لوگوں کو کتاب کی طرف مائل کرنا جہاد ہے، خالد شریف

حسان خالد  جمعرات 15 فروری 2018
معروف شاعر اور ناشر خالد شریف کے حالات زیست۔ فوٹو: فائل

معروف شاعر اور ناشر خالد شریف کے حالات زیست۔ فوٹو: فائل

زمانۂ طالب علمی میں ہی معروف شاعر خالد شریف نے بطور شاعر اچھی پہچان بنا لی تھی۔

اپنے کالج کی طرف سے شاعری کے بہت سے مقابلے جیتے۔ حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ طلبہ کے ایک مشاعرے میں اول انعام کے حقدار قرار دیئے گئے تو مشاعرے کے منصف اعلیٰ نے دوسرے نمبر پر آنے والے طالب علم کو پہلا انعام دیا اور خود انہیں یہ اعزاز بخشا کہ وہ طالب علموں کی نشست میں سے اٹھ کر اسٹیج پر موجود شعراء کے درمیان بیٹھ جائیں۔ یہ منصف اعلیٰ ممتاز شاعر ضمیر جعفری تھے، جنہوں نے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ اس دن کے بعد خالد شریف نے پھر کبھی طالب علموں کے درمیان نہیں پڑھا۔

معروف شاعر خالد شریف 1946ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے بزرگ کاروبار اور کاشتکاری سے منسلک تھے، جنہوں نے تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی۔ مشن ہائی اسکول راولپنڈی سے میٹرک کرنے والے خالد شریف ابتدا سے ہی اردو اور فارسی کے مضامین میں دلچسپی لینے لگے۔ آٹھویں، نویں جماعت تک وہ حافظ، رومی اور سعدی جیسے شعراء کو پڑھ چکے تھے۔ گورنمنٹ کالج راولپنڈی میں انہیں فارسی کے بہت اچھے استاد ملے، جن میں انور علی بخش اور عتیق الرحمان شامل ہیں۔

اردو اور فارسی ادب سے فطری لگائو کی وجہ سے ان کی ادبی ذوق کی تربیت ہوئی۔ طلبہ کے مابین ہونے والے شاعری کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا، ان میں پذیرائی ملی تو شاعری کا سلسلہ چل نکلا۔ اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد انکم ٹیکس کے محکمے میں ملازمت اختیار کر لی۔

ان کی شناخت کا ایک معتبر حوالہ اشاعتی ادارہ ’ماورا‘ ہے، جس کا 45 برس پہلے قیام عمل میں آیا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میرے چار ماموں راولپنڈی میں تھے، چاروں کے پرنٹنگ پریس تھے اور میں انہی پریسوں میں پلا بڑھا۔ تھوڑا سا شعور آیا تو وہاں پر میں نے کمپوزنگ سیکھی اور اشاعت کے مراحل کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔ میرے زمانہ طالب علمی میں کشمیری بازار کی نکڑ پر ایک دوست کا کتابوں کا ایک کھوکھا تھا، جہاں بیٹھ کر میں مفت کی کتابیں پڑھتا اور دوست کی غیرموجودگی میں بیچتا بھی تھا۔ اس طرح مجھ میں حوصلہ پیدا ہوا کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں۔ کتاب دوستی شروع سے ہی تھی، اس لیے پھر اسی دوست کے ساتھ مل کر کتابیں چھاپنے کا فیصلہ کیا۔

یہ تجربہ کامیاب رہا۔ بعد ازاں ہم دونوں حصہ داروں نے اپنا کام الگ الگ کر لیا۔‘‘ اپنے اشاعتی ادارے سے انہوں نے احمد فراز، منیر نیازی، مظفر وارثی، قتیل شفائی اور امجد اسلام امجد جیسے شعراء کے شعری مجموعے شائع کرنے کے علاوہ کئی نئے شعراء کو بھی متعارف کرایا، جن میں سرفہرست محسن نقوی ہیں۔

کتابوں کی اشاعت میں اتنے مگن ہوئے کہ ایک وقت میں سرکاری نوکری بوجھ محسوس ہونے لگی، انہوں نے سرکاری ملازمت کو خیرباد کہا اور کتب بینی کو فروغ دینے کے جذبے کے تحت پبلشنگ کے کام میں یکسو ہو گئے۔ ان کے بقول، ’’یہ دور پبلشرز کے لیے تھوڑا مشکل ہے، کیونکہ کتاب خریدنے اور پڑھنے کے کلچر میں کمی آئی ہے۔ لیکن لوگوں کا کتاب سے تعلق قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس محاذ پر ہم ڈٹے رہیں۔ لوگوں کو کتاب کی طرف مائل کرنا جہاد ہے۔ ہمارا زیادہ کام شاعری سے متعلق ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے ادارے نے نمایاں کام کیا ہے۔‘‘

اپنے شعری نظریہ کے بارے میں وہ بتاتے ہیں، ’’میں سمجھتا ہوں کہ زندگی خوبصورت ہے، زندگی میں خوبصورتیوں کی تلاش کرنی چاہیے اور زندگی کو خوش اسلوبی سے گزارنا چاہیے۔ اس لیے ادب میں بھی خوبصورتی تخلیق کرنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ادب برائے زندگی کی تلاش میں اتنا کرخت اور بھدا لکھ دیں کہ آپ کو اچھا لگے، نہ کسی اور کو۔‘‘ ان کے اب تک چھ شعری مجموعے ’’نارسائی‘‘ ، ’’بچھڑنے سے ذرا پہلے‘‘، ’’گزشتہ‘‘، ’’وفا کیا ہے‘‘ ، ’’کسی کمزور لمحے میں‘‘ اور ’’رت ہی بدل گئی‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی شاعری پر ایک ایم اے اور دو بی ایس کے مقالے لکھے گئے ہیں۔ غالب کی شاعری کے مداح خالد شریف کو کھانے میں جو ملے، کھا لیتے ہیں، لیکن والدہ کے بنائے ہوئے کھانے انہیں کبھی نہیں بھولتے۔ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے والد ہیں۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

خالد شریف کے اس شعر کو جتنا قبول عام ملا، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ یہ شعر انہوں نے 80 کی دہائی میں، اپنے ایک دوست کے بارے میں کہا، جن کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا۔ شعر کو ملنے والی غیرمعمولی مقبولیت پر ان کے تاثرات پوچھے تو کہنے لگے: ’’بس اللہ کا کرم ہو جاتا ہے کہ کسی شعر کو بہت مقبولیت مل جاتی ہے۔ اس میں شاعر کی کوئی شعوری کوشش نہیں ہوتی۔ جب ہم نے یہ شعر کہا تھا، اس وقت ہمیں تھوڑی معلوم تھا کہ یہ اتنا مقبول ہو جائے گا۔ کچھ گلوکاروں نے یہ غزل گائی اور لوگوں نے اس شعر کو بہت پسند کیا۔میرے خیال میں تو اس کے علاوہ میرے بہت سے شعر اچھے ہیں۔ اس شعر کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ میں جب پہلی بار ناروے گیا، وہاں میرے جو میزبان تھے، وہ صبح ناشتے کے بعد کہنے لگے کہ آپ کو ایک بڑی اہم جگہ لے جانا ہے۔ وہ مجھے ناروے کا جو مرکزی قبرستان ہے وہاں لے گئے اور کہنے لگے، دیکھئے جناب، آپ کا یہ شعر دس سال سے لکھا ہوا ہے اور آپ یہاں اب آئے ہیں۔‘‘

 ماورا
میرے اشاعتی ادارے کا نام ایک وقت میں ’’خالد اکیڈمی‘‘ تھا۔ ان دنوں میں کسی سرکاری کام کے سلسلے میں ملتان گیا ہوا تھا۔ میں وہاں جا کر جس ہوٹل میں ٹھہرا، اس کا نام ’’ماورا‘‘ تھا۔ میں نے ان سے پوچھا، ’’بھئی یہ نام آپ نے کیسے رکھا؟‘‘ چونکہ اس وقت تک میں ن۔م۔راشد کو پڑھ چکا تھا اور ان کی کتاب ’’ماورا‘‘ کا شیدائی تھا۔

ہوٹل والوں نے کہا، ’’ہمیں تو معلوم نہیں۔ یہاں امروز کے ایڈیٹر صاحب نے کہہ کر رکھوایا ہے۔‘‘ وہ مسعود اشعر صاحب تھے۔ میں نے اسی وقت تہیہ کیا کہ اگر ایک ہوٹل کا مالک یہ نام رکھ سکتا ہے تو ہم اپنے اشاعتی ادارے کا یہ نام کیوں نہیں رکھ سکتے۔ اس کے بعد سے ہم نے ’’ماورا‘‘ کے نام سے سفر کا آغاز کیا۔ ابتدا میں لوگوں نے مخالفت کی کہ یہ مشکل نام ہے، لیکن آہستہ آہستہ زبان پر چڑھ گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔