو اسی کھانے سے دل اچاٹ ہو جاتا ہے جو تھوڑی دیر پہلے بڑی رغبت سے کھایا جا رہا تھا۔ محبت کی شادی کرنے والے جوڑوں پر ریسرچ کی گئی تو پتہ چلا کہ محبت کا بخار صرف شادی کے سات ماہ تک رہتا ہے، پھر وہی عام میاں بیوی ہوتے ہیں اور وہی ان کے مسائل؛ اس لیے بچوں کو ان کے اصل سے جوڑیے۔ یہ بطور والدین اور اساتذہ آپ کا فرض عین ہے۔

بچے اگر اس جذبے کا شکار ہو بھی جاتے ہیں تو ان کو طعنے اور کوسنے دینے کی بجائے پیار سے ہینڈل کیجیے۔ ان کو ایک دوسرے پر ترجیح نہیں دیجیے کہ فلاں کا بچہ تم سے بہتر ہے، فلاں بہن یا بھائی تم سے زیادہ پڑھائی میں اچھا ہے۔ انسان کا مقابلہ انسان سے نہیں، صرف اپنے آپ سے اور آنےوالے کل سے ہوتا ہے۔ ان کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ تمہارا کل تمہارے آج سے اچھا ہونا چاہیے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ’’وہ شخص ہلاک ہوا، جس کا آج اس کے گذشتہ کل سے اچھا نہیں۔‘‘

ہمارے معاشرے کا ایک ناسور یہ میڈیا ہے۔ جنہوں نے نوجوانوں کے اندر ڈراموں اور فلموں کی صورت میں وہ زہر اتار دیا ہے کہ وہ ان جھوٹے واقعات کو سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ کچی عمر میں دیکھی جانے والی فلمیں اور ڈرامے ان کےلیے مستقبل کا مقصد بن جاتی ہے، ان کے لاشعور میں بیٹھ جاتی ہے۔ اسی لیے افلاطون نے کہا تھا کہ ڈرامہ بچوں کی شخصیت مسخ کر دیتا ہے۔ یہ وہ جھوٹ ہے جو ساری عمر ان کی زندگیوں میں زہر گھولتا رہتا ہے۔ میڈیا کا ایک مروجہ اصول یہ بن گیا ہے کہ جھوٹ اتنا دکھاؤ کہ سچ لگنے لگے۔ فی زمانہ ہم بچوں کو اس میڈیا نامی بیماری سے دور تو نہیں رکھ سکتے مگر انھیں سمجھا تو سکتے ہیں کہ یہ واقعات یہ فلمیں یہ ڈرامے یہ سب حقیقیت نہیں ہوتے۔ ایک تحقیق کے مطابق نو دس سال تک بچہ جو دیکھتا ہے اسے حقیقت سمجھتا ہے۔

محبت کی شادی میں کوئی قباحت نہیں، اسلام جو دین فطرت ہے اس نے انسان کے اس جذبے کو نظر انداز نہیں کیا اور شادی کے وقت بڑوں کی رضامندی کے ساتھ ساتھ لڑکی اور لڑکے کی رضامندی کو بہت اہمیت دی ہے۔ مگر ہمارا معاشرہ اتنا تنگ نظر ہے کہ آج بھی پڑھے لکھے خاندانوں میں پسند کی شادی قباحت سمجھی جاتی ہے۔ ان کی بڑی وجہ غیر خاندان میں شادیوں کا رواج کا نہ ہونا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہے کہ خاندان سے باہر شادیاں کرنی چاہئیں، اس میں بہت ساری حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

بچے اللہ کی امانت ہیں، ان کے لیے آپ اللہ کے سامنے جواب دہ ہونگے۔ وہ کوئی بے جان چیز ہیں، نہ ہی آپ ان کے مالک اور وہ آپ کے غلام۔ اپنی ذمہ داریاں پوری کیجیے۔ جیسے کم توجہ اور پیار کی کمی بگاڑ کا باعث بنتا ہے ویسے ہی زیادہ لاڈ اور پیار بھی بگاڑ کا سبب ہوتا ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ اپنے بچے کو ضد سے بچا لیا تو ہر شر سے بچا لیا۔ ضد اور ہٹ دھرمی انسان کو ہمیشہ سچائی اور حق کے راستے سے روکتی ہے۔ لہٰذا بچے کو ضدی ہونے سے بچانا چاہیے تاکہ اس کا یہ جذبہ بڑا ہوکر جنون کی شکل اختیار نہ کرلے۔

جاوید چودھری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ناروے میں بچے کوتربیت دیتے ہوئے یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کا بچہ اگر رات کو اٹھ کر رونے لگتا ہے تو اسے کبھی دودھ نہیں دیجیے، ورنہ اس سے یہ اپنے رونے کی اہمیت کو سمجھ جائے گا۔ لہذا دودھ اپنے وقت پر دیجیے۔ ایسے بچے نہ صرف والدین بلکہ بڑوں کےلیے بھی بڑے ہوکر مسائل کا باعث بنتے ہیں۔

بچوں کو بچپن میں اتنی محبت ملنی چاہیے کہ اس کے اندر اطمینان اور سکون بھر جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو وہ اس خالی جگہ کو کبھی لڑکے لڑکی کی ناجائز محبت میں تو کبھی دولت اور اسٹیٹیس سے پُر کرنے کی دوڑ میں لگ جائیں گے۔ یہ ماں ہوتی ہے جو اپنی اولاد کے اندر سکون یا بےسکونی کو ساری عمر کےلیے رکھ دیتی ہے، اس لیے ماؤں کو بھی تربیت دی جائے کہ انہیں اپنے بچوں کو پرسکون زندگی کی طرف کیسے لانا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔