’’ ہم پھر سے کرے گا ‘‘

سردار قریشی  بدھ 14 فروری 2018

ایک خانصاحب سے کسی نے شرط لگائی کہ اگر وہ فلاں کام ایک ہی نشست میں پانچ بارکرکے دکھائیں تو وہ انھیں ایک لاکھ روپے بطور انعام دے گا اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو انھیں جرمانے کی دگنی رقم (یعنی دو لاکھ روپے) بھرنی ہوگی۔ خانصاحب نے حامی بھر لی اور نسوارکی چٹکی منہ میں رکھ کر شروع ہوگئے،کام کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ شرط لگانے والے کو بھی تعاون کی صورت میں اپنا حصہ ڈالنا تھا۔ اْس نے سوچا وہ پورا تعاون نہیں کرے گا توکام کا سارا بوجھ خانصاحب پر پڑے گا اور وہ بمشکل دو بارکرکے ہار مان لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کمرے کا فرش کچا تھا جس پر دھول جمی ہوئی تھی، خانصاحب کام کرتے جاتے اور فرش پر انگلی سے لکیرکھینچ کرگنتی بھی گنتے جاتے۔ جب وہ تین بارکام کرکے چوتھی بار کرنا شروع ہوئے تو اْس آدمی کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں خانصاحب کو لاکھ روپے نہ دینے پڑجائیں سو اْس نے آنکھ بچا کر ہاتھ سے دو لکیریں مٹا دیں، خانصاحب شرط کے مطابق جب پانچ بارکام پورا کرکے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا انعام مانگا تو اْس آدمی نے پھڈا ڈال دیا کہ ابھی تو تین ہی بار کام ہوا ہے، دونوں اپنی اپنی بات پر اڑ ے ہوئے تھے اورکوئی بھی مان کے نہیں دے رہا تھا۔

شور سن کر وہاں کچھ اور لوگ بھی جمع ہوگئے، خانصاحب نے اْنہیں اپنی چالاکی دکھانے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ سچ بول رہے ہیں فرش پرکھینچی ہوئی اپنی لکیروں کی طرف اشارہ کیا تو وہ انھی کے گلے پڑگیا کیونکہ وہاں پانچ نہیں تین لکیریں تھیں۔ یہ چیٹنگ خانصاحب کے لیے ناقابل برداشت تھی، غصے میں آکر انھوں نے وہ تین لکیریں بھی مٹادیں اور بولے ’’ہم پھر سے کرے گا۔‘‘ اْن کے عزائم بھانپ کراْس آدمی نے فوراً ہار مان لی اور رقم ڈھیلی کرکے جان چھڑائی۔ مجھے خان صاحب کی کہی ہوئی بات اس لیے یاد آئی کہ اب ہمارے ہاں بھی کئی عشروں سے جاری پرانا کھیل پھر سے شروع ہونے والا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا 80ء کے عشرے میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد امریکا نے جہاد کے نام پر دنیا بھر سے مجاہدین جمع کرکے، جنرل ضیا کے ذریعے پاکستان کو اس آگ میں جھونک کر جو خطرناک کھیل شروع کیا تھا، اْس کی ہمیں کس قدر بھاری قیمت چکانی پڑی اور ہم ابھی تک قسطوں میں اْس کا سود ادا کر رہے ہیں۔ افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کرکے بھی جب امریکا اور اْس کے اتحادیوں کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا تو انھوں نے القاعدہ کے نام پر جنگ کا دائرہ دوسرے اسلامی ممالک تک پھیلاکر عراق، لیبیا اور شام کو بھی اس کا ایندھن بنا دیا۔

آج ہم قدرتی وسائل خصوصاً تیل کی دولت سے مالا مال عراق اور لیبیا کو لٹے پٹے تباہ حال ملکوں کی صورت میں دیکھتے ہیں جبکہ شام اور افغانستان ابھی تک خانہ جنگی کی آگ میں جل رہے ہیں جس کے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے شعلے شاید ان کی تسلی وتشفی کے لیے کافی نہیں تبھی نئے محاذوں کی تلاش میں سرگرداں ان بھیڑیوں کی خونخوار نظریں ایک بار پھر پاکستان کا طواف کر رہی ہیں اور وہ ایک بار پھر اسے تختہ مشق بنانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اس بار اْن کی بچھائی ہوئی بساط کی خاص بات یہ ہے کہ روایتی حلیفوں کے ساتھ کچھ بظاہر مخالف ملک بھی اْن کے ہمنوا بن کر کھیل میں شریک ہونے جا رہے ہیں۔

ٹرمپ کی پاکستان کو دی ہوئی دھمکیوں والی بات اب پرانی ہوگئی، اگرچہ ہم ابھی تک ان دھمکیوں اور ان کے ممکنہ اثرات سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملیاں طے کرنے میں جْتے ہوئے ہیں۔ ہمیں اْن کے مطالبے ’’ڈو مور‘‘ پر اعتراض تھا نا، وہ اس سے بھی دستبردار ہوگئے لیکن اب برکس ممالک، جن میں ہمارا دیرینہ دوست ملک چین بھی شامل ہے، ہم سے وہ کھیل پھر سے شروع کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جو ہم نے مدت ہوئی کھیلنا چھوڑ رکھا تھا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ بیجنگ میں منعقدہ برکس کے سربراہی اجلاس میں روس، چین، بھارت، جنوبی افریقا اور برازیل، پاکستان میں کام کرنے والی دہشتگرد تنظیموں کے خلاف متحد ہوکر سامنے آئے ہیں اور انھوں نے ہم سے طالبان، لشکر طیبہ، جیش محمد، داعش اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

برکس اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشتگرد کارروائیوں کا ارتکاب، انتظام یا مدد کرنے کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور عالمی انسداد دہشتگردی اتحاد قائم کرکے ان کے خلاف بین الاقوامی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ افغانستان میں فوری طور پر جنگ بند کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ برکس ممالک نے شمالی کوریا کے جوہری میزائل تجربے کی بھی مذمت کی ہے اور جوہری مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یوں اب ہمیں امریکا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی ان لے پالک تنظیموں سے آنکھیں ہی نہیں پھیرنی پڑیں گی بلکہ ان سے باقاعدہ جنگ لڑنی پڑے گی اور جیسا کہ سب جانتے ہیں وہ بھی ہماری ہی تربیت یافتہ اور مسلح کی ہوئی ہیں، سو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے تو رہیں، بساط بھر لڑیں اور مقابلہ کریں گی۔ اس کے نتیجے میں ملک کے اندر جو حالات پیدا ہوں گے اسکے تصور ہی سے جان جاتی ہے کیونکہ گھر کے بھیدی بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہمیں اپنی یہ غلط فہمی بھی دور کر لینی چاہیے کہ چین اور روس نے جس طرح سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں شمالی کوریا کے جوہری تجربے پر امریکی تجاویز سے اختلاف کیا ہے اْسی طرح ہمارے کیس میں بھی ان کا رویہ امریکا سے مختلف ہوگا۔

کہنے کو پاکستان نے برکس سربراہی اجلاس کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے یاد دلایا ہے کہ ملک کے اندر قائم دہشتگردوں کی تمام خفیہ پناہ گاہیں ختم کی جا چکی ہیں۔ دفتر خارجہ اور مسلح افواج کے ترجمانوں نے اپنے الگ الگ بیانات میں چین سمیت بین الاقوامی فورموں پر پاکستان کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کا بھی حوالہ دیا جس میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی لازوال قربانیوں کو سراہتے ہوئے اعتراف کیا گیا تھا کہ اسے سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ بیجنگ میں برکس سربراہی اجلاس شروع ہونے سے پہلے تک سب کچھ ٹھیک تھا اور فضا میں صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کی گونج کے سوا کچھ اور سنائی نہ دیتا تھا، یہاں تک کہ ان دھمکیوں اور بھارت کے اشتعال انگیز بیانات کے پیش نظر چین نے پاکستان کا دفاع کرنے بھی اعلان کیا تھا۔

یہی وہ مرحلہ تھا جب بیجنگ میں برکس تنظیم کا سربراہی اجلاس شروع ہوا اور ایک موقعے پر جب بھارت نے پاکستان پر دہشتگردی کو ہوا دینے کے حوالے سے پرانے الزامات دہرانے شروع کیے تو میزبان چین نے اسے سختی سے روک دیا۔ یہی نہیں اس نے دہشتگردی کے خاتمے کی عالمی کوششوں میں پاکستان کے کردار کو بھی سراہا تھا، پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ پاکستان میں موجود دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرکے افغانستان میں امن قائم کرنے کی امریکی کوششوں کی ناکامی سمیت شکست کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اس پر جنگ میں کودنے اور ان کے مہرے کا کردار ادا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کی دھمکیاں اپنی جگہ، ڈر ہے اپنے دیرینہ دوست چین اور ممکنہ طور پر بن سکنے والے نئے اتحادی روس کی وجہ سے ہم امن کی دشمن امریکا نواز عالمی قوتوں کے آگے لیٹ جائیں گے جس کے نتیجے میں یہاں بدامنی اور تباہی کا نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ دعا کرنی چاہیے کہ پاکستان ان کے مسلسل مطالبے سے تنگ آکر کہیں خانصاحب کی طرح اٹھ کھڑا نہ ہو اور ’’ہم پھر سے کرے گا‘‘ کا اعلان نہ کر بیٹھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔