میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

لطیف چوہدری  جمعرات 15 فروری 2018
latifch910@yahoo.com

[email protected]

آج مصطفیٰ زیدی کے اس شعر سے کالم کا آغاز کر رہا ہوں‘

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

آج کل سابق پی آئی او راؤ تحسین علی خان اس شعر کی عملی تفسیر بنے نظر آتے ہیں‘ جس طرح میاں نواز شریف ہر جلسے‘ اجلاس اور پریس کانفرنس میں پوچھتے ہیں‘ مجھے کیوں نکالا‘ راؤ تحسین بھی یہی سوال دہراتے ہیں کہ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں کیونکہ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے 10فروری کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہہ دیا ہے کہ نیوز لیکس سکینڈل کی جو تحقیقاتی رپورٹ انھوں نے وزیراعظم کو بھجوائی تھی‘ اس میں طارق فاطمی اور راؤ تحسین کو خبر لیک کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا گیا تھا۔

اکتوبر 2016ء میں جب نیوز لیکس سکینڈل منظرعام پر آیا تب نواز شریف وزیراعظم تھے۔ یہ سرل المیڈا کی ایک خبر تھی جو ڈان اخبار میں شایع ہوئی‘ یہ خبر وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں  ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ہونے والی  مبینہ گفتگو کے بارے میں تھی ‘ اجلاس میں اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف‘ آئی ایس آئی کے سربراہ رضوان اختراور چاروں وزرائے اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام شریک تھے۔اس خبر کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہوا اور اس کے آفٹر شاکس شاید اب تک محسوس ہو رہے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کریں کہ اس خبر کے افشا کا ذمے دار کون ہے‘ اس کے بعد انھوں نے طارق فاطمی‘ پرویز رشید اور راؤ تحسین کو بلایا اور ان سے پوچھ گچھ کی۔ چوہدری نثار علی خان نے راؤ تحسین کو10بار طلب کیا اور ان کی اپنے تئیں ڈی بریفنگ کی اور اپنی رپورٹ وزیراعظم کو بھجوا دی ۔اس کے بعد حکومت پر مزید پریشر آیا اور وزیراعظم نواز شریف نے ریٹائرڈ جسٹس عامر رضا کی سربراہی میں 7رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی۔

اس کمیٹی کے دیگر اراکین میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ سید طاہر شہباز‘ صوبائی محتسب پنجاب نجم سعید‘ ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور آئی ایس آئی ‘ ایم آئی اور آئی بی کا ایک ایک نمایندہ شامل تھا۔ اس کمیٹی نے اپنی حتمی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کر دی‘ یہ رپورٹ تاحال مکمل طور پر جاری نہیں کی گئی‘ اس کا بس وہی حصہ جاری کیا گیا جس کی منظوری وزیراعظم نواز شریف نے دی تھی‘ اس رپورٹ کے بعد راؤ تحسین کو پی آئی او کے عہدے سے ہٹا دیا گیا جب کہ طارق فاطمی کو بھی مشیر خارجہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ۔

اب چوہدری نثار صاحب نے فرمایا ہے کہ نیوز لیکس پر میری رپورٹ میں راؤ تحسین اور طارق فاطمی کے نام شامل نہیں تھے‘  اس مہربانی کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔ لگے ہاتھوں انھیں یہ بھی بتا دینا چاہیے تھا کہ وہ کون سے معاملات تھے کہ راؤ تحسین کو بار بار بلانے پر بھی تسلی نہیں ہو رہی تھی حالانکہ کسی دوسری شخصیت کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا‘ بہرحال چوہدری صاحب راؤ تحسین کی دس بار ڈی بریفنگ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ وہ اس معاملے میں بے قصور ہیں۔

اس خصوصی سلوک کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جو سب سے کمزور ہے‘ اسے لتاڑتے رہو‘ بیچارے راؤ تحسین کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا‘ وہ سرکاری افسر تھا‘ بار بار پیش ہوتا رہا اور مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا چلا گیا‘ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر طارق فاطمی بھی ذمے دار نہیں تھے تو انھیں مشیر خارجہ کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟اگر راؤ تحسین بے قصور تھے تو ان کا کیریئر کیوں اور کس لیے تباہ کر دیا گیا۔

راؤ تحسین کو محض اس وجہ سے ترقی نہیں دی گئی کہ ان کا نام نیوز لیکس سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ میں شامل ہے‘ اب جب کہ اس وقت کے وزیر داخلہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ دونوں حضرات بے قصور تھے تو پھر یہ انضباطی کارروائی کیوں کی گئی۔ چوہدری نثار علی خان ایک بااصول اور دبنگ وزیر داخلہ تھے‘ انھیں حقائق کا علم تھا تو پھر انھوں نے یہ ناانصافی کیوں ہونے دی؟ تب ان کی خاموشی کی وجہ کیا یہ تھی کہ ان سے زیادہ طاقتور شخص کا فیصلہ تھا اور انھوں نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ طارق فاطمی تو چلیں بطور ڈپلومیٹ اپنا کیریئر مکمل کر چکے تھے۔

مشیر خارجہ کے عہدے سے انھوں نے استعفیٰ ضرور دیا لیکن عملاً وہ تب تک عہدے کی مراعات لیتے رہے جب تک نوازشریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کا منصب نہیں سنبھالا۔راؤ تحسین کا معاملہ البتہ دوسرا ہے، انھیں نہ صرف پی آئی او کے عہدے سے ہٹانے کی سزا دی گئی بلکہ ان کے خلاف انکوائری کمیٹی بھی بنا دی گئی۔ ریکارڈ مدت تک پی آئی او کے عہدے پر فائز رہنے والے ایک شاندار افسر کا کیریئر تباہ ہوگیا۔ پروموشن بورڈ میں جب بھی ان کا نام آیا ‘آگے نیوز لیکس کھڑی نظر آئی۔

کسی اعلیٰ سرکاری افسر کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی کوئی اور نہیں ہو سکتی کہ اسے ترقی سے محروم کر دیا جائے‘ یہاں تو معاملہ صرف ترقی سے محرومی کا ہی نہیں بلکہ کیرئیر پر داغ کا بھی ہے۔ میاں نواز شریف نے طارق فاطمی کو تو سینیٹ کا ٹکٹ دے کر انھیں پہنچنے والے نقصان کی تلافی کر دی ہے جب کہ راؤ تحسین آج بھی افسربیکار خاص کا تمغہ سجائے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں ‘ اب وہ کس سے فریاد کرے اور کس سے انصاف مانگے۔

جسٹس عامر رضا صاحب کی سربراہی میں جو تحقیقاتی کمیٹی قائم ہوئی تھی‘ اس کی بنیادی خامی یہ تھی کہ اس میں جن اراکین کو شامل کیا گیا‘ ان میں ایک بھی ایسا نہیں تھا جسے میڈیا کے میکنزم کے بارے میں علم ہوتا‘ اب سمجھ نہیں آئی کہ وہ کون عالی دماغ تھے جنہوں نے اس معاملے میں ذمے داری پی آئی او پر ڈالی حالانکہ صحافت کے اسرار و رموز سے آشنا لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ کوئی سرکاری افسر کسی نیوز ایڈیٹر یا ایڈیٹر سے منت سماجت کرکے چھوٹی موٹی کوئی خبر لگوا تو سکتا ہے‘ اسے رکوا نہیں سکتا۔ جب معاملہ بڑی خبر کا ہو تو پھر کسی افسر کی سنی نہیں جاتی۔ میرا خیال ہے۔

اگر اس تحقیقاتی کمیٹی میں وزارت اطلاعات کا کوئی تجربہ کار افسر بھی شامل ہوتا تو معاملات کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا تھا‘ لگتا ہے کہ کمیٹی تشکیل دیتے  وقت کسی نے اس اہم ترین پہلو کو مدنظر نہیں رکھا یا پھر جان بوجھ کر ایسا کیا گیا تاکہ جو کمزور ہو‘ اسے آسانی سے نشانہ بنایا جا سکے۔

شاید اب بھی اس نقصان کا ازالہ کیا جا سکتا ہے ‘ چوہدری نثار علی خان کے انکشاف کے بعد اس معاملے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ بے گناہوں کو مزید اذیت اور رسوائی سے بچایا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ آخر میں تو بس اتنا ہی کہوں گا‘ شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔