جناب زرداری کا فون اور صحافت اور سیاست

عبدالقادر حسن  جمعـء 29 مارچ 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کی ہی نہیں شاید دنیا بھر کی سیاسی جمہوری تاریخ کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہوا کہ پاکستان جیسے لڑائی بھڑائی والے متنازع سیاسی ملک میں ایک سیاسی پارٹی یا یوں کہیں کہ ایک سیاستدان کی ایسی حکومت قائم ہوئی اور آئین کے مطابق پانچ سال اسی انداز میں چلتی بھی رہی اور اب بھی چلی جا رہی ہے کہ اس کی کوئی اپوزیشن نہیں تھی اور نہ ہے۔ نتیجہ یہ کہ الیکشن کرانے کے لیے جب نگراں حکومتیں مرکز اور صوبوں میں قائم ہوئیں تو وہ بھی ہر طرح کی اپوزیشن کے بغیر اور اسی سیاستدان کی نامزد جس نے سیاسی تاریخ کا یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا یعنی آصف زرداری۔

میرا ایک ناپسندیدہ سیاستدان لیکن میرے جیسے ایک سیاسی وقایع نگار کی کمزوری اور مجبوری کہ وہ سامنے کے حالات سے انکار نہیں کر سکتا،  خواہ یہ اس کی پسند اور نظریات کے کس قدر خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جس کے مطابق میں نے آصف علی زرداری کی حکومتی ناکامیوں کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت میں یا ان کی سیاسی کامیابی کے اعتراف میں کالم لکھا جس پر میرے دوستوں اور بعض قارئین نے برا منایا کہ یہ تمہیں زیب نہیں دیتا تھا لیکن رات کو جناب آصف زرداری نے فون کر کے اس پر میرا شکریہ ادا کیا۔

فون انھوں نے کیا تھا،  اس لیے وہ میرے ایک مہربان مہمان تھے،  اس لیے میں نے ان سے ان کی حکومت کی کمزوریوں پر بات بہت کم کی لیکن چلتے چلتے انھوں نے دو تین ایسی چونکا دینے والی زبردست سیاسی پیش گوئیاں کر دیں کہ اس اچانک حملے پر میں دم بخود رہ گیا۔ یہ بات چونکہ آصف زرداری جیسا آدمی کہہ رہا تھا، اس لیے یہ کسی نجومی کی بات نہیں تھی،  ایک حیران کن کامیاب سیاستدان کی پیش گوئی تھی جس کا کامیاب سیاسی ماضی اس کے مستقبل کے کامیاب اندازوں کی تصدیق کر رہا تھا۔

ایک صحافی کے پنجاب جیسے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بن جانے پر صحافی حلقوں میں صحافت اور عملی سیاست پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ پاکستان کی صحافتی زندگی میں اگرچہ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے لیکن ماضی میں بھی جب کبھی کوئی ایسا واقعہ ہوا تو یہی بحث شروع ہوتی۔ ایسا حادثہ خود مجھ پر بھی گزر چکا ہے لیکن اس وقت میری صحافت کی ابتدا تھی اور یوں یہ واقعہ ناقابل ذکر تھا۔ میں نے جب صحافت کا آغاز کیا تھا، میں ایک جماعت کا باقاعدہ رکن تھا اور اس زمانے میں اس محتاط جماعت کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا تھا۔

ہمارے آئین کی 63-62 دفعات سے بھی بڑی آزمائشوں سے، لیکن میں نے صحافی بننے کا فیصلہ کیا اور چونکہ صحافت اور سیاست کے تقاضے متضاد تھے اور سیاسی معاملات اور صحافت میں چپقلش کی صورت میں جماعت کی سیاست کو ترجیح دینی پڑتی تھی اس لیے میں نے جماعت سے استعفیٰ دے دیا۔ جماعت کے سربراہ سید مودودی نے بڑی ناگواری سے اسے منظور کیا۔ اس کے بعد میری ذات کی حد تک یوں ہے کہ صحافت کریں یا سیاست یہ دُہری شہریت اس ریاست میں جائز نہیں۔

میں دیکھتا ہوں کہ میرے بعض کرمفرما اور دوست صحافت کسی کاروباری منفعت کے لیے کرتے ہیں اور جاری رکھے ہوئے ہیں اور یوں صحافت کاروبار اور تجارت کی دہری شہریت، شانہ بشانہ چل رہی ہیں۔

ہے مشق سخن جاری چکّی کی مشقت بھی

اب صحافت اور تجارت میں مشقت کس میں ہے فیصلہ آپ خود کر لیں۔ روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر جناب الطاف حسین سے صحافت اور وزارت کا سلسلہ شروع ہوا جو اب جناب نجم سیٹھی تک آ پہنچا ہے۔ وہ جو کل تک صحافی تھے اب وزیر ہیں۔ یوں تو ان کے بارے میں اور بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن ان کے اندر بھی جناب زرداری کی یہ خصوصیت دکھائی دیتی ہے جو ایک ایسی انٹی بائیٹک والی تاثیر رکھتی ہے کہ اپوزیشن کے جراثیم کو ختم کر دیتی ہے۔ وہ میاں صاحبان، چوہدری صاحبان اور منصورہ والوں سے مل کر ان کی آشیرباد لے چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے وہ خود نامزد ہیں۔ اس طرح وہ جب تک حکومت کریں گے کسی ملامت اور مخالفت سے بے خوف ہو کر کریں گے اور ایسا اقتدار قابل رشک ہے جو اپوزیشن سے آزاد اور مبرا ہو۔ بالکل ایسی صحافت کی طرح جو حکومت اور اخباری مالک کی دھونس اور پابندیوں سے آزاد ہو۔ میں ایکسپریس میں اسی عیش و عشرت کی صحافتی زندگی سے گزر رہا ہوں۔ ڈرتا ہوں بلا روک ٹوک اس کیفیت سے خود ہی نہ گھبرا جائوں کیونکہ ایسا پہلے کبھی ہوا نہیں سوائے ایک وقت کے۔

اطمینان اس بات کا ہے کہ جو لوگ واقعی صحافی ہیں اور پہلے صحافی پھر کچھ اور ہیں انھوں نے اپنے ایک ساتھی کی عملی سیاست کو پسند نہیں کیا۔ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کے ساتھ جناب نجم سیٹھی کی کمٹ منٹ بس ایسی ہی ہے۔ کبھی وہ پاکستان فوج کے خلاف آمادہ جنگ ہو کر بلوچستان کے پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں تو کبھی بھارت جا کر پاکستان سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ بہر کیف منور حسن صاحب اور میاں صاحبان کو ان کا وزیر اعلیٰ مبارک ہو اور اصل خوشی تو جناب زرداری کو ہے جن کا نمایندہ ان کی طرح سب کو قبول ہے اس پر ان کو میں اگر باکمال زرداری کہوں تو آپ ناراض نہ ہوں، میں قارئین کا بے حد احترام کرتا ہوں اور ان سے بے حد ڈرتا بھی ہوں لیکن ایک عرض کہ وہ صرف عنوان پر نہ  جایا کریں اصل بھی غور سے پڑھ لیا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔