دلہا، دَھرنے والا

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 14 فروری 2018
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

ریٹائرمنٹ تک خوشحالی رانا صاحب کے گھر سے کوسوں دور رہی مگر بیٹا کسٹمز کے محکمے میں بھرتی ہوا تو ان کے دن پھرگئے۔ ایک دو سال  میں ہی کار بھی آگئی اور بنگلہ بھی بن گیا، جب گھرانے کی برق رفتار ترقی کی شہرت پھیلی تو کئی امیر گھرانوں سے رشتے آنے لگے۔رانا اور بیگم رانا کو گوجرانوالہ کے ایک کاروباری گھرانے کارشتہ پسند آگیا۔ بڑی دھوم دھام سے منگنی کی گئی اور اس کے ساتھ ہی شادی کی تاریخ بھی مقرر کردی گئی۔ شادی کے لیے دُلہا نے بڑی مہنگی اور چمکتی ہوئی گاڑی کرائے پر لی جسے ہزاروں روپے لگا کر سجایا گیا، دُلہا کے ساتھ صرف رانا صاحب بیٹھے، دلہا کی والدہ ان پڑھ اور سادہ تھی اُسے ایک دوسری گاڑی میں بٹھایا گیا، کئی کاروں اور بسوں پر مشتمل بارات صبح گیارہ بجے لاہور سے گوجرانوالہ کے لیے روانہ ہوئی۔

دریائے راوی کے پل پر پہنچ کر بارات رک گئی، سواریوں نے سمجھا شاید لال بتی پر رکی ہے مگر جب وقفہ معمول سے زیادہ طویل ہوگیا تو بزرگوں نے چند نوجوانوں سے کہا کہ’’اتر کر پتہ کرو کیا بات ہے، گاڑیوں کی لمبی لائن لگی ہوئی ہے‘‘۔  نوجوانوں نے واپس آکر بتایا کہ’’ راولپنڈی کے فیض آباد چوک پر جن لوگوں نے دھرنا دیا ہے، انھی کے ساتھیوں نے یہاں ٹریفک بلاک کردی ہے‘‘۔ کسی نے موٹروے کی طرف سے جانے کا مشورہ دیا مگر اب گاڑی وہاں سے نکالنا بھی ممکن نہ تھا۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا باراتیوں کی پریشانی بڑھنے لگی۔ ہنسی مذاق، لطیفے اور قہقہے بند ہوگئے، سب سے زیادہ دلہا اور اس کے والد رانا صاحب پریشان تھے جن کے کے ذہن میں کئی وسوسے جنم لینے لگے اگر آج بارات نہ پہنچی تو کیا بنے گا؟ بڑی مشکل سے ایک امیر کبیر گھرانے میں رشتے داری ہورہی تھی، وہ دلہے کو گاڑی اور دلہن کو بنگلہ دے رہے تھے۔کہیں ایسی اسامی ہاتھ سے ہی نہ نکل جائے۔ رانا صاحب بار بار اپنے سمدھی سے فون پر بات کررہے تھے۔ پہلے پہل تو سمدھی کا انداز ہمدردانہ تھا مگر دوپہر کا وقت گزرنے کے بعد اس کی آواز میں جھنجھلاہٹ اور غصّے کا تاثر نمایاں ہونے لگا، آخری کال پر اس نے کہا بچّی کے ماموں سے بات کریں۔

ہونے والی بہو کا ماموں سابق پٹواری تھا اُس نے کہا’’دیکھیں جی بارات نہ پہنچنے سے ہماری بڑی بے عزّتی ہوگی، اگر لڑکا رات تک پہنچ جائے تو آپ کا حق فائق ہے،ورنہ پھر کوئی گرنٹی نہیں‘‘۔ راناصاحب نے فوری طور پر مجلسِ شوریٰ کا اجلاس طلب کیا جس میں دُلہے کا تایا،ایک طلاق یافتہ پھوپھی، ایف اے پاس ہمشیرہ اور محلّے کا کونسلر شامل تھا، سب نے متفقہ فیصلہ کیا کہ لڑکے کا ہر صورت گوجرانوالہ پہنچنا ضروری ہے۔ پہنچنے کے لیے مختلف ذرایع پر غور ہوا، پیدل، کھوتی ریڑھی، موٹرسائیکل اور چِنگ چی۔اکثریتی فیصلہ موٹرسائیکل کے حق میں ہوا۔ رائیڈر کے طور پر کونسلر کے بھائی کا انتخاب کیا گیا کہ وہ ان علاقوں کا واقف تھاگوکہ دو ایک وارداتوں میں پکڑا بھی گیامگر اکثر پولیس کو جُل دیکر فرار ہونے میں کامیاب ہوتا رہا۔ کچھ وقت موٹر سائیکل کے حصول میں لگ گیا۔

سواری دستیاب ہوئی تودُلہا کو ایک مرتبہ پھر اس کے یاروں اور محلے داروں نے رخصت کیا۔ کچھ دوستوں نے سہرا اتاردینے کا مشورہ دیا تاکہ سفر میں رکاوٹ نہ بنے، مگر خواتین نے اسے برا شگون قرار دیکر ویٹو کردیا۔ موٹر سائیکل چلتے ہی دُلہے کی شیروانی موٹرسائیکل کے ٹائر میں پھنس گئی، اب ایک طرف شیروانی نکالنے کا مسئلہ اور دوسری طرف پہنچنے کی جلدی۔ دلہا نے کھینچ کر نکالنے کی کوشش کی تو شیروانی پھٹ گئی۔ تھوڑا آگے جاکر دلہا میاں شیروانی سنبھال رہے تھے کہ سامنے نالہ آگیا ، رائیڈر نے ایک طرف زور لگایا، دُلہا دوسری طرف جھکا ہوا تھا لہٰذا توازن برقرار نہ رہنے سے موٹر سائیکل قابو میں نہ رہ سکا اور رائیڈر اور دلہا پانی میں جاگرے۔ شیروانی سے زیادہ دلہے کو اس کی جیبوں میں بھرے ہوئے نوٹ بھیگنے کا افسوس تھا۔ رائیڈر حمیدے نے کہا نوٹ مجھے پکڑا دو مگر دلہے نے اپنے والد کی یہ ہدایت یاد کرکے اس کا یہ مطالبہ مسترد کردیا کہ ’’دیکھو حمیدے پر پیسوں کا اعتبار کبھی نہ کرنا، اس نے ابھی وکیلوں کی فیسیں بھی ادا کرنی ہیں‘‘۔

نالے سے نکل کر دلہا پھر حمیدے کے پیچھے بیٹھ گیا۔مگر اس طرح کہ اس  نے ایک ہاتھ میں شیروانی اور حمیدے کی قمیض کے کالر پکڑ رکھے تھے اوردوسرے ہاتھ میں پیسے اور سہرا پکڑا ہوا تھا۔ دورانِ سفر ہر دواشیا کا باہمی تبادلہ ہوتا رہا یعنی کبھی شیروانی اور حمیدے کا کالر بائیں ہاتھ اور پیسے اور سہرا دائیں ہاتھ میںبھی منتقل ہوتے رہے۔ ابھی تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ ایک اور نالے نے راستہ روک لیا جسے دیکھکر یقیناً حمیدے نے سوچا ہوگا کہ ’’اک اور نالے کا سامنا تھا حمید مجھ کو۔۔۔۔ جو ایک نالے کے پار اترا تو میں نے دیکھا‘‘ اس نالے میں اترنے سے پہلے دلہے نے اپنا ٹارگٹ طے کرلیا کہ کچھ بھی ہوجائے، نتائج کچھ بھی نکلیں لیکن وہ پیسوں اور سہرے کو ہر قیمت پر بھیگنے سے بچائے گا۔

چنانچہ اس بار جب وہ نالے میں چاروں شاے چت گرا تو اُس کے دونوں ہاتھ بلند اور پانی سے باہر تھے اس طرح اس نے ہر دو کو پانی سے بچانے کا ہدف حاصل کرلیا جب کہ اس کے تمام کپڑے پانی سے نچڑ رہے تھے۔ حمیدے نے سفر جاری رکھا۔ اُس کا خیال تھا کہ کچھ مزیددیہاتوں سے ہوتا ہوا وہ جلد ہی جی ٹی روڈ پر چڑھ جائے گا۔ سفر کے ھچکولوں اور نالوں کی ڈبکیوں سے سہرے کے سامنے والا حصّہ پشت کی جانب چلا گیا تھا۔ لہٰذا ایک قصبے سے گزرتے وقت کچھ لونڈوں لپاڑوں نے آوازے کسے کہ ’’ دُلہا بھائی آرہے ہیں یا جارہے ہیں؟‘‘ ایک نے کہا ’اُوپر سے آرہے اور نیچے سے جارہے ہیں۔‘ حمیدے نے انھیں منع کرنا چاہا، مگر دلہا نے حمیدے کو ایسی آوازوں پر کان نہ دھرنے اور سفر جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔

ایک بڑے قصبے سے گزرتے ہوئے تھانے کے سامنے کھڑے حوالدارنے روک لیا اور آتے ہی کہا ’’ سچ سچ بتادو کہ واردات کرکے آرہے ہو یا کرنے جارہے ہو؟ ‘‘ دلہا بولا ’’دیکھیں جی میری آج شادی ہے‘‘۔ ’’اچھا تو اغوا کرنے جارہے تھے، اسی لیے منہ چھپایا ہوا ہے‘‘۔ حوالدار نے کہا۔ نہیں جی، منہ نہیں چھپایا، سہرا باندھا ہوا ہے۔ اس پر حوالدار نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا اچھا تو اپنے نقاب کو سہرے کا نام دے رہے ہو۔ کئی مجرم فرار ہونے کے لیے چہرے پر نقاب کے بجائے سہرا باندھ لیتے ہیں۔ اس طرح کے کئی سہرا پوش وارداتئے میں پہلے بھی گرفتار کرچکا ہوں۔ تلاشی دو۔ تلاشی لینے پر گیلے نوٹ برآمد ہوتے ہی حوالدار نے پھر شور مچایا ’’منہ پر نقاب اور نوٹ بھی گیلے۔ سو فیصد ڈاکے کی واردات ہے۔ فوراً بتادو کیا نام ہے کیس کے مدعی کا؟‘‘ اس پر حمیدے نے Interveneکیا ، اپنے تجربے سے کام لیتے ہوئے گیلے نوٹوں میں سے کچھ نوٹ اچک کر حوالدار کو سائیڈپر لے گیا، مختصر سے مذاکرات ہوئے، جو کامیاب رہے، واپسی پر حوالدار نے دلہا کو شادی کی مبارک دیکر رخصت کردیا اور وہ کچھ دیر بعد جی ٹی روڈ پر پہنچ گئے۔

بارات کو منزل پر دوپہر کو پہنچنا تھا مگر دلہا جب منزل کے قریب پہنچا تو اُس وقت دوسرے روز کا سورج طلوع ہوچکا تھا، دلہا نے کہا کسی ہوٹل میں منہ ہاتھ دھو لیتے ہیں مگر حمیدے نے مزید تاخیر کے نقصانات کا بڑا بھیانک نقشہ کھینچا اور فوراً منزل پر پہنچنے پر زور دیا، جس سے دلہا نے اتفاق کیا۔ صبح آٹھ بجے کے قریب جب حمیدا دُولہے کو لے کر دلہن کے گھر کے پاس پہنچا تو اسکولوں کے لڑکے گلی میں کھیل رہے تھے، الٹا سہرہ، پھٹی ہوئی شیروانی، بڑھی ہوئی شیو، کیچڑ زدہ شلوار، یہ عجیب و غریب حلیہ دیکھ کر ایک لڑکے نے پوچھا، آپ نے کہا ںجانا ہے؟  دُلہے نے فوراً جواب دیا ’’شادی والے گھر جانا ہے، میری ہی شادی تھی کل، میں دلہا ہوں‘‘۔ اس پر لڑکوں نے ہنسنا شروع کردیا۔گھروں سے عورتیں بھی نکل آئیں۔ ایک خاتون نے کہا ’’بے چارہ دل کی گہری چوٹ کی وجہ سے دماغی توازن کھو بیٹھا ہے‘‘۔ دوسری نے کہا ’’کوئی نشئی لگتا ہے۔ پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنا چاہیے‘‘  اوربھی لوگ آگئے ایک نے کہا ’’ دلہا تو دیکھو لگتا ہے بکرے کوشوگر ہوئی ہے‘‘۔ دوسرے نے کہا،کوئی مفرور لگتا ہے جیل سے بھاگا ہے۔ کچھ نے کہا سیلاب زدگان کے کیمپ سے آیا ہے،کچھ مدد کردو بیچارے کی۔

اتنے میںرانا صاحب کے سمدھی بھی گلی میں آگئے۔ دلہا نے چیخ کرکہا’’ انکل میں پہنچ گیا ہوں‘‘۔ انھوں نے کہا’’تم ہو کون؟‘‘۔ اس نے کہا’’جی میں ہی ہوں دُلہا‘‘۔ دلہن کے ماموں نے آتے ہی بآواز بلند پوچھا’’ کیڑا لاڑا آیا اے ، برنے والا؟‘‘ (ان کے ہاں دوباراتیں آرہی تھیں ایک دلہا کے گھر میں برنے کا درخت تھا) حمیدے نے کہا ’’نئیں جی بَرنے والا نئیں۔دَھرنے والا‘‘۔ اتنے میں دلہن کا پھوپھا بھی پہنچ گیا اُس نے دُلہا کو غور سے دیکھا تو اسے کچھ یاد آگیا۔ اُس نے پھر دیکھ کر کہا’’آپ کا نام رانا اعجاز ہے؟ آپ کسٹم میں ہیںناں‘‘۔’’جی ہاں‘‘ دُلہا نے فوراً جواب دیا۔ آپ نے ایک مہینہ پہلے جب میں ابوظہبی سے آرہا تھا ایئرپورٹ پر مجھ سے بیس ہزار روپے رشوت لی تھی۔ دلہا نے ہاتھ باندھ لیے ’’چاچا جی بیس ہزارکے چالیس ہزارلے لینا مگر میرا نکاح نہ رکواؤ‘‘ ۔ آخری خبریں آنے تک فریقِ اوّل خود کو دُلہا ثابت کرنے پر مصر تھا اور فریقِ ثانی ماننے سے انکار ی تھا۔ اُس روز کئی فریقین کے درمیان اسی نوعیّت کے مذاکرات کئی شہروں میں ہوئے۔ پنڈی والے مذاکرات تو ثالثوں کی وجہ سے کامیاب ہو گئے مگر دُلہے اتنے خوش قسمت کہاں کہ انھیں اتنے مخلص اور موثر ثالث مل جاتے۔

اس کہانی کے کئی سبق ہیں، فی الحال دو پر عمل شروع کردیں، ایک یہ کہ بارات روانہ ہونے سے پہلے قبلہ رضوی صاحب سے دھرنوں کا شیڈول پوچھ لیا کریں، دوسرا یہ کہ راشی رشوت لینے سے پہلے تسلّی کرلیاکریں کہ مرتشی، اس کی بننے والی دلہن کا پھوپھا تو نہیں ہے!!۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔