قانون سے کوئی بالاتر نہیں

ایڈیٹوریل  بدھ 14 فروری 2018
امریکا کے صدر کو کھوکھا الاٹ کرنے کا اختیار نہیں، لیکن یہاں بڑی بڑی پوسٹوں سے نوازا جاتا ہے،فوٹو: فائل

امریکا کے صدر کو کھوکھا الاٹ کرنے کا اختیار نہیں، لیکن یہاں بڑی بڑی پوسٹوں سے نوازا جاتا ہے،فوٹو: فائل

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جمہوریت قانون کی حکمرانی کے ساتھ چلتی ہے، وزیراعظم مطلق العنان نہیں، قانون سے کوئی بالاتر نہیں،ملک میں جمہوریت ہے بادشاہت نہیں، ہم قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیںگے، اصلاحات کا وقت آگیا ہے، جہاں جہاں خامیاںہیں درست کریں گے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں فل بنچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے در حقیقت بلا شرکت غیرے آمرانہ اختیار اور نازک جمہوری قدغن کے باریک فرق کی آئینی تشریح کی ہے اور اعلیٰ سطح کے عہدوں پر تقرریوں کے اختیارات کو اندھا دھند استعمال سے گریز کی قانونی تقاضوں کی نشاندہی جب کہ اہل اقتدار طبقہ کی اس اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ میرٹ کا قتل بلاشبہ عہدہ کے لیے ناموزوں مگر من پسند افراد کی تعیناتی کا منطقی نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ بیوروکریسی کی انتظامی اساس مکمل شفافیت، جوابدہی پر مبنی کارکردگی اور مطلوبہ استعداد ، تعلیمی لیاقت، عہدہ کے لیے لازمی تجربہ اور تکنیکی مہارت کے حامل افراد قائم رہتی ہے، ورنہ مشاہدہ میں یہی آیا ہے کہ سرکاری محکمے اور اہم ادارے برباد محض اس لیے ہوتے رہے ہیں کہ ان کے نظم ونسق اور انتظامی شفافیت پر حکمرانوں نے ہمیشہ سمجھوتہ کیا ہے جس کے نتیجہ میں اقربا پروری، دوست نوازی اور سیاسی مصلحت آمیزی کے تباہ کن نتائج ادارہ جاتی انحطاط کی سنگینی کی شکل میں سامنے آجاتے ہیں۔

دیانت دار اور فرض شناس افسران کھڈے لائن لگادیے جاتی ہیں اور خوشامدی ٹولہ پارٹی سرپرستی اور سیاسی اثر ورسوخ سے حقداروں کا حق مارتے اور کرپشن میں ملوث ہوجاتے ہیں، آج ملک قحط الرجال اور قہر الرجال دو طرفہ مسئلہ سے گھائل کیوں ہے ، وجہ قانون سے بالاتر رہنے کا خبط اور مطلق العنانیت سے کاروبار حکومت چلانا ہے ، یوں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور ادارہ جاتی شکست وریخت کی کہانی برسوں پر محیط ہے، جب کہ تاریخ کے اوراق سے پتا چلتا ہے کہ کہ قانون کی بالادستی آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے حکمرانی سے ملکی معاملات کی سمت درست رہتی ہے، ملک ترقی اور عوام خوشحال ہوتے ہیں، سیاسی ، سماجی اور معاشی اہداف تک رسائی میں حکومت کوکوئی مشکل پیش نہیں آتی، چونکہ سارے ریاستی ستون آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کررہے ہوتے ہیں۔

مگر وطن عزیز کو ضرورت ایسے جمہوری نظام کی ہے جو عوام کو ریلیف پہنچائے، عوام کی بے لوث خدمت ان کی سیاست بنے ۔ ایسا ملک کثیر الجہتی چیلنجزسے رات دن نمٹنے کی اعصابی جنگ لڑتا ہے اور نہ اسے چاروں طرف سازش نظر آتی ہے نہ اقتدار کا سنگھاسن ہر وقت ڈولتا ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے، امریکی دانشور ول ڈیورانٹ نے کہا تھا ’’اگر ہم نے قابل لوگوں کو سیاسی عہدوں پر مامور نہیں کیا، جمہوریت کی علم دشمنی کو ختم کرنے پر توجہ نہیں دی ، اور ان صلاحیتوں کو جو جلب منفعت میں مصروف ہیں اجتماعی بہبود کی طرف نہیں موڑا اور اپنے دفتروں،آئین ساز مجلسوں میں ان لوگوں کو لانے کے منصوبہ نہ بنائے جو کم از کم انتظامی تربیت حاصل کرچکے ہیں تو جمہوریت یقیناً ناکام ہے۔غالباً اسی تناظر میں چیف جسٹس نے قراردیا ہے کہ حکومت کے پاس عہدے پر کرنے کا اختیار نہیں، امریکا کے صدر کو کھوکھا الاٹ کرنے کا اختیار نہیں، لیکن یہاں بڑی بڑی پوسٹوں سے نوازا جاتا ہے۔

حقیقت میں بعض آئینی مدبرین یہ تک کہتے ہیں کہ امریکی صدر بظاہر طاقتور ترین دکھائی دینے کے باوجود قانون وآئین کی بندشوں میں جکڑا ہوا ہے، صدر ٹرمپ کو دیکھیے اس کے کتنے احکامات عدلیہ اور خود اس کے ریاستی اداروں کی سخت بندشوں اور دیانتدارانہ اختلاف سے نامنظور سے غیر موثر ثابت ہوئے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ حکومت وہی مستحکم اور جمہوری عمل کو کامیابی سے آگے بڑھاتی ہے جو مملکت کے تمام ستونوں کی ہم آہنگی، مثالی تعلقات کار اور عوام کے لیے ریلیف اور خیر سگالی کے جذبات سے لبریز ہو، بجٹ عوام دوست دے، اشرافیہ کے نرغے میں ملکی وسائل اور خوش نما خواب نہ ہوں، وہ جمہوریت عوام کی کیا خدمت کریگی جسے چومکھی لڑنے سے فرصت نہ ہو اور عوام بیچارے رلتے اور دھکے کھاتے رہیں، ایک بات سولومن ابن جبرول نے کہی تھی کہ بادشاہ روئے ارض کے جج ہوسکتے ہیں مگر اہل عقل ودانش بادشاہوں کے جج ہوتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمراں تاریخ کے اس نازک دوراہے پر جمہوری سوچ کے ساتھ قوم کی تقدیر سنوارنے پر توجہ دیں، ملکی میںکسی طور آئیڈیل صورتحال نہیں، ایک کھینچا تانی اور نہ ختم ہونے والی کشمکش ہے جو کسی بھی وقت تشویش ناک ہوسکتی ہے، بھارت کی ریشہ دوانیوں کا جواب دینا ہے، افغانستان کی قیادت کوزمینی حقائق سے چشم پوشی ترک کرنے پر رضامند کرنے کی کڑوی گولی بھی کھانی پڑیگی، یہ بڑے اہم چیلنجز ہیں ، داخلی استحکام کے ساتھ خارجی محاذ پر بھی بے شمار عدالت عظمیٰ نے جن حقائق کی طرف اشارے کیے ہیں ان میں اہل اقتدار اور ملک کے چیف ایگزیکٹو کے لیے چشم کشا ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔