افغانستان کے لیے کثیر جہتی اسٹرٹیجی درکار ہے

ایڈیٹوریل  جمعرات 15 فروری 2018
وقت یہی ہے کہ خطے کے اسٹیک ہولڈرز ان معروضات پر توجہ دیں۔فوٹو: فائل

وقت یہی ہے کہ خطے کے اسٹیک ہولڈرز ان معروضات پر توجہ دیں۔فوٹو: فائل

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنے علاقوں سے دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ختم کردی ہیں، تاہم دہشت گرد 27 لاکھ افغان مہاجرین اور غیر موثر سرحدی انتظامات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچے، جہاں انھوں نے چیفس آف ڈیفنس کانفرنس میں شرکت کی۔

کانفرنس میں پاک آرمی کے سربراہ کے علاوہ کمانڈریوایس سینٹکام، کمانڈر ریسولٹ سپورٹ مشن(آر ایس ایم)اور افغانستان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے آرمی چیف بھی شریک تھے، جب کہ کانفرنس کا اختتام بھی خطے میں امن واستحکام کے لیے تعاون جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ ہوا۔

بلاشبہ اب اس حقیقت کو وسط ایشیائی اور خطے کے پڑوسی ممالک سمیت دنیا کے بیشتر فہمیدہ سیاسی اور سٹرٹیجیکل حلقے تسلیم کرنے لگے ہیں، اور خوش آیند بات یہ ہے کہ ان میں امریکی تھنک ٹینک اور ماہرین عسکریات بھی شامل ہیں، جن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام نہ صرف افغانستان کی بقا کا مسئلہ ہے بلکہ علاقائی امن کے قیام میں پاکستان کو نیوٹرلائز کرکے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا، اگر کوئی ٹھوس تجویز اور قابل عمل حکمت عملی یا لائحہ عمل ہے تو وہ مشترکہ کوششیں اور پراعتماد دہشتگردی مخالف بیانیہ ہے، جس میں پاکستان کے کلیدی کردار کو بھی دل سے تسلیم جب کہ دہشتگردی کے خلاف اس کے فرنٹ لائن کردار اور قربانیوں کا اعتراف بھی کیا جانا چاہیے۔

اس سیاق وسباق میں کابل ڈیفنس چیفس کانفرنس درست سمت میں ایک اہم قدم ہے، تاہم اس کانفرنس کے مقاصد کے لیے تمام ملک دہشتگردی کے حوالے سے متفقہ پالیسی اپنائیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے کوئی خطے میں امن قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا، بلکہ خطے کو بدامنی، قتل وغارت، دہشتگردی اور شورش و خودکش حملوں سے ناقابل بیان نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا، اس لیے اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، علاقائی اور عالمی قوتیں افغانستان میں مستقل امن کے لیے مل بیٹھیں، اعتماد سازی کے ساتھ ساتھ کثیر جہتی اسٹرٹیجی بنا کر دہشتگردی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کرا دیں۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ علاقائی امن و استحکام کا راستہ افغانستان سے گزرتا ہے، خطے اکٹھے ترقی کرتے ہیں، انفرادی طور پر نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے علاقے میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کردیں تاہم دہشت گرد 27 لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی اور غیر موثر سرحدی انتظامات کا فائدہ اٹھاتے ہیں، ایسے دہشت گردوں کو آپریشن ردالفساد کے ذریعے نشانہ بنایا جارہا ہے۔

آرمی چیف نے کہا کہ پاکستانی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور جواب میں پاکستان بھی دوسرے ممالک سے اسی رویے کی امید رکھتا ہے، مشترکہ سوچ اور تحمل کے ساتھ تمام چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، جس کے لیے پاکستان اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ ادھر افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری کا کہنا تھا کہ افغانستان اس امر کا خواہاں ہے کہ علاقہ میں امن ہو، اور اس نوعیت کی کانفرنسز کے ذریعہ علاقائی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے، متفقہ لائحہ عمل طے پائے، جس کے تحت دہشتگردی کے خلاف مشترکہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوں۔

اس موقع پر پاکستان کے بری فوج کے سربراہ کے حوالہ سے میڈیا میں مزید نکات سامنے لائے گئے جن کی روشنی میں جنرل باجوہ نے کانفرنس کے شرکا کو یقین دلاتے اور پاکستان کا موقف واضح کرتے ہوئے حالیہ پاک افغان ایکشن پلان کے غیر متحرک ہونے کی اصل وجہ بھی پڑوسی ملک کی پیدا کردہ بدگمانی اور الزام تراشیوں کی مخاصمانہ روش کو ذمے دار ٹھہرایا اور کابل حکومت پر زور دیا کہ اس کو پاکستان کے مثبت اور تعمیری اقدامات اور اچھے کاموں کا مسکت جواب دینا چاہیے۔

ان کی جانب سے اٹھایا گیا یہ تردیدی نکتہ عالمی برادری اور خطے کے ملکوں کے لیے چشم کشا ہوگا کہ امریکا اور افغان حکام کو پاکستان کے خلاف اس قسم کے ناروا الزامات کی یورش سے اجتناب کرنا چاہیے کہ پاکستان میں دہشتگردی کی پناہ گاہیں افغانستان میں صورتحال کو خراب کرنے میں مددگار ہوتی ہیں، انھوں نے قطعی دو ٹوک انداز میں کہا کہ دہشتگردوں کی پناہ گاہیں پاک فوج نے نیست ونابود کردی ہیں۔

وقت یہی ہے کہ خطے کے اسٹیک ہولڈرز ان معروضات پر توجہ دیں، پاکستان خطے کی بھلائی کے لیے یہ سب کچھ کررہا ہے، اور یہ ناقابل تردید زمینی حقیقت بھی ہے کہ پاکستان پورے جنوبی ایشیائی خطے سمیت عالمی امن کے لیے نہ صرف افغانستان بلکہ کنٹرول لائن اور مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی ظلم وبربریت کے خاتمہ اور امن کے قیام کے لیے ٹھوس تجاویز دیتا رہا ہے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے یہ مطالبہ کیا کہ عالمی برادری کنٹرول لائن پر بڑھتی ہوئی کشیدگی سے نمٹنے کے لیے بھارت اور پاکستان میں فوجی مبصر گروپ کو توسیع دے کیونکہ کسی بھی تنازع کی بنیادی وجوہ پر توجہ دیے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔

ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے عالمی ادارے کی اسپیشل کمیٹی آن پیس کیپنگ آپریشنز کے اجلاس میں کہا کہ کنٹرول لائن پر موجود خطرات اور حقائق کے پس منظر میں مبصر گروپ میں توسیع کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ مبصر گروپ خطے میں استحکام کا ناگزیر عنصر ہے، اقوام متحدہ کو پاکستان کی اس انسانی اپیل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

افغانستان ایک ایسا میدان جنگ بنادیا گیا ہے جہاں امریکا اپنی تاریخ کی سب سے طویل ترین جنگ لڑنے کے باوجود افغانیوں کی طرف کوئی فاختہ چونچ میں امن کی شاخ کا پیغام لے کر وارد نہیں ہوئی۔ امریکا نے اس جنگ زرگری میں کھربوں ڈالر برباد کر ڈالے، جب کہ دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستانی عوام، پاک فوج اور ملکی معیشت نے انسانی جانوں اور مالی خسارے کے درد انگیز مصائب کا سامنا کیا، مگر ٹرمپ انتظامیہ اب بھی پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرنے کا ارادہ ترک کرنے پر تیار نہیں۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ اس سے طرف داری، تجاہل عارفانہ، سنگ دلی اور پاکستان سے ناانصافی کی کوئی دوسری مثال کیا ہوسکتی ہے۔ آج ہی کی خبر ہے کہ پاکستان کو گلوبل ٹیرررسٹ واچ لسٹ پر ڈالنے کے ارادے ہیں تاکہ پاکستان کے گرد معاشی گھیرا تنگ کیا جائے۔

اگرچہ پاکستان کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ واچ لسٹ پر نامزدگی واپس لینے کی بات امریکا نے نہ مانی تب بھی ہم اسے واپس کرائیں گے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ امریکا نے فرانس اور جرمنی سے بھی کہا ہے کہ وہ اس کی تحریک کو سپانسر کریں، بھارت افغانستان میں بیٹھ کر علاقے کا چوہدری بننے کاخواب دیکھ رہا ہے، اس لیے ارباب اختیار کو خطے کی سیاسی، عسکری اور تزویراتی حرکیات اور عالمی قوتوں کی خفیہ مگر سریع الحرکت اسٹرٹیجی سے غافل نہیں رہنا چاہیے، ہر دم الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔