قاضی واجد، عاصمہ جہانگیر اور حنیف شاہد

امجد اسلام امجد  جمعرات 15 فروری 2018
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ اس دنیا میں ہر کوئی واپس جانے کے لیے آتا ہے، سو دیکھا جائے تو آمد کی گھڑی اور کوچ کا نقارہ اصل میں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جو لمحہ ہماری زندگیوں میں جمع ہوتا ہے وہی منفی بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ دنیا بھر کا ادب اور شاعری اس مضمون سے بھرے پڑے ہیں بلکہ کئی زبانوں میں تو ’’مرثیہ‘‘ باقاعدہ ایک صنف سخن بن گیا ہے۔

اردو غزل اور دیگر کئی زبانوں میں کی جانے والی صوفیانہ شاعری میں بھی اس پر بہت کچھ اور بہت خوب لکھا گیا ہے، یہ وہ حقیقت ہے جسے ہر کوئی جانتا ہے مگر اسے ’’ماننے‘‘ کے ضمن میں مختلف رویے دیکھنے میں آتے ہیں بالخصوص جب کوئی ایسا انسان رخت سفر باندھتا ہے جس نے اپنے عرصہ حیات میں کسی نہ کسی حوالے سے ایسے نقش چھوڑے ہوں جنہوں نے نہ صرف اس کے ارد گرد کی زندگی کو متاثر کیا ہو بلکہ جو اس کی جسمانی عدم موجودگی کی صورت میں بھی زندہ اور نمایاں رہیں تو ’’قبولیت‘‘ کی اس ہچکچاہٹ میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ شاید اب یہ خلا کبھی پر نہیں ہو سکے گا۔

جذباتی اور ذاتی حوالے سے اس تاثر کی سچائی اپنی جگہ مگر امر واقعہ یہی ہے کہ جذبہ اور ذات خود بھی وقت کے ساتھ مدھم اور تحلیل ہو جاتے ہیں اور اربوں کی اس آبادی میں گنتی کے چند لوگ ہی اس مقام تک پہنچ پاتے ہیں جو صرف ایک صدی یا تین نسلوں تک کی یادداشت کا امتحان پاس کر سکے ورنہ کچھ عرصے کے بعد قبرستان میں عام اور گمنام لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے دور میں ’’ناگزیر‘‘ سمجھے جانے والوں کی قبریں بھی پہچان کھو بیٹھتی ہیں۔ ضیا جالندھری مرحوم کا ایک بہت باکمال اور گہرا شعر ہے  ؎

اب یہ آنکھیں کسی تسکین سے تابندہ نہیں

میں نے رفتہ سے یہ جانا ہے کہ آیندہ نہیں

11فروری کو چند گھنٹوں کے درمیان یہ شعر مجھے تین بار یاد آیا کہ اس روز یکے بعد دیگرے قاضی واجد‘ عاصمہ جہانگیر اور ڈاکٹر حنیف شاہد کی رحلت کی خبریں سامنے آئیں، تینوں شخصیات کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے تھا لیکن ان میں مشترک بات یہ تھی کہ تینوں اپنے اپنے شعبے کے عظیم ترین نہ سہی لیکن نامور لوگ تھے اور مجھے ذاتی طور پر تینوں سے ہی تعارف، ملاقاتوں اور ہم سفری کا شرف حاصل رہا ہے اور مجھے ان کے کمال فن اور شخصیت دونوں سے بہت گہری نہ سہی لیکن معقول حد تک آگاہی اور واقفیت بھی ہے اور یوں ان کی رحلت اجتماعی کے ساتھ ساتھ میرے لیے ایک ذاتی صدمے کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔

قاضی واجد ریڈیو‘ تھیٹر اور فلم کے راستے سے ٹیلی ویژن تک پہنچے جو ان کی پہچان کا سب سے مضبوط اور مستقل حوالہ بنا لیکن ان کا شمار فن ادا اور صداکاری کے حوالے سے ان لوگوں میں ہوتا ہے جو جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔

کراچی ریڈیو ہو یا خواجہ معین الدین کے تاریخ ساز اسٹیج ڈرامے قاضی واجد کا ان کے ساتھ عمر بھر کا ساتھ رہا ہے اور جن لوگوں نے بھی ان کے ساتھ کام کیا یا ان کو دیکھا اور سنا ہے وہ سب کے سب یہ فیصلہ کرنے میں مشکل کا شکار نظر آتے ہیں کہ وہ فن کار زیادہ بڑے تھے یا انسان۔ ہمہ وقت ایک مسکراتا ہوا چہرہ‘ ہر کام میں لگن اور ذمے داری کا احساس۔ مودب اور مشفق‘ اپنی کامیابیوں پر عجز اور دوستوں کی ترقی پر خوشی کا اظہار کرنے والے قاضی واجد بلاشبہ ایک ہر دلعزیز اور ورسٹائل فن کار تھے۔

ان سے آخری ملاقات گزشتہ دسمبر میں کراچی آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس کے دوران ہوئی۔ عمر اور بیماری کے مسائل کے باوجود ان کی مخصوص مسکراہٹ کی تازگی اور گرمجوشی حسب معمول تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے برادرم وکیل انصاری امریکا سے آئے تھے وہ بھی ان ملاقاتوں میں موجود تھے اور وہیں پتہ چلا کہ وہ اور قاضی واجد خالہ زاد بھائی بھی ہیں۔اسی طرح بچپن میں دیکھی ہوئی پاکستانی فلم ’’بیداری‘‘ کے فیس بک پر پوسٹ کیے گئے ایک پوسٹ کی معرفت ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے اداکاروں میں قاضی واجد بھی شامل تھے۔

یہ خبر عقیل عباس جعفری نے لگائی تھی جن کی معلومات کا خزانہ واقعی لائق تحسین ہے۔ اس پرآشوب زمانے میں ایسی طویل‘ نیک نام اور ہر دلعزیزی کی حامل زندگی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ قاضی واجد کی روح پر بھی رب کریم کا فضل اسی طرح جاری رہے گا جو ان کی زندگی میں تھا اور وہ مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کے دلوں میں دیر تک زندہ رہیں گے۔

عاصمہ جہانگیر قانون‘سیاست اور انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے بلاشبہ ایک بہت مشہور بھرپور اور متحرک شخصیت تھیں۔ زندگی بھر جن خبروں کے حوالے سے ان کا نام اور کام سامنے آتا رہا ان کی ایک قدر مشترک ’’تنازعہ‘‘ بھی تھی، ان کے نظریات‘ طرز زندگی‘ انداز نظر‘ جرات اظہار اور ہر طرح کی پابندی سے آزاد سوچ کے جتنے بھی مظاہر‘ جس بھی حوالے سے سامنے آئے ان میں کہیں نہ کہیں تنازعے کی حدوں کو چھوتے ہوئے شدید اختلاف کا پہلو عام طور پر سب سے نمایاں رہا اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے حق میں اور خلاف دونوں طرف سے بہت پر جوش انداز میں متنازعہ نوعیت کی باتیں کی جا رہی ہیں جو واقعیت کے اعتبار سے شاید صحیح ہوں اور ان پر اظہار رائے کی آزادی بھی یقیناً سب کا حق ہے (کہ وہ تو خود زندگی بھر اس حق کا کھل کر اظہار اور استعمال کرتی رہی ہیں) لیکن اب ان کی وفات کے بعد یہ کیس ایک ایسی عدالت میں پہنچ گیا ہے جو نہ صرف آخری ہے بلکہ ہر چیز کی حقیقت کو جانتی اور مالک و مختار ہے اور ہم نہیں جان سکتے کہ اس کا فیصلہ کیا ہو گا۔

سو ان سے محبت کرنے والوں کے جذبے کی تعظیم کرنے اور ان سے اختلاف رکھنے والوں کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کے کارناموں یا اعمال پر فیصلے صادر کرنے کے بجائے تحمل اور رواداری سے کام لیں۔ ہر غیرمعمولی انسان کی طرح عاصمہ جہانگیر بھی کسی مسئلے یا معاملے کو اس کی ظاہری سطح اور موجود حالت سے اوپر اٹھ کر کسی اور زاویے سے دیکھنے اور سمجھنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتی تھیں، آپ ان کے انداز نظر یا اخذ کیے ہوئے نتیجے سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس کا طریقہ دوسرے کی بات کو رد یا مطعون کرنا یا اس کی نیت‘ عمل اور محرکات پر شک شبے کا اظہار کرنا نہیں اس کے مقابلے میں اپنی طرف سے بہتر بات کرنا یا زیادہ موزوں حل نکالنا ہوتا ہے۔

مخالف کی اچھائی یا سچائی کتنی بھی جزوی کیوں نہ ہو اس کا کریڈٹ اس کو دینا چاہیے اور کسی متنازعہ ’’عمل‘‘ کی وجہ سے اس ’’اصول‘‘ سے روگردانی نہیں کرنی چاہیے جو اپنی جگہ پر صحیح اور برحق ہو اور جسے آپ خود بھی دل سے تسلیم کرتے ہوں، سو ان کے حامی اور مخالفین نظریاتی سطح پر بے شک اپنے اپنے موقف پر قائم رہیں لیکن جس کی جتنی بات صحیح ہو اسے مان کر درگزر کی وہ Space بھی پیدا کریں جس کا مقصد افراد پر بحث سے ہٹ کر اجتماع کی فلاح و بہبود اور حقوق کی جنگ اور پاسداری ہو اور مل کر جانے والوں کے لیے مغفرت کی دعا‘ ان کی غلطیوں سے درگزر اور ان کی نیکیوں سے کسب فیض کا رویہ اپنانا چاہیے کہ ایک دن ہم سب نے بھی اس منزل سے گزرنا ہے۔

ڈاکٹر حنیف شاہد بنیادی طور پر نقاد اور محقق تھے اقبال اور تحریک و تعمیر پاکستان ان کے محبوب ترین موضوعات تھے وہ محنتی‘ انتھک اور خاموشی سے کام کرنے والے انسان تھے اور یوں ان کا شمار ان Unsung Heros میں ہوتا ہے جو نام کے بجائے اپنے عمل میں زندہ رہتے ہیں۔یوں تو ان سے تعارف بہت پرانا تھا لیکن براہ راست ملاقاتیں مشترکہ موضوعات اور مکانی فاصلوں کی وجہ سے نسبتاً کم رہیں۔

نوے کی دہائی میں ریاد کی کچھ تقریباً اور حالیہ دور میں بزم اقبال کے دفتر اور برادرم سعید جاوید کے گھر پر ان سے تفصیلی بات چیت کا موقع ملا اور ہر بار میں نے ان کو کسی علمی اور تحقیقی کام میں مگن پایا، ان کی تحریروں میں بھی ان کے مزاج کا دھیما پن‘ رواداری اور انصاف پسندی غالب ہے، ان کا کام معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے وقیع اور لائق تحسین ہے۔ آج کے حوالے سے وہ تیر کے اس شعر کی منہ بولتی تصویر تھے کہ

فقیرانہ آئے صدا کر چلے

میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔